عارف لوہار کے آنسو کیا نکلے کہ ایک جھڑی لگ گئی،یادوں کی، خیالوں کی اورآ نسوئوں کی۔ اپنے پروردگار کے ساتھ میرا تعلق خالق اور مخلوق کا ہے،معبود اور عبد کا ہے۔میں گناہ وثواب کے ساتھ زندہ رہتا ہوں۔کبھی آرزوئے نفس کے تعاقب میں کسی ایسی وادی کی طرف جانکلتا ہوںجہاں قدم رکھنا خالق نے میرے لیے ممنوع ٹھہرا یا ہے۔لیکن مجھے ہوش آتا ہے تو میںلوٹتا اور اس کے حضور میں سر رکھ دیتا ہوں۔میں زبان سے کچھ نہیں کہتا لیکن میری آنکھیں بولتی ہیں۔آنکھوں کے الفاظ تو آ نسو ہیں۔مو لا نا وحید الدین خان کے الفاظ مستعار لوں تو میں قادرِمطلق کے سامنے عاجزِ مطلق بن کر کھڑاہو جا تا ہوں۔اب میں اس کی رحمت کے حصار میں آ گیا۔میں جا نتا ہوں اس نے اپنے بندے پر اپنی رحمت کو واجب کر لیا ہے۔میری نافرما نیاں بے حساب لیکن میں اس احساس سے نکل نہیں سکتا کہ میں اس کا بندہ ہوں۔یہ احساسِ بندگی ہی ہے جو مجھ رلا دیتی ہے۔اگر یہ احساس زندہ ہے تو مجھے یقین ہے کہ یہ میرے اور اللہ کی ناراضی کے درمیان ایک حجاب بن جا ئے گا۔بندگی کا یہ احساس اگر آ نسو بن کے بہہ نکلے تو یہ امید کا دیا بن کر لو دینے لگتا ہے۔یہ احساس کبھی ندامت بن جا تا ہے۔جو اس احساس سے محروم ہو جائے وہ معبود اور عبد کے تعلق سے نکل جاتا یا پھر زعمِ تقویٰ کا شکار ہو جا تا ہے۔ محترم مصطفیٰ صادق مرحوم نے یہ واقعہ مجھ سے روایت کیا۔ رمضان کے دنوں میں وہ یاد آئے اور میرے ہاتھ بے اختیار ان کی مغفرت کے لیے اٹھ گئے۔وہ عمرے کے ایک سفر میں ذوالفقار علی بھٹومر حوم کے ہم سفر تھے۔ مسجدِ نبوی میں داخل ہو ئے تو بھٹو صاحب کو بتا یا گیا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ کے آخری رسولﷺ نے قیام فرمایا اوراپنی جبینِ نیاز کو اس کے حضور میں رکھ دیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ چاہیں تو اس مقام پر نماز ادا کرلیں۔بھٹو صاحب نے انکار کر دیا۔ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔وہ چند قدم پیچھے کھڑے ہوئے کہ جب سجدہ کریں تو ان کی جبین وہاں ہو جہاں اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے قدم رکھے تھے۔ سجدہ تو لاریب صرف اللہ کا ہے لیکن یہ ایک بندے کا عجز اور رسالت مآب ﷺ کے سامنے اپنی کم تری کا احساس ہے۔بھٹو صاحب کبھی مذہبی آ دمی نہیں رہے نہ ان کا یہ دعویٰ تھالیکن ان کا یہ رویہ اس تقسیم کی نفی کر تا ہے جس میں ہم مبتلا ہوتے ا ور جس کے نتیجے میں زعم ِ تقویٰ کا مر ض لاحق ہو تا ہے۔ چند برس پہلے عمرے کے ایک سفر میں ڈاکٹر بابر اعوان اورچند دوسرے احباب میرے ہم سفر تھے۔صدر مملکت بھی یہاں مو جود تھے۔ بابر اعوان چاہتے تو سرکاری پروٹوکول سے فائدہ اٹھاتے اور صدر کے ہم رکاب ہو جاتے کہ وہ ان کے وفد کا حصہ اور وفاقی وزیر قانون تھے۔انہوں نے ایسا نہیں کیا۔وہ شب بھربیت الحرام میں ہمارے ساتھ رہے۔طواف، نماز اور دعاو مناجات۔جب مدینہ پہنچے تو وہاں بھی ہم ایک ساتھ تھے۔میں وہ منظر کبھی نہیں بھو لتا جب ہم حجرہ عائشہؓکے پاس کھڑے تھے جہاںاللہ کے آخری رسولﷺ محوِ آرام ہیں۔بابر اعوان نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آ نسو الفاظ پہ سبقت لے گئے۔ میں نے انہیں بلک بلک کر روتے دیکھا۔میں محبت و عقیدت کی اس فضا میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہی وہ مقام ہے جس کے بارے میں کہا گیا : نفس گم کردہ می آید جنیدو بایزید ایں جا کہنا یہ ہے کہ ہم اپنی دانست میں افراد کے بارے میں ایک فیصلہ صادر کرتے ہیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہم اپنی نیکی اور تقویٰ کے باعث عدالت کی کرسی پر براجمان ہیں جہاں سے دوسروں کے ایمان، نفاق اوراُخروی انجام کا فیصلہ ہو تا ہے۔یہ رویہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنی ذات سے بے خبر ہوتے اور زعمِ تقویٰ کے مرض کا شکار ہو جا تے ہیں۔صوفیانے بھی اسے مرض ہی کہاہے۔ایک حکایت یوں بیان کی جا تی ہے کہ ایک بزرگ کسی تنگ راستے سے گزر رہے تھے‘ جہاں سے ایک وقت میں ایک آ دمی ہی گزر سکتا تھا۔راستے کے ایک طرف پُرخار جھاڑیاں اور دوسری طرف جوہڑ تھا۔سامنے ایک کتا آ گیا۔بزرگ نے کتے سے کہا کہ مجھے تواس راستے سے اس لیے گزرنا ہے کہ میں نے اپنے کپڑے صاف رکھنے ہیں کیو نکہ مجھے نماز پڑھنی اوراپنی عبادت کر نی ہے۔تم جوہڑ سے گزر جائو، تمہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کتے نے جواب دیا کہ میں تو جوہڑ سے گزر جائوں گا لیکن آپ اپنی خیر منائیے۔ آپ کے کپڑے تو صاف رہ گئے لیکن آپ کا من میلا ہو گیا کیو نکہ آپ نے خود کو مجھ سے بہتر جانا۔ یہ حکایت کسی منطقی تجزیے کا مو ضوع نہیں کہ انسان افضل ہوتا ہے اور کتا کیسے کلام کرسکتا ہے۔ حکایتیں اور کہانیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ ان میں چھپے اخلاقی درس کو سمجھا جائے۔درس یہ ہے کہ اپنی بر تری کا احساس انسان کو زیبا نہیں۔اس کی تو جہ کی مستحق اصلاً اس کی اپنی ذات ہے۔علامہ اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں اس مضمون کو ایک اور زاویے سے باندھا ہے: حرفِ بد را برلب آوردن خطاست کافر و مومن ہمہ خلقِ خداست آدمیت احترامِ آدمی باخبر شو از مقامِ آدمی بندۂ عشق از خدا گیرد طریق می شود بر کافر و مومن شفیق ’’بری بات زبان پر لانا گناہ ہے ، کافر ہو یا مومن سب خدا کی مخلوق ہے۔آدمیت احترامِ آدمی ہے، آدمی کا مقام پہچان۔بندئہ عشق اپنی راہ خدا سے پاتا ہے اور کافر و مومن سب پر شفیق ہوتاہے۔‘‘ سیاستِ دوراں کے مباحث اپنی جگہ لیکن نظر کبھی اپنی جانب بھی لوٹ جانی چاہیے۔ایک کالم نگار کے پاس شاید یہ جواز ہو کہ وہ اہلِ سیاست کی کمزوریاں عوام پر واضح کرتا رہے کہ وہ اپنا ہاتھ کسی غلط کارکے ہاتھ میں نہ دیں لیکن یہ جواز خود احتسابی میں مانع نہیں ہے۔عام سماجی سطح پربھی ہمیں اس حوا لے سے خبر دار رہنا چاہیے، بالخصوص جب ہم مذہب کا نام لیتے ہیں۔مجھے یہ بھی واضح کر نا ہے کہ یہاں اعمال کی نفی نہیں ہو رہی۔نفی اس بات کی ہے کہ کس طبقے یا فرد کے بارے میں تحقیر آمیز رائے قائم کی جائے اورخود کو برتر خیال کیا جائے۔ ہمیںکیا معلوم جسے ہم بہ زعمِ خویش راندۂ درگاہ سمجھ بیٹھے ہوں، وہ اپنے آنسوؤں کی بدولت پار ہوجائے اور ہمارا زعم ہمیں لے ڈوبے۔