ترکی، ایران اور اب مصر سے آنے والی خبریں اپنے جلُو میں غور و فکر کا بہت سامان لیے ہوئے ہیں۔اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو سوچنے پر آمادہ ہوں۔ مذہب و سیاست کی یک جائی کاایک مفہوم بیسویں صدی میں نمودار ہوا جس نے اسلامی تحریکوں کو جنم دیا۔ انسان کے ذہنی و فکری ارتقا کے سفر میں، اگر اس دور کو کوئی عنوان دیا جا سکتا ہے تو یہ نظاموں(systems) کا دور تھا۔لوگ افکار کو نظاموں کے پیرائے میں بیان کر رہے تھے۔سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکی نظام اور بہت سے دوسرے نظام۔ہماری اجتہادی روایت میں اہلِ علم کی یہ ذمہ داری سمجھی گئی ہے کہ وہ ہر عہد میں دین کو اس طرح سے بیان کریںکہ اُس عہد کے غالب اندازِ فکرکے لیے، دین اجنبی نہ رہے۔اگرایک عہد کا انسان نظاموں کی نفسیات میں جیتا ہے تو آپ اسے سمجھائیں کہ اسلام بھی ایک نظام ہے۔ اس خیال کے زیرِ اثر اسلام کا سیاسی نظام، اسلام کا معاشی نظام جیسی اصطلاحیں وجود میں آئیں اور ان سب کا جامع عنوان تھا : ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔‘‘ دین جب نظام ٹھہرا تو یہ اس کی ذمہ داری قرار پائی کہ اِسے ثابت بھی کرے۔دین ظاہر ہے کہ قرآن و سنت سے ثابت ہوتا ہے۔یوں دین کی ایک سیاسی تعبیر وجود میں آئی جسے دورِ جدید میں ’’سیاسی اسلام‘‘ کہا جا تا ہے۔ اجتہاد کی قدیم روایت میں مجتہد نظام کے تناظر میں نہیں سوچتا تھا۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں تھا کہ وہ زندگی کو درپیش ہر سوال کا دینی جواب فراہم کرے ۔ بہت سے معاملات کو معروف یا زمانے کے چلن پر بھی چھوڑ دیا جاتا تھا،اگر وہ دین کی بنیادی تعلیم سے متصادم نہ ہو۔ جب دین مکمل ضابطۂ حیات ٹھہرا تو پھر لازم ہوا کہ زندگی کو درپیش تمام مسائل کا جواب مذہب ہی سے ڈھونڈا جائے ۔اگر ایسانہ ہوسکا تو پھر اس بنیادی مقدمہ پر زد پڑنے کا اندیشہ ہے کہ اسلام میں ہر بات کا جواب (all conclusive) ہے۔ یوں غورو فکر کے دیگر منابع جن میں عقل اہم تر ہے، غیر متعلق ہو گئے۔دونوں کو جمع کرنے کی کوششیں ہوئیں تو مضحکہ خیز صورتِ حال پیدا ہونے لگی۔اس راہ کے مسافروں نے قرآن مجید سے ایٹم بم کا نسخہ برآمد کیا ۔کوئی اس کی تفصیل جانناچاہے تومورس بوکائے کی مقبول کتاب ’’قرآن، بائیبل ا ور سائنس‘‘ کا مطالعہ کرے۔ انسانی زندگی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ خیال کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھتی ہے۔ کھراکھوٹے سے الگ کرلیا جاتا ہے۔جب اسلام کو نظام ثابت کرنے کی کوشش میں ہر معاملہ کو ایک دینی پیراہن میں دیکھنے کی سعی ہوئی تو بہت سے نتائجِ فکر کو اہل علم نے چیلنج کر دیا۔اب اس نقطۂ نظر کے حاملین کے پاس دو راستے تھے۔ایک یہ کہ وہ ان اعتراضات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فہمِ دین پر غور کرتے۔دوسرا یہ کہ وہ ان اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں اسلام دشمنوں کی سازش کہتے اور اپنی آرا پر اصرار کرتے، قطع نظر اس کے کہ وہ فکرو نظر کے عصری پیمانے کے لیے قابلِ قبول ہے یا نہیں۔ اہلِ اسلام میں یہ دونوں رویے سامنے آئے۔ ترکی، ایران اور مصر میں دونوں کی صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ایران میں جب مذہب و سیاست کو مقامی تعبیر دین کی روشنی میں یک جا کیا گیا تو پاپائیت نے جنم لیا۔ روح اﷲ خمینی صاحب نے جب ولایت فقیہ کا تصور دیتے ہوئے کلاسیکی شیعہ فکر میں غیر معمولی اجتہاد سے کام لیا تو اس سے اہل مذہب ایک بار پھر ریاست و سیاست سے متعلق ہو گئے۔ایران کی مذہبی پیشوائیت نے عصری تنقید کو نظر انداز کیا۔جبر کے با وصف عدم اطمینان کی لہریں اٹھتی رہیں جو اب سطح زمین پر آ گئی ہیں۔ایران کے صدارتی انتخابات میں ہم جو تبدیلی دیکھ رہے ہیںیہ بہت پہلے آ چکی ہوتی اگر عوامی رائے کے اظہار کے مواقع ارزاں ہوتے۔ اب خامنہ ای صاحب اور شور ائے نگہبان کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طرزِ عمل کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔ جس ملک میں بے روزگاری کی شرح بیس فی صد اور افراط زر چالیس فیصد ہو ،تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر محض ستر ارب ڈالر ہوں ،وہاں اضطراب کا پیدا ہونا فطری تھا۔یہ دین کی ناکامی نہیں اہلِ دین کی ناکامی ہے۔ دین تو اب ان باتوں کا ذمہ دار نہیں جو اپنے اعمال اور خیالات کی وجہ سے ہم اس سے منسوب کر دیتے ہیں۔ ترکی میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے روایت اور جدت میں ایک توازن قائم رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اسے تین بار انتخابات میں کامیابی ملی اور ہر بار پہلے سے زیادہ ووٹ ملے۔یہ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ انہوں نے تدریج کے فطری طریقے کو اختیار کیا اور سماج کی تشکیل نو کو مقدم رکھا۔سیکولرزم کے جبر کو انہوں نے توڑا اور اب ترکی میں اسلامی شناخت کے ساتھ جینا باعثِ شرف ہے۔استنبول میں،اپنے چند روزہ قیام کے دوران میں، میں نے ایک دن فجر کی نماز حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مرقد کے ساتھ ایک تاریخی مسجد میں پڑھی۔میں وہاںکا منظر دیکھ کر حیران ہو گیا۔مسجد وسیع و عریض ہے لیکن اس کے باوجود سڑک تک صفیں بچھی تھیں اور نمازیوں میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی تھی۔طیب اردگان نے سیکولرزم ،اسلام اور جمہوریت کے ایک توازن کو برقرار رکھا۔اب ان کے بعض اقدام سے اس توازن کو خطرات لاحق ہونے لگے ہیں۔مثال کے طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک عثمانی خلیفہ کی طرح اختیار کے ارتکاز کی طرف مائل ہیں۔وہ اب صدارتی انتخاب لڑنا چاہتے ہیںاور اس سے پہلے آئینی ترامیم کے ذریعے اس منصب میں تمام اختیارجمع کر دینا چاہتے ہیں۔ان کے خلاف اگر شورش کے آثار ہیں تو اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے۔میرے علم کی حد تک ان کی مقبولیت کو کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں،لیکن اس صورت حال نے انہیں اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کا ایک موقع فراہم کر دیاہے۔ مصر کے صدرنے جہاں ایک اسلامی تحریک کی حکومت ہے، شام کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر لیے ہیں۔ایران اور حزب اﷲ کو براہِ راست تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ شام میں مداخلت کر رہے ہیں۔مجھے ان کے اس اندازِ نظر میں امتِ مسلمہ کاسیاسی تصور تحلیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ حالات میں کیا اس تصور پر اصرار کے لیے کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ وقت پیمانہ ہے۔انسانی تجربہ کی کسوٹی ہے۔اﷲ کا پیغام ابدی ہے لیکن ہم اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر ہماری کسی بات کو وقت نے مسترد کر دیا تو دراصل ہمارے فہم کو رد کیا گیا ہے۔دین و سیاست کے باب میں ہم نے بیسویں صدی میں جو خیالات تشکیل دیے اور جودین کو بطور نظام پیش کرنے کی ایک کوشش کا حاصل تھے،ان کے بارے میں وقت نے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ترکی، ایران اور مصر سے ان سوالات کے جوابات آ رہے ہیں۔اب ایک سنجیدہ تجربہ ناگزیر ہو چکا۔ورنہ خواب اور سراب کا یہ سفر رائگاںجاری رہے گا۔