قومی سلامتی کاتحفظ لا زماً پہلی ترجیح ہو نی چا ہیے لیکن اس سے اہم تر سوالات راستے میں کھڑے ہیں۔ایک سوال یہ ہے کہ قومی سلامتی سے ہماری مراد کیاہے؟ یہ آواز کسی سیاسی طبقے سے نہیں،سب سے پہلے عسکری حلقے سے اٹھی کہ قومی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ داخلی ہے۔وہ قوتیںجو اس سماج اور ریاست کو پا مال کر نے پر تلی ہیں،ان کا تعلق خارج سے نہیں ہے۔ خوشی ہو ئی کہ کہیں تو بالغ نظری کی کوئی جھلک نظر آئی ۔بات کا آغاز ہوا ہی تھا کہ اسی حلقے کے زیر ِ اثر،اس داخلی خطرے کو خارج سے جوڑ دیا گیا۔اب بھی ہر واقعے کے پس منظرمیںبھارت کا ہاتھ تلاش کیا جارہا ہے یا امریکا کا۔ دہشت گرد نانگا پربت کی چوٹیوں تک پہنچ گئے تو کہاگیا یہ بھارت ہوگا۔اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر وہ رائے غلط ہے کہ قومی سلامتی کو درپیش خطرہ داخلی ہے۔داخلی ہو نے کا مطلب یہ ہے کہ تصور اور حکمت عملی، دونوں یہیں ترتیب پارہے ہیں۔ اگر یہ امریکا یا بھارت کا کیا دھرا ہے تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ خطرہ خارجی ہے۔ پراگندگیٔ فکر اور انتشارِ خیال پرآخرہمارے اہلِ دانش اور ریاستی حلقوں ہی کی اجارہ داری کیوں ہے؟ خارجی خطرات امرواقعہ ہیں۔کوئی غبی ہی اُن سے صرفِ نظر کر سکتا ہے۔مسلح افواج اور دفاع کا غیر معمولی اہتمام اسی لیے تو ہے کہ ان خطرات کا سدِ باب ہو۔لیکن اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ توتصور سے لے کر عمل تک ہمار اپنا نتیجۂ فکراور ہاتھوں کی کمائی ہے۔اگر اس کے کچھ اجزا خارج میں ہیں تو وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔ان کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ ان کا بھارت سے کوئی تعلق ہے نہ امریکا سے۔ ہمیں ہر روز باور کرا یا جا تا ہے کہ تحریکِ طالبان محبِ وطن افراد کا گروہ ہے۔پاکستان پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا ،وہ سب سے آگے ہوں گے۔گویا اس سے زیادہ مشکل وقت بھی آ سکتاہے۔طالبان خود بھی کہہ چکے کہ اگر بھارت نے کہیں پاکستان پر حملہ کر نے کی جسارت کی تو وہ دفاع کا ہراول دستہ ہوں گے۔ ہمیں یہ بھی یاد دلا یا جا تا ہے کہ انہی قبائلی علاقوں سے مجاہدین کے قافلے چلے تھے جنہوں نے کشمیر کا آ دھا حصہ آزاد کرا یا۔پھر ہمارے کالم نگاروں نے ہمیں سمجھایا کہ ایمن الظواہری جیسے حضرات قرب ِالٰہی کے ان درجات پہ فائز ہیں کہ ہم جیسے حشرات الارض ان کے مقامات کا ادراک کر نے سے معذورہیں۔یہ عناصر اگر چہ خارج میں تھے لیکن ان کا کوئی تعلق امریکا یا بھارت سے نہیں تھا۔سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر خطرہ داخلی ہے تو اس کا ماخذ کہیں اور ہے اور اگر خارجی ہے تو اس کا منبع کہیں اور۔قومی سلامتی کا خیال بہت اچھا ہے لیکن پہلے طے تو ہو، خطرہ کہاں سے اور کیسے لاحق ہے؟ سوال ایک اور بھی ہے۔پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے یا ایک ویلفیئر سٹیٹ؟ اگر یہ طے نہیں ہو گا تو پھر قومی سلامتی کی کوئی پالیسی نہیں بن سکتی۔ 2013-14ء کا بجٹ یہ بتا رہا ہے کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ہم ابھی تک یہ خیال کرتے ہیں کہ پاکستان کی سلامتی کو سب سے زیادہ خطرات خارج سے لاحق ہیں۔ہمیں اسی کے لیے زیادہ وسائل مختص کر نے چاہئیں۔ بلوچستان کے بارے میں ہمارا تجزیہ ہے کہ خارجی قوتیں ذمہ دار ہیں۔کراچی کے بارے میں بھی ہماری رائے یہی ہے۔دہشت گردی کے اسباب بھی خارجی ہیں۔ عمران خان آج بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کا تعلق امریکی جنگ سے ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ میں یہی ہو تا ہے۔ ویلفیئر سٹیٹ کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔اُس میں سٹیٹ کے مفادپرعام شہری کا مفادمقدم ہو تا ہے۔آپ دفاع سے غافل نہیں ہوتے لیکن تعلیم،صحت،امن وامان، بنیادی سہولتوں کو پہلی ترجیح سمجھا جا تا ہے۔سماج کی تعمیر کو مقدم رکھا جا تا ہے۔اقدار کو اہمیت دی جا تی ہے،۔ مظاہرِتہذیب ،آرٹ،فنونِ لطیفہ پر توجہ دی جاتی ہے کہ اسی سے عام آ دمی کا مزاج بنتا ہے اور تہذیب جنم لیتی ہے۔اسی سے ایک مہذب آ دمی وجود میں آتا ہے۔اس کے بر خلاف سکیورٹی سٹیٹ میں چوراہوں کی سجاوٹ بھی میزائلوں سے کی جاتی ہے۔ہر وقت مر نے مارنے کی باتیں ہو تی ہیں۔مذہب،فرد، ریاست، سماج ، سب کو اسی زاویۂ نظر سے دیکھا جا تا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ریاست کی صورت گری اس تصور کے تحت ہو گی تو اس کے بعد اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قومی سلامتی کی پالیسی کیسی ہو گی۔ قومی سلامتی کے لیے کوئی حکمت عملی ترتیب دیتے وقت لازم ہے کہ یہ باتیں پیشِ نظر رہیں۔اس کے لیے وسیع پیمانے پر مشاورت کی ضرورت ہے۔یہ مشاورت ریاستی اداروں کے مابین ہو نی چا ہیے اور اس کے ساتھ میڈیا اور سول سو سائٹی کو بھی اس میں شریک ہو نا چاہیے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس باب میںقائدانہ کردار وزارتِ داخلہ ہی کا ہوگا۔پچھلی حکومت میں یہ تجویز سامنے آئی تھی کہ قومی سلامتی کی ذمہ دار ایجنسیوں کو وزارتِ داخلہ کے تابع کر دیا جائے۔شاید یہ ابھی ممکن نہ ہو۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے۔ ایسی ریاست میں یہ ادارے گوارا نہیں کرتے کہ کسی سول انتظامیہ کی با لا دستی کو قبول کریں۔ ساٹھ سال میں اِ ن اداروں کو جو با لادستی حاصل رہی ہے،اس کے بعد اُن سے یہ تو قع کر نا شاید مناسب نہ ہوکہ وہ بیک جنبشِ قلم حکومتِ وقت کی اطاعت قبول کر لیں گے۔ اس کے لیے ریاستی اداروں کا مائنڈ سیٹ بدلنے پڑے کا اور یہ ممکن نہیں ہو گا جب تک ریاست ایک ویلفیئر ریاست نہیں بنتی۔ آثار یہی ہیں کہ جنرل اشفاق کیانی کی قیادت میں ہماری فوج کوکسی حد تک مسئلے کا ادراک ہو چکا ہے۔یہ بات اب معلوم ہو چکی کہ جنرل ضیا الحق کے اندازِ نظر سے نجات ناگزیرہے۔اس سے جنم لینے والی تباہی کے شواہد بچشمِ سردیکھے جا سکتے ہیں۔اس بات کو جھٹلانا ممکن نہیں کہ سماج اور ریاست دونوں بربادہو چکے اور اس کے اسباب داخلی ہیں خارجی نہیں ۔تاہم ابھی انتشارِ فکر ہے اور ڈور کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا ۔جو ڈور خود الجھائی گئی ہو اُس کو سنوارنا مشکل ہو تا ہے ۔تاہم اگر یہ احساس پیدا ہو چکا ہے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہیے اور لوگوں کو واپسی کا راستہ دینا چاہیے۔ یہ کام مشاورت اور تدریج کے ساتھ ہو گا۔ چوہدری نثار علی خان ایک سنجیدہ شخصیت ہیں۔وہ اس وقت ایک موزوں تر آ دمی ہیں جو عسکری اور سول اداروںمیں ایک پل کا کام کر سکتے ہیں۔اس وقت محاذ آرائی کی نہیں، فاصلے سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ فوج تعاون کی طرف مائل ہے لیکن اس کے لیے شاید یو ٹرن لینا ممکن نہ ہو۔فوج ابھی تک قومی سلامتی کوافغانستان سے الگ کر کے دیکھنے پر آ مادہ نہیں۔یہ طے ہے کہ قومی سلامتی کو افغانستان سے الگ کیے بغیر یقینی بنانا ممکن نہیں ہوگا لیکن یہ چند دن میں نہیں ہوگا۔قطر میں طالبان کا دفتر کھلناایک مثبت پیش رفت ہے۔ 2014ء میں افغانستان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ گیا تو صورتِ حال واضح ہو گی۔اُس وقت تک فوج کو کسی بنیادی تبدیلی (paradigm shift) پر آ مادہ کر نا مشکل ہوگا۔ حکومت کو اس حوا لے سے ایک تدریجی حکمت عملی ترتیب دینا ہو گی اور اس میں فوج کواعتماد میں لینا ہو گا۔ قومی سلامتی کے بارے میں سابقہ تصورات ناکام ہو چکے۔ یہ ناکامی ہمارے ذہنوں اور سر زمین پر بربادی کے ان مٹ نقوش چھوڑ گئی۔ان تصوارت سے نجات ناگزیر ہے۔ نئی حکمت عملی کے لیے نئے تصورات کی ضروت ہے۔اللہ کرے کہ نئی قیادت اس بات کا ادراک کر سکے۔