عمران خان کی تقریر بہت کم عمر ٹھہری۔حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ چودھری نثار علی کے جوابی خطاب نے ان کی تقریر کا اثر زائل کر دیا۔درست تر الفاظ میں کوئی تاثر قائم ہی نہیں ہونے دیا۔سچ یہ ہے کہ اس تقریر میں کوئی خاص بات تھی ہی نہیں۔خاص بات بے ریاضت الہام نہیں ہوتی۔ عمران خان کے ساتھ میرا تعلقِ خاطر ہے۔ اس کے اسباب نظری و فکری نہیں اخلاقی ہیں۔وہ دولت وشہرت کی قید سے آزاد ہے۔دونوں برسوں اس کی دہلیز پر سجدہ ریز رہیں ۔ وہ ان کی حقیقت سے واقف ہو چکا۔کم لوگ اس اخلاقی بلوغت کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔لوگوں پر نسل در نسل دَھن برستا ہے لیکن ہوس ہے کہ پیچھا نہیںچھوڑتی۔عمران اس اسیری سے نکل آیا۔میرے لیے یہ بات کم اہم نہیں۔ انسان اصلاً اخلاقی وجود ہے۔اگر یہ باقی نہیں تو پھر سب کہانیاں ہیں۔اس مقدمے کے باوصف امورِ جہاں بانی فکری بلوغت کا تقاضا کرتے ہیں۔ایک قومی رہنما سے اس کی توقع ہوتی ہے کہ اُس کے نخل خیال پر نئے برگ و بار آئیں گے۔اُس کی سوچ ان وادیوں کی طرف جا نکلتی ہے ،جہاں عام آدمی کا گزر نہیں ہوتا۔ اسی لیے تو وہ رہنماکہلاتا ہے۔ راہبروہی ہوتا ہے جس کی نظر ان پہلوؤںکا بھی احاطہ کرے جو عام آدمی کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔ عمران خان سے یہ توقع پوری نہیں ہو تی۔ انتخابات میںدھاندلی، ڈرون حملے… یہ وہ پامال موضوعات ہیں جو زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ عمران خان کی آمد سے پہلے قومی اسمبلی ہی میں اِن پر بات ہو چکی۔ وزیرِاعظم نوازشریف ان کا ذکر کر چکے ۔ اگر کوئی کمی رہ گئی تووہ چودھری نثار علی کی جوابی تقریر نے پوری کردی۔میں سوچتا ہوں کہ اب عمران خان کے پاس کہنے کو کیا رہ گیا ہے؟ وہ رمضان کے بعد جس احتجاجی تحریک کی دھمکی دے چکے ، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا انہیں یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ بطور اپوزیشن لیڈر، ان کے خدوخال ابھی سے دھندلانے لگے ہیں؟ ان کا تشخص ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے پردے میں لپٹنے جا رہا ہے؟ جناب نواز شریف ملک و قوم کے مسائل کا جو حل تجویز کرتے ہیں، وہ سرمایہ دارانہ نظام سے پھوٹا ہے۔یہی آج کا غالب نظام ہے اور میرا خیال ہے کہ اس سے فرار کا سرِ دست کوئی راستہ نہیں۔دنیا مجبور ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس سے وابستہ رہے۔مسلم دنیا میں ،جہاں مادی ترقی کے مظاہر دکھائی دیتے ہیں، وہاں یہی نسخہ اختیار کیا گیا ہے۔ملائشیا میں بھی اور ترکی میں بھی۔ملائشیا نے جب اس نظام کو اپنایا تو اس کی قیادت کھلی آنکھوں کے ساتھ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ عالمگیر یت کے عہد میں، انہیں اندازہ تھا کہ کہاں بین الاقوامی مالیاتی نظام اُن کی باگ اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔بیرونی سرمایہ دار آپ کے ہاں سرمایہ کاری کرتا ہے اورکچھ وقت کے لیے پیسے کی ریل پیل ہو جاتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ اپنا ہاتھ کھینچنے لگتا ہے۔ معیشت کا انحصار چونکہ ان کے سرمایے پر ہوتا ہے، اس لیے آپ اسے جانے سے روکتے ہیں۔وہ رک تو جاتا ہے لیکن اپنی شرائط پر۔یوں ایک وقت آتا ہے کہ آپ اس کے رحم و کرم پر ہوجا تے ہیں۔ملائشیا کوبھی اس مرحلے سے گزرنا پڑا۔ اسے ’’جارج سورس سینڈرم‘‘ کا نام دیا گیا۔مہاتیر محمد نے آنکھیں کھلی رکھیں اور یوں اپنے ملک کو بچا لیا۔ ہمارے لیے بھی اس نظام میں بقا کا سامان موجود ہے اگر ہم آنکھیں کھلی رکھ سکیں۔چین بھی اسی کی مثال ہے جو مختلف فکری خدو خال کے با وجود مجبور ہوا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے سرِ تسلیم خم کردے۔ پاکستان کے پاس بھی اس وقت وہی راستہ ہے جو نواز شریف نے اپنایا ہے؛ تاہم یہ واحد راستہ نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی اساس ظلم ہے۔ اشتراکیت نے اس کے لیے چیلنج کھڑا کیا تو اسے عوام کی ویلفیئر کا خیال آیا۔ یوں اس نے جمہوریت اور ویلفیئر کے تصورات سے اپنی بقا کا سامان کیا۔ تاہم اہلِ نظر متفق ہیں کہ دنیا کو ایک متبادل نظام کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام جس کی اساس ظلم پر نہ ہو، عدل و انصاف پر ہو۔سرمایہ دارانہ نظام ہمیں ایک نظامِ عدل تو دیتا ہے لیکن معاشی عدل اس کا حصہ نہیں۔ وہ دولت کو مال داروں کے ہاتھوں میں جمع کرتا ہے اور عام آدمی کو ٹیکس کے ایک ایسے نـظام میں جکڑ دیتا ہے، جس سے چھٹکارے کی واحد صورت موت ہے۔کیااس پاک سر زمین پر کوئی ایسا تجربہ کیا جا سکتا ہے جو تصادم سے گریز کرتے ہوئے، ایک متبادل راستہ تجویز کرتا ہو؟میرا خیال ہے یہ ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی سرمایہ دارانہ نظام کے فکری ڈھانچے (paradigm) سے نکل کر سوچے۔ملک و قوم کو ایک نیا وژن دے سکے۔اس باب میں اسلامی فکر سے استفادے کی بہت ضرورت ہے۔اس کے ساتھ اشتراکی تجربات میں بھی سیکھنے کا بہت سامان ہے۔ ان سب نظریات اور تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے جو پاکستان کو نیا وژن دے سکے وہی حقیقی نجات دہندہ ہو گا۔ اس کے لیے اندازِ فکر میں ایک بنیادی تبدیلی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ تبدیلی کی اساس سماج ہے، ریاست نہیں۔ سماج رویوں سے بنتے ہیں اور ریاست قانون سے۔ ہمیں رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حکمرانوں کے رویے اس وقت بطور خاص میرے پیش نظر ہیں۔ مہاتیر محمد نے جب ملائشیا میں دنیا کی سب سے بلند و بالا عمارت تعمیر کرنا چاہی تو اس پر اعتراضات اٹھے۔بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ نمائش کا کلچر تھا جو اس وقت ملائشیا کے لیے ساز گار نہیں تھا۔ ایسی عمارتوں پر بڑی سرمایہ کاری کرنے کے بجائے ملک میں سماجی واقتصادی ڈھانچے کو عام آدمی کی سطح پر مضبوط کرنے کو ترجیح دی جائے۔ مہاتیر محمد اس کے قائل نہیں ہوئے۔میرا خیال ہے کہ پاکستان کو بھی ان خطوط پر سوچنا ہے۔بلٹ ٹرین ہماری ترجیح ہونی چاہیے یا پھر ایسے اقتصادی ڈھانچے کی تشکیل جس میں عام آدمی کے لیے انصاف ہو؟ محسوس ہوتاہے کہ اس وقت نواز شریف کی آمد ہی پاکستان کے لیے موزوں تر تھی۔ہمیں اس وقت استحکام کی ضرورت ہے۔ یہ استحکام وہی لا سکتا ہے جو موجودہ عالمی و مقامی حقائق سے ہم آہنگ پالیسی دے سکے۔عالمی مالیاتی نظام اور مقامی سرمایہ دار اسے اپنے لیے اجنبی خیال نہ کریں۔اس معیار پر صرف نوازشریف ہی پورا اترتے تھے۔ اگر انہیں پانچ سال موقع ملتا ہے تو میرا حسنِ ظن یہ ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہم اس قابل ہوں گے کہ کوئی نیا تجربہ کریں۔ اس وقت ہمیں عمران خان کی ضرورت ہو گی؛ تاہم اس کے لیے انہیں ابھی سے تیاری کرنی ہے۔انہیں ایک متبادل انداز نظر اور نظام کے خدوخال واضح کرنے ہیں اور قوم کو اس کے لیے تیار کرنا ہے۔ اس کے لیے وژن کی ضرورت ہے۔ ’’وژن‘‘ انتخابی دھاندلی اور ڈرون حملوں پر احتجاج سے تشکیل نہیں پاتا، اس کے لیے نیا انداز نظر چاہیے ورنہ عمران کی تقریروں کا وہی انجام ہوگا، جو قومی اسمبلی سے ان کے پہلے خطاب کا ہوا۔