محمد مرسی کی حمایت میں سید منور حسن تنہا کھڑے ہیں۔کوئی اسلام پسند ان کے شانہ بشانہ نہیں ہے۔سب انہیں چھوڑ چکے، جیسے ’النور‘ والے اخوان کو۔جماعت اسلامی بدل گئی۔تجدید و احیائے دین کی ایک تحریک سے جمعیت علمائے اسلام (ق) بن گئی۔لیکن اہلِ مذہب وہیں پہ کھڑے ہیںجہاں 1960ء کی دہائی میں تھے ؎ میں تو وہ نہیں رہا ہاں مگر وہی ہے تو سچ یہ ہے کہ انسان وہموں کے پیچھے بھاگتا ہے۔خوابوں کا تعاقب کرتا ہے۔اپنے احساسات کی دنیا آباد کیے رکھتا ہے۔ خواب کی چاہ میں اسے خیال نہیں ہوتا کہ زندگی کے تلخ حقائق خوابوںکی آب یاری کے لیے ساز گار نہیں ہیں۔خواب بند آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں لیکن تعبیر کا معاملہ یہ ہے کہ حقائق کی وادی میں نمو پاتی ہے۔زمین ساز گار ہو تو برگ و بار آتے ہیں۔ ورنہ دانا خاک میں مل جاتاہے ،گل وگلزارنہیں ہوتا۔جماعت اسلامی نے تو خواب بدل کے دیکھ لیا۔پھر بھی کچھ نہیں ملا۔دنیا اپنی جگہ سے ایک انچ نہیں ہلی۔ 1960ء کی دہائی میں، اخوان المسلمین صدر ناصرکا ہدف تھی۔ مرد اور خواتین عزیمت کی داستانیں لکھ رہے تھے تو کسی کو یادہے ہمارے اہلِ مذہب کہاں تھے؟ صدر ناصر کے ساتھ۔ اخوانیوں کو وہ امریکی ایجنٹ کہتے تھے۔معلوم ہوتا ہے وہ آج بھی اخوان کے بارے میں خوش گمان نہیں ہیں۔کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ خادم حرمین شریفین اور امارات کے حکمران مرسی صاحب کے خلاف مصر کی افواج کے ساتھ کھڑے ہیں؟ یقینا یہ ایک بڑی وجہ ہے لیکن شاید یہی واحد سبب نہیں ۔سیاست اور سماج کے باب میں ان گنت واہمے ہیں،ہم جن کا پیچھا کر رہے ہیں۔ امت مسلمہ کا سیاسی تصور آج کہیں موجود نہیں ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں۔امت یا ملت کا روحانی تصور ہمیشہ زندہ رہا اور آج بھی ہے۔لوگ روحانی اعتبار سے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر۔سیاست کا معاملہ البتہ اس سے مختلف ہے۔محمد مرسی ایران کی مذمت کرتے ہیںاور بشارالاسد مرسی کی۔ مفادات کا معاملہ تو ایسا ہے کہ خیبر پختون خوا کے وزیر خزانہ’’امامِ انقلاب‘‘سراج الحق صاحب اپنے صوبے کے مفادات میں دوسرے صوبے کو شریک کرنے پر آمادہ نہیںہیں،امت تو بہت دور کی بات ہے۔ مذہبی جماعتوں کے سیاسی مفادات متصادم ہوں تو جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔دور جانے کی ضرورت نہیں، ماضی قریب میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے مابین بیانات کا جو تبادلہ ہو چکا،صرف اسی پر ایک نظر ڈالنے سے بات واضح ہو جاتی ہے۔اس پسِ منظر میں امت مسلمہ کا سیاسی تصور کیا محض واہمہ نہیں ہے؟ سعودی عرب کی مثال اگر پیش نظر رہے تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔اگر امت کو ایک روحانی وجود خیال کیا جائے تو اس مملکت کی خدمات بے پناہ ہیں۔صرف قرآن مجید کی اشاعت اور تراجم کا کام ہی اتنا غیر معمولی ہے کہ اسے دیکھ کر بے اختیار سعودی حکمرانوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔دنیا بھر میں مساجد کے قیام اور ناداروں کی مدد میں شاید ہی کوئی ان کی ہم سری کر سکے۔بایں ہمہ اگر ہم امت کو ایک سیاسی وجود سمجھیں تو پھر بہت سے سخن ہائے نا گفتنی زبان بندی پر مجبور کرتے ہیں۔تازہ ترین’’سخن‘‘تو مصری فوج کے لیے سعودی عرب کی تائید ونصرت ہے۔یہ فرق کیوں ہے؟اس سوال کا کوئی جواب اس کے سوا نہیں کہ سعودی عرب ایران،شام،مصر اور ترکی کی طرح ایک قومی ریاست ہے جس کے اپنے مفادات ہیں۔وہ ان سے صرف نظر نہیں کر سکتی۔میں عرض کر چکا کہ سیاسی اعتبار سے جب آپ صوبے کے معاملات کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو پھر اپنے ہی ملک کا دوسرا صوبہ آپ کے لیے ’’اغیار‘‘ کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے روحانی اور سیاسی وجود میں فرق نہیں کرتے تو ہمارے تضادات ہمارے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔سید منور حسن یہ کہتے ہیں کہ وہ اب بھی محمد مرسی کو مصر کا صدر مانتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ غیر ملکی معاملات میں مداخلت نہیں ؟سید صاحب مصر کے نہیں پاکستان کے شہری ہیںاور انہیں یہ حق حاصل نہیں۔ان کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی صدر بنتاہے نہ معزول ہوتا ہے۔اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ امریکا کے ڈرون حملے ہماری خود مختاری پہ حملہ ہے تو کیا اس وقت ہماری خود مختاری مجروح نہیں ہوتی جب مختلف ممالک سے لوگ بندوق اٹھاتے اور بغیر کسی ویزے اور اجازت کے یہاں آ کر بسیرا کرتے ہیں؟ ’’غیر ملکی‘‘ کا فیصلہ آخر ہم کس بنیاد پر کرتے ہیں۔قومی سلامتی کیا شے ہے؟امریکی غیر ملکی کیوں ہیں؟جس اصول کا اطلاق ہم امریکا پر کرتے ہیں،کیا ہم پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا؟ اس سارے معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔ تبلیغی جماعت ایک عالمی تحریک ہے۔ اس میں بھارت اور پاکستان کے مسلمان شامل ہیں۔ ایران اور عراق کے شہری شامل ہیں۔امریکا اور وینزویلاکے باشندے شامل ہیں۔اس تحریک کی عالمگیریت کبھی متاثر نہیں ہوئی۔لوگوں کی سیاسی شناخت ان کے مابین تعلق کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہوئی۔اس کی وجہ وہی ہے کہ تبلیغی جماعت میں اجتماعیت کی اساس روحانی یا مذہبی ہے۔ حج کے مو قع پر بھی ہمیں کوئی تفاوت دکھائی نہیں دیتا۔ایک مرتبہ اہلِ ایران نے اپنی سیاسی عصبیت کو نمایاں کر نا چاہا توہماری تاریخ کا ایک الم ناک باب رقم ہوا۔لوگوں کی رائے اس وقت یہی تھی کہ سیاست کو مذہبی معا ملات سے الگ رکھنا چاہیے۔میں اسی کو امت کے سیاسی اور روحانی وجود کا فرق کہتا ہوں۔ جب یہ بات کہی جا تی ہے تو کچھ لوگ اسے مذہب اور سیاست کی جدائی قراردیتے ہیں۔یہ محض شبہ ہے۔مذہب اور سیاست کی یک جائی کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی معا ملات میں بھی مذہب کوراہنما ما ناجائے۔ مذہب جن اخلاقی اقدار کا نمائندہ ہے، سیاسی رویے میں ان کا ظہور ہو نا چاہیے۔اس مفہوم میں مذہب سیاست سے جدا نہیں ہے۔میں افراد اور اجتماعیت کے سیاسی مفادات کی علیحدگی کی بات کر رہا ہوں۔اس حوالے سے ایران اور عراق کے مفادات متصادم ہو سکتے ہیں۔اگرایساہوتو دونوں سے مذہب کا مطالبہ یہ ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جو اللہ کے احکام کے خلاف ہو۔وہ دوسروں پر ظلم نہ کریں اور حدود سے تجاوز نہ کریں۔بطور مسلمان مجھے اپنے مذہب کی یہ ہدایت اس وقت بھی ہے جب میں کسی غیر مسلم سے برسرپیکار ہوں۔میری کامیابی یہ نہیں کہ میں سیاسی اور عسکری اعتبار سے دشمن کو زیر کر لوں، میری کامیابی یہ ہے کہ دنیاوی فتح و شکست سے ماورا میرا اخلاقی وجود سلامت رہے۔ مجھ سے کوئی ا یسی بات سرزد نہ ہو جو میرے پروردگار کی منشا کے خلاف ہو۔اگر میں اخوانی ہوں اور اسلام کے لیے سرگرم ہوں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ میں چند لاکھ افراد جمع کروں اور مسلح افواج کی مدد سے اسلامی ڈکٹیٹرشپ قائم کر دوں کیوں کہ سیکولر ڈکٹیٹر شپ بھی اسے طریقے سے قائم ہوئی تھی۔جو راستے دوسروں کے لیے کھلے ہیں، وہ میرے لیے بند ہیں کیو نکہ میں اپنے رب کے حضور جواب دہ ہوں۔ اگرمیرے دین میں یہ طریقہ جائز ہوتا تواللہ کے آ خری رسولﷺ مکہ میں یہی کرتے، ہجرت نہ فرماتے۔ذرا تصور کیجیے، اس صورت میں کس کی ہمت ہو تی کہ عمرؓ ابن خطاب اور سید نا حمزہؓ کے سامنے کھڑا ہوتا۔مجھے حیرت ہو تی ہے کہ دین و سیاست کی یک جائی کا علم اٹھانے والے سیاسی حکمت عملی میں دین کی راہنمائی کے زیادہ قائل نہیں ہوتے۔ نہیں معلوم سید منور حسن نے تنہائی میں، اپنی تنہائی کے بارے میں کتنا سوچا ہے لیکن میں نے ضرور سوچا ہے۔اپنا نتیجہ فکر میں نے بیان کر دیا۔اگر مسلمانوں کے احیا کا خواب دیکھنے والے سنجیدگی سے اس معا ملے پر غور کریں توممکن ہے وہ ایسا خواب دیکھنے لگیں جس کی تعبیر ممکن ہے۔اس طرح مسلمان شاید اس ضیاع سے بچ جائیں جو آج ان کا مقدر ہے۔