رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔ میڈیا نے استقبال کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ مذہب ایک بار پھر جنسِ بازارہوگا۔ ایک ایک مبارک ساعت پر ’’برائے فروخت‘‘ کی تختی لگے گی اور یوں نقد ثواب کمایا جائے گا۔ مولانا وحید الدین خان نے لکھا تھا: تفریح (انٹرٹینمنٹ) دو طرح کی ہوتی ہے۔ سیکولر اور مذہبی۔ توکیا مذہب تفریح اور منافع خوری کے لیے ہے؟ مذہب اپنی اساس میں تزکیہ ہے۔انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر۔ عبادات اسی کے لیے ہیں اور رمضان توعبادت کا نقطۂ کمال ہے۔اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری الہام کے نزول کے لیے اس مہینے کا انتخاب کیا اور اس کی راتوں میں ایک رات ایسی بھی ہے جسے قرآن مجید نے کہیں لیلۃالقدر کہا اور کہیں لیلۃالمبارکہ۔ اس شب عام فرشتے نہیں، جبریل ِامین نزول کرتے ہیں اور طلوعِ فجر تک سلامتی ہی کا راج ہوتا ہے۔یہ تزکیۂ نفس کا موسم ہے۔رات رکوع و سجود کے لیے اور دن اللہ کے حکم سے بھوک اور پیاس برداشت کرنے کے لیے۔ آدمی اپنے پرور دگار کے لیے ہو کے جیتا اور اس کی یاد اس کے پورے وجودکا احاطہ کرلیتی ہے۔اسی کا نقطۂ عروج اعتکاف ہے۔ انسان ساری دنیا سے منہ موڑتا اور اپنا رخ پروردگار کی طرف کرلیتا ہے۔ وہ کچھ دیر کے لیے راہب بن جاتا ہے۔اس لیے کہ جب وہ زندگی کی آلائشوں میں ڈالاجائے تو اس کا دامن پاک اور من صاف رہے۔ رمضان یہی ہے لیکن ہم نے اسے کیا بنا دیا؟ اب رمضان میڈیا کی برکت سے ایک تہوار ہے ۔ طرح طرح کے پکوان بنتے ہیں۔ لذتِ کام و دہن کے لیے مختلف تراکیب سکھائی جاتی ہیں۔ فنکار جمع ہوتے اور بتاتے ہیں کہ ان کا رمضان کیسے گزرتا ہے۔ کھاتے کیا ہیں اور پیتے کیا۔ بس یوں سمجھیے ایک میلہ سج جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے نفع کو آخرت کے لیے رکھ چھوڑاتھا، ہم نے نقد سودا کیا۔یوں لین دین تما م ہوا۔اب ہم آخرت میں کوئی مطالبہ نہیں کر پائیں گے۔اس کی رحمت پھر بھی متوجہ ہو تو وہ اُس پر قادر ہے۔ مذہب کا ایک پہلو ثقافتی بھی ہوتا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق ہے۔ مسلمان سماج رمضان کے دنوں میں زبانِ حال سے اپنی شناخت بتاتا ہے۔ اس کی گلیاں، بازار، گھر اور عبادت گاہیں ناطق ہوتی ہیں کہ یہ ایک مسلمان معاشرہ ہے۔یہ امتیاز لیکن مذہب کی تعلیم سے پھوٹتاہے ۔ مساجد معمول سے زیادہ آباد ہوتی ہیں۔ بازاروں کی رونق ماند پڑ جاتی ہے۔ کھانے پینے کے مقامات دن بھر ویران ہوتے ہیں۔ سحر ہوتی ہے تو بستیاں جاگ اُٹھتی ہیں۔ مساجد میں لوگ معتکف ہوجاتے ہیں۔ مسلمان عام دنوں سے زیادہ عبادات کا اہتمام کرتے ہیں۔ عید قریب آتی ہے تو اس کی تیاری ہوتی ہے۔ نئے کپڑے سلوائے جاتے ہیںاور آخری دنوں میں بازار کی رونق بھی قدرے بڑھ جاتی ہے۔ یہ مذہب کا ثقافت میں ظہور ہے۔ اﷲ کے رسولﷺ کا معمول تو یہ تھا کہ رمضان کے استقبال کے لیے بے تاب ہوجاتے تھے۔ آپﷺ کی جلوت و خلوت کی محرم، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ ہمیں بتاتی ہیں کہ نفلی روزے اگر چہ آپﷺکا معمول تھا لیکن جس مہینے میں آپﷺ سب سے زیادہ روزوں کا اہتمام فرماتے ،وہ شعبان تھا۔ عید بھی اپنی روح میں کیا ہے؟ اظہارِ تشکر کہ پروردگار نے اپنے مہمان کی توقیر کی توفیق عطا فرمائی اور معافی کی درخواست کہ کہیں اس کا حق ادا کرنے میں کوتاہی ہوئی ہو تو نظر انداز کر دی جائے۔ اﷲ تعالیٰ کے اس لطف و کرم کا ذکرہوتاہے جو اس نے صائمین و صائمات کے لیے آخرت میں مقدر کر دیا ہے۔ اس میں کھیل تفریح بھی ہے۔ عید کے روز حبشیوں نے میلہ لگایا، کرتب دکھائے اور اﷲ کے رسولﷺ نے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے ساتھ دیکھا اورلطف اُٹھایا۔ یہی ہماری ثقافت ہے۔ ہم نے مذہب سے جو ثقافت کشید کرنا چاہی، اس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم نے ترتیب کو الٹ دیا۔ ہم کچھ ثقافتی مظاہر کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مذہبی ایام اور تہوار کوبھی ہم اس رنگ میں ڈھالنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان تقریبات نے مذہب کی تعلیم سے جنم لیا۔یہ پہلے سے موجود تھیں یا کہیں سے ہمارے ہاں آگئیں اور ہم نے انہیں مذہبی رنگ دے دیا۔ رمضان میں بھی یہی ہو تا ہے۔ اعتکاف کو دیکھ لیجیے۔ یہ عبادت رمضان کا نقطۂ کمال ہے۔ کچھ دنوں کے لیے آدمی ساری دنیا سے کٹتا اور اپنے رب کا ہوکر جیتا ہے۔ یہ تربیت ہے کہ انسان دنیا میں رہے تو ایک مسافر کی نفسیات کے ساتھ ،دائمی مکین بن کر نہیں۔بندگی کا احساس اس کی شخصیت کے ہر دوسرے پہلو پر غالب آجائے ۔ یہ مقصدخلوت سے حاصل ہوتا ہے۔ اعتکاف ہے ہی خلوت کا نام۔ کسی سے غیر ضروری کلام نہ تعلق۔ایک راہب کی طرح جائز امور سے بھی الگ۔ہم نے خلوت کی اس عبادت کو جلوت میں بدل دیا اور شہرِ اعتکاف بسا لیے۔ اعتکاف تو یہ ہے کہ آدمی انسانی رشتوں اور بستیوں سے نکلے اور کچھ دن مسجد کے ایک کونے میں پڑا رہے، صرف اپنے رب کا ہوکر۔ ہم نے لوگوں کو بستیوں سے نکالا اور پھر سب کو جمع کرکے ایک نئی بستی آباد کر لی۔ یوں اعتکاف کی وہ روح ہی سلب کر لی جو اس عبادت میں جاری و ساری ہے۔یہی کام میڈیا نے بھی کیا۔ مذہب کو اس کی روح سے الگ کرتے ہوئے جنسِ بازار بنا دیا اور یہ کاروبار رمضان میں نقطۂ عروج کو پہنچ جاتا ہے۔ میں میڈیا کی خدمات کا معترف ہوں لیکن اس کے ساتھ مجھے تشویش بھی ہے کہ اس نے ہماری سماجی روایات کو بری طرح مجروح کیا ہے۔ زبان و بیان سے لے کر مذہب تک ، کوئی چیز اپنی اصل پر قائم نہیں رہی۔ مذہب سیاست کی طرح سنجیدہ مسئلہ نہیں، تفریح کا ایک مظہر بن گیا ہے۔اگرکوئی سنجیدہ مذہبی پروگرام ہے بھی تو محض فقہی سوالات پر مبنی۔ ان سے مذہب کی مکینیکل معلومات تو ملتی ہیں،اُس کی روح میں اترنے کا موقع نہیں ملتا۔ایسے پروگرام بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔غلبہ ہے تو صرف تفریحی پروگراموں کا۔ان پروگراموں میں سب کچھ ہے اور اگر کچھ نہیں ہے تو مذہب کا اصل پیغام کہ ہمیں اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا اور اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ قیامت شدنی ہے۔یہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو ٹل نہیں سکتا۔ پیغمبر اس دن کی یاددہانی کے لیے تشریف لاتے اور اس کا انذار کرتے ہیں۔ کاش میڈیا اس پیغام کی تذکیر کا اہتمام کر سکتا!کاش رمضان میں دنیا کے بجائے آخرت کا منافع پیشِ نظر ہوتا!