شاہ محمود قریشی کے جدِ امجد نے اگرمسلمانوں سے غداری کی تواس کی ذمہ دار جمہوریت ہے۔ چوہدری نثار علی کے دادا نے اگر انگریزوں سے خلعت وصول کی تو یہ سب جمہوریت کا کیا دھرا ہے۔ نواب زادہ نصراللہ خان کے آباء نے اگر انگریزوں کا ساتھ دیا تو اس کی وجہ بھی جمہوریت ہے۔ یہ انوکھا استدلال صرف ایک اخباری کالم ہی میں پیش کیا جا سکتاہے اوروہ بھی ایک ایسے سماج میں جہاںعقلی و نقلی دلیل کے لیے کوئی جگہ نہ ہو۔افسوس کہ پاکستان ایسا ہی ایک سماج بن چکا۔ اس دلیل کی بنیاد پرمسلمانوں کی تاریخ کا سب سے سنہری دور سب سے ناقص قرار پائے گا کہ اُن میں سے کوئی مو روثی مسلمان نہیں تھا۔انبیا علیہم السلام کے بعدانسانوں میں سب سے عالی مرتبت سید نا ابو بکرصدیقؓ سے لے کرفتح مکہ تک، ایمان لانوں والوںکے طرزِ عمل کو کیا اس بنیاد پر پرکھا جائے گا کہ ان کے والد یا داداکا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا؟پھریہ محمد اسد کون تھے؟ آسٹریاکے ایک یہودی خاندان کا چشم و چراغ ہمارے لیے محترم کیوں؟ اسلامی اخلاقیات کے معیار پر اس استدلال کو قبول کیا جا سکتا ہے نہ عمومی اخلاقیات کی اساس پر۔ہر فرداپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔کسی کو یہ طعنہ نہیں دیا جا سکتا کہ اُس کا باپ فلاںمذہب کا ماننے والا یا فلاں برائی میں ملوث تھا۔ہمیں تو نواب زادہ نصراللہ خان کو دیکھنا ہے؟انہوں نے پاکستان کی کوئی خدمت کی یا اسے نقصان پہنچایا۔شاہ محمود قریشی صاحب نے پاکستان کو کیا دیا۔ چوہدری نثار علی کا کردار کیا رہا۔انہیں باپ دادا کی کسی خوبی کا صلہ ملنا چاہیے نہ ان کے کسی جرم کی سزا۔پھر یہ بے چاری جمہوریت کہاں سے آ گئی۔کیاانگریزوں کی وفاداری کا تصور جمہوریت نے دیا ہے؟تاریخ یہ ہے کہ دورِ جدید میں جاگیرداری اورغلامی کے خلاف پہلی موثرآواز جمہوریت ہی نے اٹھائی۔ ’’نمائندگی نہیں تو ٹیکس بھی نہیں‘‘ (No taxation without representation)کا نعرہ جمہوریت نے دیا جس کے بعد یورپ میںنو آبادیاتی نظام کاباقی رہنا مشکل ہو گیا۔اٹھارویں صدی کا یہی نعرہ امریکی انقلاب کی بنیادبنا۔غلام اقوام میں حقوق کا شعور پیدا ہوااور اب جاگیرداری یورپ میں ایک قصۂ پارینہ ہے۔ دارالامرا کی طرح کے ادارے مو جود ہیں لیکن ان امرا کی حیثیت وہی ہے جو وہاں بادشاہ کی ہے۔گزرے دنوں کی ایک علامت۔قانون کے روبرو سب برابر۔جمہوریت ،ہر تصور کی طرح ارتقاپزیر خیال ہے۔ انسانی تجربے نے اس کے خد وخال کو نکھارا ہے۔اسی نے صنفی امتیاز کوختم کیا۔اسی سے نسلی برتری کا کم وبیش خاتمہ ہوگیا۔کم و بیش میں نے اس لیے کہا کہ انگریزوں میں آج بھی ایک احساسِ برتری مو جود ہے۔ لیکن یہ ہر ایسی قوم میں ہوتا ہے جس نے عالمی اقتدار کا مزا چکھا ہے۔یہ احساس ترکوں میں بھی ایک بار پھر انگڑائی لے رہا ہے ۔آخر وہ بھی عالمی قوت رہ چکے۔احساسِ برتری کا مکمل خاتمہ بھی جمہوریت ہی سے ممکن ہے۔ بھارت میں جاگیرداری کو کس نے ختم کیا؟ کیا جمہوریت کے علاوہ کوئی اور اس اعزاز کا مستحق ہے؟انڈیا میں جاگیرداری بطورنظام اب ایک بھولی بسری داستان ہے۔ پاکستان میں اگر یہ ختم نہ ہو سکی تو اس کی ذمہ دار جمہوریت نہیں،اربابِ بست و کشاد کی نااہلی یا پھر آمریت ہے جس نے ابتدا ہی میں اپنا قبضہ جمالیا۔اس میں کیا شبہ ہے کہ ہمارا سماج اس ام الخبائث کی زد میں ہے لیکن اس کا علاج جمہوریت کے سوا کچھ نہیں۔آج اگر بعض جاگیردار سیاست اور اقتدار کے افق پہ دکھائی نہیں دے رہے تو اس کی وجہ جمہوریت ہے ۔عابدہ حسین کہاں ہیں؟کبھی غلام مصطفیٰ کھربھی ہوتے تھے۔نواب زادہ نصراللہ خان بے چارے جمہوریت کے لیے تکلیفیں سہتے رہے لیکن خود اس کی بر کات سے محروم رہے۔جمہوریت کہتی ہے کہ اقتدار کے لیے انتخابات میں کامیابی ضروری ہے۔آپ کی زمینیں میلوں تک پھیلی ہو سکتی ہیں لیکن اس بنیاد پر اقتدار نہیں مل سکتا۔یہ واہمہ بھی اب دور ہو تا جا رہا ہے کہ جاگیروں سے ووٹ ملتے ہیں۔جمہوریت نے کچھ کا صفایا کر دیا۔ اگر اس کو مزیدمو قع ملاتو جو باقی ہیں وہ بھی دکھائی نہیں دیں گے الاَّ یہ کہ عوامی قوت کے سامنے سر جھکادیں۔ ایک اور زاویے سے دیکھیے۔آج جمہوریت نے اقتدار کی باگ بھٹو جیسے جاگیردار خاندان سے چھین کر نواز شریف صاحب کے ہاتھ میں تھما دی۔ان کے باپ دادا تو انگریزوں کے ایجنٹ نہیں تھے‘وہ تو محنت مشقت کرنے والے مزدور تھے۔جمہوریت نے عمران خان کو معاملات سونپ دیے۔وہ کون سے جاگیر دار ہیں؟کیا جاگیر داروں سے اقتدار کی منتقلی کا کوئی اور راستہ موجود تھا؟ چوہدری نثارعلی گھر سے تو وزیر اعلیٰ پنجاب بننے چلے تھے لیکن بمشکل اپنی نشست بچا سکے۔ وہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ہار گئے‘ دوسری نشست پر ایک ایسے عامی کے ہاتھوں شکست سے بال بال بچے جس کا نام بھی اس وقت میرے ذہن میں نہیں ہے۔شکست انہیں چند سو ووٹوں کے فاصلے سے چھوکر گزر گئی۔میرا تجزیہ ہے کہ اگر اُن کے مقابلے میں کوئی ڈھنگ کا امیدوار ہوتا تو آج قومی اسمبلی کا دروازہ اُن پر بند ہو چکا ہوتا۔اپنی آبائی نشست سے تو وہ اِن انتخابات میں بھی ہار گئے۔اپنی ’جاگیر ‘کے علاقے میں وہ کبھی جیت نہیں سکے۔اگر وہ حلقہ انتخاب میںکامیاب ہوئے ہیں تو اس کی وجہ ان کی جاگیر نہیں بلکہ عوامی ترقی کے کام ہیں۔جمہوریت ان جاگیروں کا طلسم توڑ چکی ہے۔اگر اس کو پانچ سال اور مل گئے تو جاگیر دار صرف میوزیم میں ملیں گے، انشاء اللہ۔ اگر کوئی جاگیر دار اپنے چلن تبدیل کرتا اور عوامی خدمت کو شعار کرتا ہے تو اس کو یہ الزام نہیں دیا جا سکتا کہ تمہارا دادا تو انگریزوں کاا یجنٹ تھایااس بنیادپر اب جمہوریت کو طلاق دے دی جائے۔ مو جود ہ انتخابات نے جمہوریت پر عوامی اعتبار وا عتماد میں اضافہ کیا ہے۔لوگوں کو یقین ہو چلا ہے کہ اربابِ اقتدار کو ان کے کیے کی سزا دی جا سکتی ہے۔اگر وہ عوام سے دغا کریں گے تو عوام جواب دینے میں بے بس نہیں ہیں۔ہمارے جمہوری نظام کو ابھی بہت سے ارتقائی مراحل طے کرنے ہیں۔سیاسی جماعتیں برادری اور نسلی تعصبات کو پوری طرح توڑ نہیں سکیں۔لیکن اس عمل کا آ غاز ہو گیا ہے۔آج جمہوریت کو مطعون کر نے کے بجائے ضرورت ہے کہ ہم اس عمل کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔انتخابی نظام میں اصلاحات تجویز کریں۔سیاسی جماعتوں کے کلچر کو تبدیل کر نے کے لیے بحث ہو۔اس نظام میں جو خرابیاں نظر آ رہی ہیں، ان کی اصلاح کے راستے تلاش کیے جائیں۔مثال کے طور پر میں نے انتخابات سے پہلے یہ آواز اٹھائی تھی کہ متناسب نمائندگی کو اختیارکیا جائے۔اس سے جاگیر داری مزید کمزور ہو جاتی۔ہمارے ہاںچونکہ سنجیدہ تجزیے کی روایت زیادہ مستحکم نہیں ہو سکی،اس لیے یہ آوازصدا بصحرا ثابت ہوئی۔ جمہوریت لازم نہیں کہ ایک ہی صورت میں ظاہرہو۔اسے سماجی روایت سے ہم آہنگ بنانا پڑتا ہے۔اس کی ضرورت تومذہبی روایت میں بھی پڑتی ہے جس کی بنیاد الہام پرہے۔معروف، عرف، مصالح مرسلہ،استحسان،فقہ کی روایت پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان اصطلاحوں کا ظہور اسی ضرورت کے تحت ہوا۔جمہوریت تو بہر حال انسانی تجربے اور نتائجِ فکر کا حاصل ہے۔یہ الگ بات کہ مذہب اس کی نفی نہیں کرتا۔یہ کام لیکن اسی وقت ہو سکے گا جب استدلال اور دلیل کی حکمرانی کو تسلیم کیا جائے گا۔ورنہ نواب زادہ نصراللہ خان کے دادا کے نامۂ اعمال میں پائی جانے والی خرابیوں کی ذمہ دار بھی جمہوریت ہی سمجھا جا ئے گی۔یہ المیہ اپنی جگہ کم تکلیف دہ نہیں کہ ہمارے ہاں پزیرائی بھی ایسی باتوں ہی کوملتی ہے۔استدلال کی حکمرانی جمہوری معاشروں میں ہوتی ہے۔اسی لیے ہم جمہوریت کو راندۂ درگاہ بنا دینا چاہتے ہیں۔