چار دن گزر چکے،عارف لوہار کے آنسو مسلسل میرے دل پر ٹپک رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ہم کس گمان میں جیتے ہیں۔تقویٰ،خشیت، للہیت ،معلوم ہوتا ہے سب ہماری ذات میںجمع ہیں۔ہم جو خود کو مذہبی کہتے اور دوسرے کے کفر و ایمان کا فیصلہ کرتے ہیں۔بعض طبقات کے بارے میں تو ہم نے بزعمِ خویش یہ طے کر رکھا ہے کہ دین اور آخرت سے ان کاکوئی واسطہ نہیں۔آخرت تو ہمارے لیے ہے جو دنیا میں دین کے علم بردار بن کے جیتے ہیں۔ دین کا بھرم تو ہم سے ہے۔ ہم نہ رہے تو اس زمین میںکون ہے جو اس کا نام لیوا ہو گا۔ عارف لوہار کے آنسو تو ایک دوسری کہانی سنا رہے تھے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں،عارف میرے مہمانوں میں شامل تھا اور موضوع گفتگو تھا :’’رمضان اور تقوٰی‘‘۔وقفہ ہوا تو غیر رسمی گفتگو میں اس نے اپنے عمرے کے سفر کا حال سنایا۔احوال سناتے سناتے وہ مدینہ جاپہنچا جہاں وہ رسالت مآبﷺ کی مسجدمیں جا کھڑا ہوا۔اس نے نگاہ اٹھائی اور خیال کیا کہ یہی وہ مقام ہے جہاں اﷲ کے رسولﷺ اپنے پروردگار کے حضورمیں پر رکوع و سجودکرتے تھے۔بس وہ یہی کہہ سکا۔ اُس کی زبان خاموش ہوگئی اور آنسو بولنے لگے۔ مجلس تمام ہوئی۔وہ رخصت ہو گیا،لیکن اس کے آنسو ہیں کہ مسلسل میرے دل پر ٹپک رہے ہیں۔ مجھ سمیت،کتنے اہل مذہب ہیں جنہیں یہ کیفیت نصیب ہوتی ہے؟میں تو مذہبی لوگوں میں پلا بڑھا ہوں۔میں نے ایسے بہت دیکھے ہیں جو محبت رسولﷺ کے نام پر دوسروں کی گردنیں اڑانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔لیکن وہ کم نظر آئے ہیں جو رسالت مآب ﷺکے ذکر پر پر نم ہو جاتے ہوں اور وہ اس کیفیت کو محسوس کر سکتے ہیں جو اﷲ کے رسولﷺ کے ساتھ محبت سے نصیب ہوتی ہے۔ ایسا کیف کہ انسانوں میں بانٹ دیا جائے تو انسانی بستیاںنفرت و عداوت سے خالی ہو جائیں۔واقعہ یہ ہے کہ میں جب بھی اﷲ کے آخری رسولﷺ کو احاطہ ء خیال میں لانے کی سعی کرتا ہوں ،مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے محبت انسانی وجود میں مجسم ہو گئی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی ذات والا صفات کے ساتھ،ایک سلیم الفطرت، محبت کے سواکوئی دوسرا تعلق رکھ نہیں سکتا۔محبت تو محبت ہی کو جنم دیتی ہے۔نہیںمعلوم لوگ محبت سے نفرت کیسے کشید کرتے ہیں اور وہ بھی ان کے لیے جو سرورِ عالمﷺ کی امت میں سے ہیں؟ یہ سوال میرے ذہن میں تازہ تھا جب عالم لوہار سے ملاقات ہوئی۔اس کابھی ایک پس منظر تھا۔ایک دن پہلے معروف ٹی وی اداکارہ لیلٰی زبیری میرے مہمانوں میں تھیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ ایک ٹی وی پروگرام میں ایک مذہبی راہنما کے ساتھ مدعو تھیں۔میزبان نے لیلیٰ سے پوچھا کہ کیا انہیں یاد ہے،انہوں نے پہلا روزہ کب رکھا اور اس وقت ان کی کیا کیفیت تھی ؟اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتیں ،وہ مذہبی راہنما بول اٹھے :پہلے ان سے پوچھیں، انہوں نے کیا کبھی روزہ رکھا بھی ہے؟بات یہیںتک محدود نہیں رہی۔انہوں نے فتوٰی دیا کہ آپ کی تو نماز ہی نہیں ہوتی، آپ نے تو نیل پالش لگا رکھی ہے۔ میں نے یہ روایت سنی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ مجھے لگا یہ جرم مجھ سے سرزد ہواہے۔ میں لوگوں کو اﷲ کے دین سے دور کرنے کا مرتکب ہوا ہوں۔اہلِ مذہب کا کام لوگوں کو مذہب سے دور کرنانہیں،اس کے قریب لانا ہے۔ اگر کہیں کوئی کمی ہے،کوئی فقہی مسئلہ بتانا ہے ،تو کیا اصلاح کے اس اسلوب کا اسوۂ پیغمبرﷺ سے کوئی تعلق ہے؟ دعوت و اصلاح کے باب میں ہماری ایک شاندار روایت ہے۔رسالت مآب ﷺ اور صحابہؓ کی سیرت سے ماخوذ اس روایت کو بحیثیت گروہ صوفیانے آگے بڑھایا۔ صوفی کی دو خوبیاں اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زعمِ تقویٰ میں مبتلا نہیں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ وہ انسانی نفسیات سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے۔ تصوف کی روایت اگر وحدت الوجود جیسے فلسفیانہ مضامین سے پاک ہو کر خالصتاً قرآن و سنت کی اساس پر آگے بڑھے تو واقعہ یہ ہے کہ خانقاہ سے بہتر دعوت و اصلاح کا کوئی دوسرا مرکز نہیں ہو سکتا۔ دورِ حاضر میں اہلِ مذہب نے جب سیاست اور دوسرے میدانوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تو مسلمانوں کی یہ شناخت پسِ منظر میں چلی گئی کہ وہ اصلاً امتِ دعوت ہیں۔ وہ اس آخری الہام کے امین ہیں جس کا دروازہ رسالت مآبﷺ کے بعد قیامت کی صبح تک بندکر دیا گیا ہے۔ دعوت جب قصۂ پارینہ بنی تو دعوتِ دین کا طریقہ کار اور اس کے آداب بھی علم و تحقیق اور رویوںکا موضوع نہیں بن سکے۔ میرے علم کی حد تک ہمارے دینی ادب میں اگر کسی موضوع پر سب سے کم کتابیں ملیں گی تو وہ یہی دعوت ہے۔ اس کا نتیجہ اہلِ مذہب کا وہ رویہ ہے جس کا سامنا لیلیٰ زبیری کو کرنا پڑا۔ زعمِ تقویٰ ایک نفسیاتی مرض ہے۔ خود کو صالح اور دوسروں کو غیر صالح سمجھنے کا مزاج اصلاً غیر دینی مزاج ہے۔ یہود کے علما اسی مرض کا شکار ہوئے۔ وہ دوسروں کی طرف انگلی اُٹھاتے اور اپنے وجود سے بے خبر رہتے تھے۔انجیل میں سیدنا مسیحؑ کے خطبات کے اصل مخاطب یہود کے مذہبی پیشوا ہیں۔ انہوں نے سپیدی پھری قبریں، مچھر چھاننا اور اونٹ نگلنا،یا پہلا پتھر وہ مارے جس نے کبھی گناہ نہ کیا ہو ، جیسی تماثیل اور اسالیب انہی لوگوں کے لیے اختیار کی ہیں جو مذہب کے نمائندے بن کر لوگوں کو مذہب سے دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ خشیت، للہیت اور تقویٰ جیسے اوصاف کا تعلق کسی خاص طبقے یا گروہ سے نہیں ہے۔متقی لوگ کسی حلقے میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ تقویٰ کا تعلق انسان کے داخل سے ہے خارج سے نہیں۔ اس لیے ہم کسی کی عبادت کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ایک انسان کی مکمل تصویر سے تو اس کا پروردگار ہی واقف ہے جو دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ہم اگر اصلاح چاہتے ہیں تو یہ راستہ بھی دل سے ہو کر گزرتا ہے۔ یہ اصلاً محبت ہے جو دلوں کو مسخر کرتی ہے۔ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺ کے بارے میں فرمایا ہے کہ آپ کے چاروں طرف اگر عشاق اور پروانوں کا ہجوم رہتا ہے تواس کا سبب آپؐ کا اخلاق ہے۔ اگر آپؐ کے مزاج میں سختی ہوتی توآپ کے اردگرد سے لوگ چھٹ جاتے۔ اﷲ کے رسولﷺ سے محبت کا واحد پیمانہ یہی ہے کہ ہمارے مزاج اسوۂ حسنہ کے قریب ہوں۔ جب تک سر پر کوڑا پھینکنے والی کے لیے ہمارے دل سے دعا نہیں نکلتی، ہمیں سوچنا پڑے گا کہ رسالت مآبﷺ سے محبت کے ہمارے دعوے میں کتنی سچائی ہے۔ہم افکار اور اقدار پر گفتگو کر سکتے ہیں۔ انسانوں کے ظاہر، کیا معلوم ان کے باطن سے کتنے مختلف ہیں۔ عارف لوہارکے آنسوں کا پیغام یہی ہے جوچار دن سے مسلسل میرے دل پر ٹپک رہے ہیں۔