اور اب شام کی سر زمین پر بکھرے معصوم بچوں کے لاشے بتا رہے ہیں کہ ظلم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔دنیا ابھی ان بے گناہوں کو رو رہی تھی جو جنرل سیسی کے اقتدار کی بھینٹ چڑھ گئے کہ ملکِ شام میں بشار الاسد کے اقتدار کو معصوموں کے لہو کی ضرورت پیش آگئی۔جنرل سیسی اور بشار الاسد دونوں مسلمان ہیں۔قاتل مسلمان اور مقتول بھی مسلمان،دونوں کلمہ گو۔ جمال عبدالناصر کی بیٹی نے اپنی فیس بک پر اطلاع دی ہے کہ جنرل سیسی اور بشارالاسد نے ایک دوسرے سے رابطہ کیا ہے۔ دونوں متفق ہیں کہ اخوان کے ساتھ یہی سلوک کیا جا نا چاہیے۔ جنرل سیسی سے پہلے اخوان المسلمون کے قتلِ عام کا تمغہ بشارالاسد کے والدِ گرامی حافظ الاسد اور ان کے بھائی رفعت الاسدکے سینے پر سجا ہوا تھا۔کسر تو جمال عبدالناصر نے بھی نہیں اُٹھا رکھی لیکن اُن کے دور میں موت کی سزا کم لوگوں کو ملی۔ حافظ الاسد نے انسانوں کی ایک بستی حماۃ پر ٹینک چڑھا دیے جو اخوان کا مرکز تھا۔ لوگوں نے پانی کے ایک بڑے پائپ میں پناہ لی تو اسے ایک طرف سے بند کر دیا گیا۔اس میں تیل پھینکا گیا اور پھر دیا سلائی دکھا دی گئی۔ اس کے بعد کا منظر تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔چالیس ہزار لوگ مار دیے گئے جو شام کے رہنے والے تھے لیکن حافظ الاسد کے اقتدار کے لیے خطرہ تھے۔اب اخبارات میں شام کے معصوموں کی لاشیں دیکھیں تو معلوم ہوا کہ بیٹا باپ کی روایت کو کیسے آگے بڑھا رہا ہے۔ حیرت در حیرت یہ ہے کہ جنرل سیسی کی پشت پناہی وہ حکمران کر رہے ہیں جو امتِ مسلمہ کا عَلم تھامے ہوئے ہیں اور بشارالاسد کے پشتیبان کا نعرہ ’’ لا شرقیہ لا غربیہ… اسلامیہ اسلامیہ‘‘ ہے۔ مغرب کی تاریخ میں بھی اقتدار کے لیے ظلم کو ہتھیار بنایا گیا لیکن یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کے لیے آج یہ قصۂ پارینہ ہے۔ دوسروں کے لیے تو وہ ماضی ہی کی طرح بے رحم ہیں لیکن اپنوں کے بارے میں ان کی رائے بدل چکی ہے۔مغرب نے جمہوریت کا سبق سیکھ لیاہے۔ امریکا میں ریپبلکنز، ڈیموکریٹس کے خلاف ہر حربہ استعمال کرتے ہیں لیکن اقتدار کے لیے مخالفین کے قتلِ عام کے بارے میں کبھی نہیں سوچتے۔ انیسویں صدی کی خانہ جنگی کے بعد امریکا میں اقتدارکی منتقلی کا عمل تشدد سے پاک ہوگیا ہے۔صدر کینیڈی یامارٹن لوتھرکنگ جونیئر کا قتل استثنائی واقعات ہیں۔ یہی معاملہ مغرب کے دوسرے ممالک کا بھی ہے۔ بد قسمتی سے مسلم دنیا بحیثیت مجموعی آج بھی وہیں کھڑی ہے جہاں صدیوں پہلے تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اقتدارکے لیے جس طرح پہلے ظلم کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا تھا، آج بھی ویسے ہی ظلم کا راج ہے۔ مولانا مودودی نے ہمیں بتایا تھا کہ مسلمان اسمِ صفت ہے۔ کوئی نام سے مسلمان نہیں ہوتا، اصلاً یہ کچھ اوصاف کو اپنانے کا نام ہے۔ آج عراق، افغانستان، مصر اور شام میں جس طرح اقتدار کے لیے قتل و غارت ہو رہی ہے کیا اس کی کوئی دوسری مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ یہ مشاہدہ مجھے بار بار اس سوال کی طرف مراجعت پر مجبور کر تا ہے کہ مسلمان معاشروں میں سیاست‘ اخلاقیات کی گرفت میں کیوں نہیں آ سکی؟ تشدد ہماری زندگی کا اٹوٹ انگ کیوں بن گیا ہے؟ یہ آج ایک ایسی امت کی شناخت کیوں ہے جس کے مؤسسِ اوّل کو عالم کے پروردگار نے رحمت عالمؐ بنایا ہے۔ رحمت سب انسانوں کے لیے اور سب زمانوں کے لیے۔ اخوان کی حمایت میں مجھے سید منور حسن تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کے دوسرے علمبردار کہاں ہیں اور پھر سید منور حسن بھی کیوں ان گروہوں کے حامی ہیں جن کے ہاتھ بے گناہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کے لہو سے رنگے ہوئے ہیں؟ کاش وہ بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں مارے جانے والے مظلوموں کی حمایت میں بھی یوں ہی بے تاب ہوکر نکلتے جیسے اخوان کے لیے سڑکوں پر ہیں۔برما اور فلسطین کے مظلوم بچوں کی تصویریں دکھا کر ہم متعین دشمنوں کے خلاف جذبات کو ابھارتے ہیں جو غیر مسلم ہیں لیکن مصر اور شام کے مظلوم مقتولین کے قاتلوں کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ اخلاقیات کے دیگر پیمانے تو ایک طرف رہے، مسلمان سماج انسانی جان کے بارے میں اتنا بے حس کیوں ہے؟ میں جب ان سوالات پر غور کرتا ہوں تو ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔دنیا میں اگر انسانوں کے مابین کوئی تقسیم ممکن ہے تو وہ ظالم اور مظلوم کی ہے‘ قاتل اور مقتول کی ہے‘ بھوکے اور سیر شکم کی ہے۔رہی مذہبی تقسیم تو اس کا تعلق آخرت سے ہے۔وہاں عالم کا پروردگار انسانوں کو دوگروہوں میںبانٹ دے گا۔اس کا پیمانہ کیا ہو گا،یہ وہی جانتا ہے۔ہم کسی پر کوئی حکم نہیں لگا سکتے۔یہ بات البتہ اس نے بتا دی ہے کہ اس کا فیصلہ ظاہر کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔اس کا علم چونکہ ظاہر اور باہر ہر شے پر محیط ہے،اس لیے وہ نیت، ارادے، سوچ اور عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہر فرد کے بارے میں فیصلہ سنائے گا۔میرا تاثر یہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ اور ہماری تاریخ میں تفقہ فی الدین رکھنے والوں نے اس مقدمے کو اسی طرح سمجھا ۔ان کے فیصلے ظالم اور مظلوم، قاتل اور مقتول کی تقسیم پر مبنی ہیں۔سیّدنا علیؓ نے فیصلہ سنایا کہ مسلم اور غیر مسلم کے خون کی قیمت ایک جیسی ہے۔عمر بن عبدالعزیز نے یہی فیصلہ دیا۔امام ابو حنیفہ کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ مارکس ازم نے بھی انسانی سماج کو اسی طرح طبقات میں تقسیم کیا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ وینز ویلا کے شاویز مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دکھائی دیتے ہیںاور مصر کے مظلوموں کے ساتھ بھی۔اس میں البتہ خرابی یہ ہے کہ اشتراکیت بھی کسی اخلاقیات کو قبول نہیں کرتی۔وہ اپنے فلسفے کی تائید میں اور انقلاب کے لیے ہر ظلم کو روا رکھتی ہے اور اس کا جواز پیش کرتی ہے۔اشتراکیت کے ماننے والوں کو جہاں اقتدار ملا، انہوں نے بھی وہاں انقلاب دشمنی کے نام پر انسانوں کا قتل عام کیا۔ اپنے انہی تلخ تجربات کی وجہ سے انسانیت آج اشتراکیت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔وہ سرمایہ داری کے مظالم سے تنگ ہے لیکن اسے کوئی متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔اس لیے آج دنیا کو تبدیلی کے لیے ایک نئے نظام فکر اور طرزعمل کی ضرورت ہے۔ تجزیے کے اس مرحلے پر سچ پوچھیے تو مجھے اس سوال کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ مصر اور شام کے مظالم کو کیسے روکا جائے؟ جمہوریت قابلِ فہم جواب ہے لیکن اگر اس کے نتائج مغرب اور عرب شہنشاہیت کے مفادات سے متصادم ہوں تو اسے رد کر دیا جاتا ہے۔غلبے کی انسانی جبلت کسی اخلاقیات کی پابند نہیں ہو سکی۔اگر مسلمان اس پر قابو نہیں پا سکے جو آخرت کے توانا تصور پر کھڑے ہیں تو کسی دوسرے سے اس کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ اس کے باوصف میرا خیال ہے کہ جو جد و جہد ممکن ہے ،وہ بہرحال ایک جمہوری سماج کی تشکیل کے لیے ہونی چاہیے۔یہ جمہوریت ہی کا ثمر ہے کہ امریکا‘ جو انسانوں پر ہونے والے مظالم کا ایک بڑا ذمہ دار ہے، اُس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اعلانیہ جنرل سیسی کی حمایت کرے۔امریکی سماج اور میڈیا بحیثیت مجموعی مصر کی فوجی آمریت کی مذمت کر رہے ہیں۔ راستہ اس لیے ایک ہی ہے۔ ہر جگہ مسلمان ایک جمہوری سماج کے لیے جدو جہد کریں۔ پُرامن جد و جہد۔اس کے ساتھ ساری توجہ معاشرے کی تربیت پر دی جائے۔اس کی بنیاد اسلام کا وہ تصور اخلاق ہو جو آخرت میں جواب دہی کا علم بردار ہے۔ گویا صبر حکمت عملی ہو، جمہوریت مقصد ہو اور اخلاقی تعمیر نتیجہ ہو۔میں جانتاہوں یہ آسان کام نہیں‘ لیکن اس کے سوا کوئی راستہ نہیں۔غلبے کی انسانی جبلت پر ہم قابو نہیں پا سکتے لیکن اسے ایک حد تک مقید کر سکتے ہیں۔ مغرب نے اگر یہ کر لیا ہے تو ہم بھی کر سکتے ہیں۔مغرب میں پر امن انتقال اقتدار ممکن ہو گیا ہے۔ مسلمان دنیا میں بھی ہو سکتا ہے لیکن طریقہ یہی ہے، صبر آزما۔