انتخابات کا موسم دنیا بھر میں پُررونق ہوتا ہے، میلوں ٹھیلوں کی طرح۔ خیال یہی ہوتا ہے کہ انتخابات کی کھوکھ سے ایک جہانِ نوپیدا ہوگا۔امید کا غلبہ ہو تو مزاج خوشگوار ہو جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام نے اسے ایک متحرک معاشی نظام میں بدل دیا ہے۔ ان دنوں اربوں روپے گردش میں ہوتے ہیںجو بصورتِ دیگر تجوریوں میں بند پڑے رہیں۔کالا دھن باہر آتا ہے لیکن عام آدمی کے لیے جائز کاروبار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔اور کچھ ہونہ ہو،عام آدمی کو دو وقت کا کھانا مل ہی جاتا ہے الا یہ کہ اپاہج ہو کر گھر پڑا رہے۔جو کسی امیدوار کے انتخابی دفتر تک پہنچ گیا، بھوکا نہیں رہے گا۔ پیش گوئیاں کرنیوالے بھی ان دنوں بہت چہک رہے ہوتے ہیں۔لوگ چونکہ انتخابی نتائج کے بارے میں تجسس میں مبتلا ہوتے ہیں،اس لیے فال نکالنے والوں کی باتیں بہت دلچسپی سے سنتے ہیں۔ٹی وی چینلز پر تو کم وبیش ہر روز ان کی رونمائی کا اہتمام ہوتا ہے۔کوئی کارڈز کی مدد سے اور کوئی کسی اور علم کو کام میں لاتے ہوئے مستقبل کی خبر دے رہا ہوتا ہے۔ عام آدمی اپنے مستقبل کی خبر کے لیے ان کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یوں اﷲ تعالیٰ ان کے رزق کا بھی اہتمام کر دیتا ہے۔ مجھے تو ان باتوں سے کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ سیاست کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اس کی حرکیات پر نظر ہو تو محض حسی علم سے یہ بتایا جا سکتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔اب تو خیر رجحانات کو سمجھنے کی ایک سائنس وجود میں آچکی اور اس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔تاہم ایک عام آدمی بھی اگر سیاست کو سمجھتا ہو تو آنے والے دنوں کے بارے میں پیش گوئی کر سکتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات سے پہلے، سیاست پر نظر رکھنے والا ایک عام آدمی بتا سکتا تھا کہ اگر مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوتی ہے تو ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ مولانا مودودیؒ نے انتخابات سے پہلے اس کا ذکر کر دیا تھا۔پھر وہی ہوا۔ دونوں جماعتیں کامیاب ہوئیں اور پاکستان دولخت ہو گیا۔ایسی پیش گوئی کے لیے عمومی بصیرت (common sense) کافی ہوتی ہے، کسی طوطے کے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کے باوجود لوگ پامسٹوں اور غیر سائنسی علم کے ماہرین کی طرف رجوع کرتے اور ان کے مستقبل کا حال جاننا چاہتے ہیں۔ 2013 ء کے انتخابات سے پہلے بھی طوطوں اور کارڈز والوں نے بہت سے پیش گوئیاں کیں۔ ان میں سے اکثر اتنی مضحکہ خیز تھیں کہ عمومی بصیرت (common sense) بھی انہیں قبول نہ کرے۔ ایک ماہنامے کے مئی کے شمارے میں ایسے بہت سے دعووںکو جمع کر دیا گیا ہے۔ انہیں پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ لوگ کیسے کیسے سرابوں کو سمندر سمجھتے ہیں۔میں چند معروف مستقبل بینوں کی بعض پیش گوئیاں یہاں نقل کر رہا ہوں، جنہیں پڑھ کر آپ بھی میرے ہم نوا ہو جائیں گے۔ایک ’’آسٹرالوجسٹ‘‘ جو ایک رشتے کے حوالے سے معروف ہیں، ان کی پیش گوئی تھی: ’’2013 ء میں پاکستان کے الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے۔ عبوری سیٹ اپ کا امکان ہے۔ عبوری سیٹ اپ کو عدالتی و عسکری پشت پناہی حاصل ہو گی۔ عبوری حکمران ایسے اقدامات کریں گے جنہیں عوامی پزیرائی حاصل ہوگی۔عبوری حکومت سب سے زیادہ توجہ نادہندگان کی طرف توجہ دے گی۔ٹیکس چوروں کو گرفت میںلایا جائے گا۔ لوٹی ہوئی رقم واپس لی جائے گی۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کوکنٹرول کیا جائے گا۔ عبور ی حکومت عام لوگوں کو ریلیف دینے کے اقدامات کرے گی۔عوامی تائید کے باعث عبوری سیٹ اپ طوالت اختیار کر جائے گا اور اس امر کا امکان ہے کہ آئندہ الیکشن 2014ء میں نئے سسٹم کے تحت ہوں گے۔ اقتدار کے ایوانوں میں نئے چہرے جلوہ گر ہوں گے۔ پرانے حکمران غیر مؤثر ہو جائیں گے۔‘‘اس پیش گوئی کا حالات و واقعات سے دور کا تعلق نہیں۔ ستاروں کی گزرگاہوں تک رسائی رکھنے والے ایک صاحب کی پیش گوئی تھی:’’الیکشن 2013ء میں کوئی جماعت واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگی نہ ہی وفاق میں کوئی ایک جماعت اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکے گی۔ہر طرف عجیب سماں ہوگا ۔چھوٹی بڑی پارٹیاں مل کر ہی حکومت تشکیل دے سکیں۔‘‘ ایک اور ماہرِ فلکیات کا کہنا تھا: سیارہ زحل کے برے اثرات کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کو گہری سازش کا سامنا کرنا پڑے گا۔چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔دھوکے کا امکان ہے۔‘‘ان صاحب کی ایک پیش گوئی البتہ حرف بحرف درست ثابت ہوئی کہ ’’جماعتِ اسلامی نتائج کی پروا کیے بغیر ملکی سالمیت کا مشن جاری رکھے گی۔‘‘ ایک اور صاحب نے مستقبل میں جھانکتے ہوئے بتایا: ’’ن لیگ پیپلز پارٹی کے خاصی قریب ہے لیکن حکومت بنانے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتی‘‘۔ ان لوگوں کی بہت سی باتیں درست بھی تھیں لیکن ان کی شرح بہت کم تھی۔ اس سے زیادہ ایک عام آدمی کی باتیں درست ہو سکتی ہیں، جسے سیاست کی ابجد کی بھی خبر ہو۔میں ان لوگوں کے بارے میں کچھ ایسا خوش گمان کبھی نہیں تھا لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ان پیش گوئیوں میں غلطیوں کا تناسب اتنا زیادہ ہو سکتا ہے۔اس کے باوصف لوگ ان کی طرف رجوع کرتے اور اپنے مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔انسان کا معاملہ یہی ہے کہ وہ یقین کے بجائے ظن کے پیچھے بھاگتا ہے۔نیلم و گوہر سے صرفِ نظر کرتا اور سنگ ریزوں سے دامن بھر لیتا ہے۔اس کی طبیعت میں عجلت اور بے چینی ہے۔ صبر جیسی خوبی، سچ یہ ہے کہ پیغمبروں ہی کو زیبا ہے۔ یقین بھی پیغمبروں کی میراث ہے۔عالم کے اس پروردگار پریقین جو ماضی و حال کی قید سے ماورا ہے۔ وقت جس کی تخلیق ہے۔جب یقین کا دامن چھوٹتا ہے تو پیغمبروں کا راستہ گم ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے صبر جیسی صفت پیدا نہیں ہو سکتی ۔ صبر جیسے اعلیٰ جذبے کے لیے تو پیغمبروں کو ہی مثال بنانا پڑے گا۔ جو ا س سے گریز کرتے ہیں انہیں ایسے راہ دکھانے والوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو خود بینا نہیں ہیں۔