اخلاق اور سیاست کا ملن ابھی نہیں ہو سکا۔شاید کبھی نہیں ہوا،شاید یہ کبھی نہ ہو۔ آنے والے ضمنی انتخابات اسی کا اعلان ہیں۔ ایک سال گزرا ہو گا یا چند ماہ زیادہ کہ میاں نوا زشریف صاحب نے صحافت سے متعلق کچھ افراد کو مشاورت کے لیے بلایا۔ معلوم نہیں کیسے،میرا نام بھی ان میںشامل تھا۔ان دنوں اسلام آباد سے ن لیگ کے رکن اسمبلی انجم عقیل صاحب کا بہت چرچا تھا اور ان کی مالی بدعنوانیوں کی داستانیںزبان زدِ عام تھیں۔میں نے میاں صاحب کی خدمت میں تین باتیں کہیں۔ ان میں سے ایک بات ن لیگ سے متعلق تھی۔راولپنڈی اسلام آباد ن لیگ کا گڑھ شمار ہوتے ہیں۔راولپنڈی سے ن لیگ نے 2002ء میں حاجی پرویز صاحب کو قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا اور وہ حسبِ تو قع جیت گئے۔یہ لیگی قیادت کا ایک حیران کن فیصلہ تھا۔وہ بلدیہ کے کو نسلر تو ہو سکتے تھے، قومی اسمبلی جیسے قانون ساز ادارے کے رکن نہیں۔بطور رکن قومی اسمبلی مو صوف نے ایف اے کر نے کی ٹھانی اور امتحان کے لیے اپنے بھانجے کو بٹھا دیا۔وہ پکڑا گیا اور شرمندگی ن لیگ کے حصے میں آئی۔میں نے حاجی پرویز اورانجم عقیل کا ذکر کر تے ہوئے میاں صاحب سے سوال کیا کہ راولپنڈی اسلام آباد میں کیا ن لیگ کو ان سے بہتر امیدوار میسر نہیں تھے؟ میں نے کہا: میاں صاحب !آپ یہاں اگر کھمبوں کو ٹکٹ دیتے تو وہ بھی جیت جاتے۔ افسوس کہ آپ نے کھمبوں ہی کو ٹکٹ جا ری کیے۔آپ کے پاس مو قع تھا کہ بہتر لوگوں کو اسمبلی تک پہنچا سکتے تھے لیکن آپ نے اسے ضائع کر دیا۔ اگست میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے جب ن لیگ نے اپنے امیدوار کا انتخاب کیا تو مجھے لگا کہ مسلم لیگ آج بھی اسی جگہ پہ کھڑی ہے۔ جو لوگ یہاںامیدوار ہو سکتے تھے،ان میں جو اخلاقی اعتبار سے سب سے کم تر تھے،جن پر مقدمات قائم ہیں،ان پر اتفاق کیا گیا۔ ن لیگ کا پارلیمانی بورڈ شور مچاتا رہا، کسی نے ان کی نہیں سنی۔سینیٹرسید ظفر علی شاہ تو شمشیر ِ برہنہ بنے رہے لیکن ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہو ئی۔ ٹکٹ جاری کر نے کے بعد خبر یہ ہے کہ انٹیلی جنس کے ایک ادارے نے کچھ ایسی رپورٹ دی کہ مجبورا ً ٹکٹ دے کر واپس لینا پڑا۔یوں ن لیگ ایک متوقع جگ ہنسائی سے بچ گئی۔ تحریکِ انصاف بھی ن لیگ کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ اس جماعت نے میانوالی سے عائلہ ملک کو ٹکٹ جا ری کیا۔معلوم ہوا کہ ان کی ایف اے کی ڈگری جعلی ہے۔یہ خبر سامنے آنے کے با وجودآ خری وقت تک یہ کوشش کی گئی کہ وہ کسی حیلے بہانے سے بچ جائیں۔چند روز پہلے عدالت تحریکِ انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی کی رکنیت،اسی جعلی ڈگری کی وجہ سے معطل کر چکی ہے۔جب انہیں ٹکٹ جاری کیا گیاتھا تب بھی ان کے خلاف یہ مقدمہ موجود تھا۔ اس وقت بھی بہ اصرار انہیں ٹکٹ دیا گیا حالا نکہ خود تحریکِ انصاف کے لوگ ان کے خلاف علانیہ تحریک چلا رہے تھے۔ سادہ سی بات ہے۔ سیاسی جماعتیں اخلاقی معاملات میں حساس نہیں ہو ں گی تو محض آئین کی دفعہ 63,62 کا واویلا کر نا کافی نہیں۔سماج قانون سے نہیں روایات اور اقدار سے قائم رہتے ہیں۔ اقدار‘ قانون سے نافذ نہیں ہوتیں،یہ انسانی رویوں میں ظہور کر تی ہیں۔ اس کی ذمہ داری سماجی قوتوں پر زیادہ ہے،ریاست پر کم۔سیاسی جماعتیں بھی سماجی قوت ہیں۔ اگر وہ اخلاقی معاملات میں سنجیدہ ہو جائیں توقوم کو ایک بہتر قیادت میسر آسکتی ہے۔ میں جب بھی سیاست اور اخلاق کے باہمی تعلق پر بات کرتا اور ایک مقدمہ قائم کر تا ہوں،ایک سوال میرے حلق میں اٹک جا تاہے۔کیا میں کسی ناممکن کی تلاش میں ہوں؟کیا تاریخ میں کبھی دونوں کا ملن ہوا ہے؟یہ مشکل سوال ہیں۔خلافتِ راشدہ کا معاملہ ایک طرف کہ وہ ایک الٰہی فیصلہ تھا، تاریخ میں قائد اعظمؒ جیسے لوگ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، جن کی سیاست پر اخلاقی اقدار کا غلبہ تھا۔تقویٰ کی شہرت رکھنے والے ’سیاست دان‘اقتدار کے لیے باپ اور بھائیوں کے قتل میں ملوث رہے۔دورِ حاضرکی ایک اوراہم ترین شخصیت نیلسن منڈیلا نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیاتو ان کے ہاتھ میں بندوق تھی۔عصری سیاسی لغت کے مطابق وہ ایک دہشت گرد تھے۔ جن لوگوں نے کسی حد تک اخلاقیات کو ترجیح دی،ان کا دامن سیاسی کا میابیوں سے خالی رہا۔میں جب تاریخ کے تسلسل کو دیکھتا ہوں تو سیاست اور اخلاق بہت کم ہم آ غوش نظر آتے ہیں۔تو کیا اس ناممکن کی تلاش ترک کر دینی چاہیے؟ زمینی حقائق کے اعتراف سے مراد کیا یہی ہے؟ انسان اصلاً اخلاقی وجود ہے۔اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ زندگی کے کسی شعبے میں اخلاقی مقدمے سے دست بردار ہو جائے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سیاست میں یہ دوئی گوارا کر لے۔ اس کے لیے یہ آسان نہیں کہ وہ میکیاولی کو اپنا فکری پیشوا مان لے۔ اس لیے یہ آواز تو بہر حال اٹھنی ہے۔اس کا بند ہو جانا سماج کا اعلانِ موت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ خود مغرب میں بھی یہ کوشش رہی ہے کہ اس کی سیاست اس کے نظامِ اقدار کے تابع رہے۔ میکیاولی کا فلسفہ بھی کتابوں میں زندہ ہے۔یوں بھی وہ ایک تاریخی تجزیہ ہے جس سے اختلاف ممکن ہے۔ہمارا معا ملہ تو یہ ہے کہ ہم تو ایک لمحے کے لیے بھی اخلاق کی قربانی نہیں دے سکتے۔یہاں سے اگر بچ نکلے تو آخرت میں کیسے بچ پائیں گے؟اس لیے ہمیں تو بہر حال اس فاصلے کو پاٹنا ہے۔سیاست اور اخلاق کی شادی ہو جانی چاہیے۔ انسانی سو سائٹی مثالی نہیں بن سکتی۔ہمیں تو آئیدیل کی تلاش جاری رکھنی ہے۔اس لیے یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس تلاش کو کیسے ممکن حد تک نتیجہ خیز بنا یا جائے۔میرا مقد مہ یہ ہے کہ اس کے لیے کر نے کے دوکام ہیں۔ایک یہ کہ ہم اصلاح کے لیے سیاست کے بجائے سماج کو پہلی ترجیح بنائیں۔ دوسرا یہ کہ جمہورت پر کسی مفاہمت کو قبول نہ کریں۔ جب سیاست جمہوری ہوگی اور سماج اخلاق و اقدار کے معاملے میں حساس ہوگا تو یہ امکان کم سے کم تر ہوتاجائے گا کہ ایک سیاسی جماعت کسی ایسے فرد کو اپنا نمائندہ بنا کر عوام کے پاس بھیجے جس کا دامن اجلا نہ ہو۔اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو پھر شاید وہ منظر کم دکھائی دیں جو ہم اس وقت ضمنی انتخابات میں دیکھ رہے ہیں۔جمہوریت کا مطلب ہے کہ اقتدار تک وہی پہنچے جس کی عوام میں ساکھ ہو۔ یہ صحیح ہے کہ اس ساکھ کا بڑ اتعلق برادری اور خاندان کی عصبیت کے ساتھ ہے؛ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عصبیت رکھنے والے خاندان میں دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔بھٹو خاندان میں کوئی ذوالفقار علی ہوتاہے، کوئی ممتاز اور کوئی مو لاناجان محمدبھی۔ اگراخلاقیات کے باب میں سماج حساس ہو توپھر ایک خاندان اسی کو اپنا نمائندہ بنائے گاجو اخلاقی اعتبار سے بہتر ہو۔ میرے نزدیک اصلاح کا اگر کوئی امکان ہے تو اس کا راستہ یہی ہے۔اسی سے سیاسی جماعتوں کے فیصلوں میں بہتری آئے گی۔ جہاں تک سیاست کے اپنے خمیر کا تعلق ہے تو مجھے اس میں کم خیر دکھائی دیتا ہے۔سیاست میں منزل اقتدار ہوتی ہے۔یہاں کامیابی ہی معیار ہے۔اگر کسی کوشک ہے تو ضمنی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے طرزِ عمل پر ایک نظر پھر ڈال لے۔