"KNC" (space) message & send to 7575

جمہوریت کی آزمائش

کیا منظر تھا جو ان گنت آنکھوں نے دیکھا ! اقتدار ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو منتقل ہو رہا تھا۔رخصت ہونے والے، آنے والوں کے لیے جگہ خالی کر رہے تھے۔نوازشریف صاحب نے برسوں بعد پارلیمنٹ کی دہلیز پہ قدم رکھا۔ اُن کے لیے ایوان ِاقتدارکاباب کھلنے والاہے۔پرویز مشرف صاحب اسی شہر کے ایک گوشۂِ تنہائی میں ان دیکھے انجام کی آہٹ سن رہے ہیں۔ایسی آہٹ جس میں ایک طوفان کا شور ہے۔یہ سب کچھ ہوا۔زمین آ سمان بدل گئے لیکن کوئی تلوار نہیں اٹھی۔کوئی لشکر ترتیب نہیں پایا۔کوئی اس عینی شہادت کو جھٹلاتے ہوئے،اب بھی جمہوریت کو کوسنا چاہے تو کون اُس کی زبان روک سکتا ہے؟یہ ظرف صرف جمہوریت کا ہے کہ اپنے کوسنے والے کو بھی اظہارِ رائے کا حق دیتی ہے۔ پُر امن انتقالِ اقتدارکی آرزو میں ابنِ آدم نے طویل سفر کیا۔بہت سے تجربا ت کیے۔یہاں تک کہ جمہوریت نے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔انسانی تہذیب کا یہ ایسا ارتقائی مر حلہ ہے جہاںتجربہ، عقل اور الہام ہم آ واز ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ ہر معقول بات پریہ تینوںہمیشہ ہم آواز رہے ہیں۔وحی کی بتائی ہوئی کوئی بات ایسی نہیں ، انسانی عقل اور تجربہ جس کی تائید میں نہ کھڑے ہوں۔یہ ابنِ آدم کا نقصِ فہم ہوتاہے جب وہ انہیں باہم متصادم قوتوں کے طور پر پیش کر تا ہے۔الہام اپنی تائید میں عقل سے دلیل لاتا ہے۔تجربے کو بنیاد بنا تا ہے۔جو پھر بھی نہ مانیں،اُ ن پہ اُس کا تبصرہ ہے:ان کے دل ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ان کی آنکھیں تو ہیں ،مگر دیکھتے نہیں۔ ان کے کان تو ہیں مگر سنتے نہیں۔یہ لوگ چوپایوں کی مانند ہیں بلکہ اُ ن سے بھی بدتر(الاعراف7:179)۔ بند آنکھوں نے شاید وہ منظر نہ دیکھا ہو جو یکم جون کو کروڑوں نے کھلی آنکھوں نے دیکھا۔صدر آصف زرداری کی خواہش کے بر خلاف ایک شخصیت وزراتِ عظمیٰ کی دہلیز پر قدم رکھ چکی مگر وہ اسے روکنے پر قادر نہیں۔وزارتِ عظمیٰ میں داخل ہو نے والوں کو ایوانِ صدر میں بیٹھی شخصیت ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے با وصف،وہ اسے نکالنے کی قدرت نہیں رکھتے۔نہ صرف قدرت نہیں رکھتے بلکہ اس پر مجبور ہیں کہ کل ان سے حلف اٹھائیں۔طاقت کے پاؤں میں یہ بیڑیاں کس نے ڈالی ہیں؟ اُس عمرانی معاہدے نے جسے ہم آئین کہتے ہیں۔یہ نخلِ جمہوریت ہی کا خوش ذائقہ ثمر ہے۔بظاہرکاغذ پہ لکھی ایک دستاویزلیکن اُس میں اتنی طاقت بھر دی گئی ہے کہ کوئی صدر ،کوئی وزیر اعظم چاہے بھی تو اس کی متعین حدوں سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ آئین کے باب میں بھی وحی اورانسانی عقل ہم آواز ہیں۔صاحبِ وحی مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے مکینوں سے عمرانی معاہدے کیے۔اِن کے لیے میثاقِ مدینہ کی جامع اصطلاح مستعمل ہے۔جب یہودی قبائل نے ان معاہدوں کی خلاف ورزی کی تورسالت مآبﷺ نے بطور سربراہِ مملکت انہیں سزا بھی دی۔آج ہم جس آئین کے تحت زندگی گزارتے ہیں یہ اسی روایت کا تسلسل ہے جس پرانسانی تجربے اور عقل نے مہر تصدیق ثابت کر دی ہے۔سچ یہ ہے کہ آئین بھی کسی قوم کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔آج ہم ایک نئے عہد میں قدم رکھ رہے اور کسی نقصان کے بغیر تو یہ اِسی جمہوریت اور آئین کی عطا ہے۔وحی اور عقل ہر قدم پر ہم آ واز ہیں۔اگر ہمیں اس میں کوئی تصادم نظر آتا ہے تو اس کے دو اسباب ہوسکتے ہیں۔یاتوہم سے وحی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی ہوئی یا پھر ہم عقل کی حدود کا تعین نہیں کرسکے۔جو لوگ جمہوریت اور اسلام کو متصادم سمجھتے ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ کہاں غلطی ہوئی۔ہمارا مذہبی ذہن جب اس بات کا ادراک نہیں کرتا تووہ جمہوریت کو کوسنے لگتا ہے۔سیکولرذہن کا المیہ یہ ہے کہ عقل کی حدود سے واقف نہیں۔وہ خود کو عقلِ کل سمجھتاہے۔کوئی بات اس کے احاطۂ عقل میں نہیں آتی تو اسے خلافِ عقل کہہ دیتا ہے۔ حالانکہ یہ دعویٰ کرنے سے پہلے اسے یہ ثابت کر ناچاہیے کہ اس کی عقل ہر بات پر محیط ہے۔ یہ جمہوریت کی برکت ہے کہ ہم ایک اہم مر حلے سے بحفاظت گزر گئے۔اس کی کامیابی اب مشروط ہے ان اداروں کی کارکردگی سے جنہیں جمہوریت نے سندِ اعتبار بخشی ہے۔سب سے پہلا چیلنج ترجیحات کا تعین ہے۔ ایک ترتیب وہ ہے جو حکومت نے پیشِ نظررکھنی ہے اور ایک بطور قوم طے کی جائے گی جس میں اپوزیشن، فوج،عدلیہ ،میڈیااور دوسرے ریاستی اور سماجی ادارے شامل ہیں۔تحریکِ انصاف کی ترجیحات میں ڈرون حملوں کا خاتمہ پہلی ترجیح ہے۔میڈیا میں بعض حلقے یہ رائے رکھتے ہیں کہ آئین کی دفعہ 6 کے تحت جنرل مشرف کا ٹرائل پہلی ترجیح ہو نی چاہیے۔نواز شریف صاحب کے خیال میں معیشت کی اصلاح سب پر مقدم ہے۔فوج کا نقطۂ نظر غالباً دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔عدلیہ کا رجحان یہ ہے کہ خواہ پہاڑ ٹوٹ پڑے عدل ہو نا چاہیے۔اگر ترجیحات کے تعین میں اس نوعیت کا اختلاف ہو گا توفکری پراگندگی جنم لے گی۔ہمیں اس وقت انتشارِ فکر کی نہیں، وحدتِ فکر کی ضرورت ہے۔ جمہوریت اسی وقت ثمر بار ہوگی جب پوری قوم کا ہدف ایک ہو اور سب اپنے اپنے دائرے میں اس کو حاصل کریں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر مقاصد مثبت ہوں تو ان میں تطبیق ممکن ہے۔سب ہاتھی کو اپنی اپنی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور ہاتھی دراصل اجتماعی مشاہدے کا حاصل ہے۔مثال کے طور پر عدل کا ایک پہلو معاشی عدل ہے۔جہاں معیشت کا وجود بقا کی جنگ لڑ رہا ہو،وہاں کیسا عدل؟اسی طرح ڈرون حملے اس کا ردِ عمل ہے کہ آپ کی سرزمین دوسروں کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔اگر یہ عمل نہیں رکتا تو ڈرون کیسے رکیں گے؟یہ سب باتیں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔یہ سب کام اہم ہیں اور ان کی اہمیت سے کسی کو اختلاف نہیں۔اگر کوئی معیشت کی بحالی کو پہلی ترجیح کہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ڈرون حملوں کا خاتمہ نہیں چاہتا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ہمیں کوئی نقطۂ آ غاز تلاش کر نا پڑے گا۔اسی باب میں اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور یہ حسنِ نیت سے مشروط ہے۔ ترجیحات کے تعین میں اختلاف اگر طے نہ ہو تو یہ کسی بڑے المیے کو جنم دے سکتا ہے۔سید نا علیؓ اور سیدنا معاویہ ؓ میں یہی اختلاف تو تھا۔دونوں چاہتے تھے کہ سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں کو سزا ملے۔ سیدنا علی ؓ کا خیال تھا کہ اس کے لیے سیاسی استحکام کو مقدم رکھنا چاہیے تاکہ باغیوں کا زور ٹوٹ جائے۔ سیدنا معا ویہؓ کا اصرار تھاکہ پہلے قاتلین ِعثمانؓ کو سزا دی جائے،اس کے بعد ہی سیاسی استحکام ممکن ہو سکے گا۔بدقسمتی سے ترجیحات کے تعین میں اس اختلاف نے ایک ایسے المیے کو جنم دیا کہ امت آج تک اس کے اثرات سے نکل نہیں سکی۔سیدنا عثمان ؓ کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا کہ اگر مجھے قتل کر دیا گیا تو یہ امت کبھی ایک مصلے پہ جمع نہ ہو سکے گی۔ جمہوریت کی برکت سے ہم نے ایک ایک مر حلہ طے کر لیا۔ دوسرا اہم ترمر حلہ یہ ہے کہ ترجیحات کے تعین میں ہم آہنگی ہو لیکن اگر یہ نہیںہوتاتو پھر قومی ترجیحات کے تعین میں نوازشریف صاحب کا حق مقدم ہے کیو نکہ قوم نے ان پر اعتبار کیا ہے۔تاہم ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے نقطۂ نظر کو سنجیدگی سے سُنیں اور اگر اس میں خیر ہو تو قبول کرنے میں دیر نہ کریں۔اختلاف کرنے والوںکو زبانِ حال سے ثابت کر نا ہے کہ اُن کا مشورہ حسنِ نیت کا مظہر ہے نہ کہ روایتی محاذآرائی کا۔اگر جمہوریت کو کامیاب بنانا ہے تو حسنِ نیت لازم ہے۔جمہوریت ہی نہیں، اسلام کا نعرہ بھی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا اگریہ زادِ راہ میسر نہ ہو۔ ضیاء الحق صاحب کا دور اس پر گواہ ہے۔اس کو بنیاد بنا کرآج لوگ مذہب کے سیاسی و سماجی کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں۔اس پر تعجب نہیں ہو نا چاہیے اگراہلِ سیاست کے عدم اخلاص کے سبب کل جمہوریت بھی مطعون ٹھہرے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں