امام حسن البنا کے قافلے کو پھر ایک امتحان درپیش ہے۔ راستے اب بھی دو ہی ہیں۔ صبر و حکمت یا پھر اشتعال اور ردِ عمل۔ اخوان پر اس سے کڑا وقت گزر چکا‘ جب کارکن اپنے امام کی میت کو کندھا بھی نہ دے سکے۔ جب بیٹیوں نے باپ کے جسدِ خاکی کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا اور زمین کی امانت زمین کے سپرد کی۔کوئی غم خوار تھانہ ماتم دار۔ اخوان سید قطب کے پھانسی پر جھولتے وجود کو بھی دیکھ چکے اور رو چکے۔ ریاست کا ظلم حد سے بڑھا تو اُس وقت بھی اخوان کے پاس دو ہی راستے تھے… صبرو حکمت یا پھر اشتعال اور ردِ عمل۔بعض نے پہلے راستے کو ترجیح دی۔ دعوت اور پھر جمہوری جدوجہد۔ اس کا نتیجہ نکلا اور مصر میں اخوان برسرِ اقتدار آ گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا۔اس راستے سے الہجرہ والتکفیروالے اپنا عَلم لے کر نکلے ۔یہیں سے القاعدہ کا جھنڈا نمودارہوا۔ اس راستے کے راہیوں نے انور سادات کو مار دیا لیکن اقتدار نہیں مل سکا البتہ مصرکو تیس سال کے لیے حسنی مبارک مل گئے۔اورعالمِ اسلام کو جو کچھ ملا، اس کو ہم اہلِ پاکستان سے بہتر کون جانتا ہے۔ تاریخ نے اخوان کو ایک بار پھر اُسی دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ دو آرا نہیں ہیں کہ اخوان کے ساتھ ظلم ہوا۔ ساٹھ سال تک اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے والی فوج نے، نہیں معلو م ایک برس تک محمد مرسی صاحب کو کیسے گوارا کیا۔ اس بار سیکولر عناصر کی حمایت بھی فوج کو میسر آگئی اور ان کی جمہوریت پسندی کا بھرم کھل گیا۔ مصرکے پارلیمان میں اخوان کی اکثریت ہے لیکن عوام کی ایک غیر معمولی تعداد اس کی مخالف بھی تھی۔فوج نے اُن کو جمع کیا، سرپرستی کی اور اس طرح ایک بار پھر اقتدارپر قبضہ کرلیا۔ امریکی سفیر مسز پیٹرسن کے خلاف تحریر سکوائر پر لہراتے بینر بتا رہے ہیں کہ موصوفہ بھی اس کھیل کے سرپرستوں میں شامل تھیں۔ یوں جمہوریت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ بے بصیرتی کا ایسا غیر معمولی اظہار میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔صدر اوباما صدر بش کے راستے پر چل نکلے،ان کی حکمتِ عملی کے نتائج بچشمِ سر دیکھنے کے باوجود۔پھر مصر کی فوج،انورسادات اورحسنی مبارک کا انجام دیکھنے کے باوصف۔ سوچتا ہوں تو تاسف اور حیرت میں ڈوب جاتا ہوں۔ الاخوان المسلمون نے بظاہر اعتدال کا راستہ اپنایا تھا‘ سیاست میں بھی اور مذہب میں بھی۔ انہوں نے خطے کی سیاست میں کسی انقلابی کردار کے لیے کوئی پیش رفت نہیں کی۔اسرائیل کے ساتھ انور السادات کے معاہدے کو قبول کیا اور شام میں بشارالاسد کی مخالفت کی۔یہی نہیں،شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور حزب اﷲ کی مذمت کی۔سادہ لفظوں میں سیاسی اعتبار سے وہ اس پالیسی کے حق میںتھے جو امریکا نے اس خطے میں اپنائی ہے۔داخلی معاملات میں بھی اپنی اسلام پسندی کے باوصف انہوں نے مصر کے سیکولر کلچر کو ختم کرنے کی کوئی غیر معمولی کوشش نہیںکی۔ اس طرز عمل کے ساتھ امریکااخوان کا مخالف کیوں ہوا؟اس نے کھل کر فوجی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔اس کا وزن فوج کے پلڑے میں ہے اوراب اسے جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی ثابت کرنے میں بہت مشکل کا سامنا ہے۔کیا امریکا کا خیال ہے کہ اخوان کے خمیر میں کوئی ایسی خرابی مضمر ہے جو آنے والے دنوں میں اس کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے؟ اسلام پسندوں(Islamists) نے مسلم ممالک میں جب جمہوریت کی راہ اپنائی اور تشدد کے بجائے ووٹ سے بر سرِ اقتدار آنے کی کوشش کی تو مغرب کے بعض حلقوں میں اس کو ایک مختلف زاویۂ نظر سے دیکھا گیا۔ان کا خیال ہے کہ ریاست اور سماج کے باب میں جمہوری اسلام پسندوں کا نقطۂ نظر جوہری طور پر وہی ہے جو انتہا پسندوں کا ہے۔یہ اسی مذہبی تعبیر کو درست سمجھتے ہیںجو القاعدہ یا طالبان پیش کرتے ہیں۔یہ گروہ اگر ان انتہا پسندوں سے مختلف ہے تو اپنے جوہر میں نہیں،حکمتِ عملی میں ہے۔اگر انہیں یہ موقع دیا گیا کہ وہ مسلمان ممالک میں ووٹ کے زور ہی سے برسر اقتدار آجائیںتو اس کے بعد وہ عملاً وہی کچھ کریں گے جو طالبان نے افغانستان میں کیا یا اہلِ مذہب نے ایران میں کیا۔اس لیے ،ان حلقوں کے مطابق،مغرب مسلمان ممالک میں جمہوریت کے حق میں جو مہم چلارہا ہے ،وہ اس کے لیے نقصان دہ ہوگی۔اسے اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ان کا خیال ہے کہ مسلمان ممالک کی فضا سر دست جمہوریت کے لیے ساز گار نہیں ہے۔وہاں پہلے شعور و آگہی کی ایک مہم چلنی چاہیے۔جب اکثریت ریاست اور سماج کے باب میں ان تصورات کی قائل ہو جائے،مغرب جن کا علم بردار ہے تو پھر وہاں لوگوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ یہ نقطۂ نظر رکھنے والوں میں فوکو یاما بھی شامل ہیں۔چند برس پہلے وہ یہ لکھ چکے کہ مشرقِ وسطیٰ کی سماجی فضا جمہوریت کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ تو کیا اخوان کے بارے میں تشکیک کی فضا اس نقطۂ نظر کا نتیجہ ہے؟کیا امریکا اسی لیے فوج کی اس ننگی جارحیت کی تائید کرتا ہے؟میرا خیال ہے کہ ان سوالات پہ مغرب اور مسلم اہلِ علم کے مابین مکالمہ ہونا چاہیے۔ان سوالات پر اس زاویے سے بھی غور ہونا چاہیے کہ ملائشیا اورانڈونیشیا وغیرہ میں مغرب جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے لیکن الجزائر‘ ایران‘ سوڈان اور مصر کی جمہوریت اسے پسند نہیں۔ ان سوالات پرغورکے ساتھ،ہمیں اس سارے معاملے کو اپنے داخلی تناظر میں دیکھنا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ مرسی ترجیحات کے تعین میںاس بصیرت کا مظاہرہ نہ کر سکے جو ہمیں طیب ایردوان کے ہاں دکھائی دی۔اگر چہ ان کے خلاف فوج نے اقدام کیا لیکن عوام کا ایک بڑا حصہ فوج کے ساتھ بھی کھڑا ہے۔اگر وہ اپنے عوام کو مطمئن کر پاتے تو شاید فوج کے لیے قدم اٹھانا مشکل ہو جا تا۔خارجی عوامل کے ساتھ اخوان کی کارکردگی کو خود احتسابی کی نگاہ سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ رہا امریکا تو اس کو ہمارے لیے کیا پسند ہے اور کیا نا پسند، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، بنیادی سوال یہ ہے کہ ہمارے لیے کیا سازگار ہے؟ ہم جمہوریت کو عزمِ صمیم کے ساتھ قبول کیے رکھیں یا اشتعال میں آکر دوسرے راستے کی طرف نکل جائیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ اب مصر میں فوج کے قبضے کومسلمان معاشروں میں جمہوریت کو مطعون کرنے کے لیے جواز بنا یا جا ئے گااور یہ رائے پیش کی جائے گی کہ تبدیلی طاقت اور بندوق سے ہی آ سکتی ہے جسے غلطی سے جہاد کا نام دیا جا تا ہے۔میرا تاثر یہ ہے کہ صرف اخوان ہی نہیں، پوری ملتِ اسلامیہ اب دوراہے پر کھڑی ہے۔ راستے دو ہی ہیں۔ صبر و حکمت یا پھر اشتعال اور ردِ عمل۔ نتیجہ آج بھی وہی ہے جو پہلے نکل چکا۔ الجزائر اور مصر میں ہم اشتعال کا راستہ اپنا چکے۔ لاکھوں لوگ اس کی نذر ہو گئے۔ ملک برباد ہو گئے۔ اگر میری آواز اخوان تک پہنچ سکے تو میں انہیں پر امن جدوجہد کا مشورہ دوں، صبر و حکمت کا۔ مجھے یقین ہے اگر انہوں نے ایسا کیا تو امام حسن البنا کا قافلہ ایک بار پھر سرخرو ہوگا۔