مسلکی اختلاف اب ہمارے لیے کوئی تاریخی واقعہ یا علمی بحث نہیں، ایک سماجی مسئلہ ہے۔ہم نے اس حقیقت کا انکار کیا اور اسے ایک مذہبی معاملہ جانا۔بھکر کا واقعہ ہمیں ایک بار پھراس غلط تصور کی طرف متوجہ کررہا ہے۔ مسلکی اختلاف کو مذہبی مسئلہ سمجھنے کاایک نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے اس معاملے کو روایتی علما کے حوالے کر دیا۔ہمارے ہاں علما کے لیے عام طور پر یہ ممکن نہیں ہو تا کہ وہ اپنے مسلکی دائرے سے باہر سوچ سکیں اور یہ خیال کریں کہ کسی دوسرے مسلک کے ہاں بھی خیر ہو سکتا ہے۔اتحاد بین المسالک کانفرنسوں میں ہم جو خطبے سنتے ہیں،اُن کا مدارس کی فضا سے کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ جب مسلکی اختلافات کی گتھی کوسلجھانے کی سعی کی جاتی ہے تو وہ مزید الجھتی چلی جا تی ہے۔پھریہ کہ مدارس کے نصاب میں سماجی علوم شامل نہیں ہیں۔سماج کیا ہے، یہ کیسے بنتا اور قائم رہتا ہے، معاشرتی اقدار کیا ہوتی اور کیسے پروان چڑھتی ہیں،رویہ کیا ہوتا اور اس کی تشکیل میں فطری تنوع کی کیا اہمیت ہے؟ یہ سب سوالات مدارس میں زیرِ بحث نہیں آتے۔اس طرح یہاں سے فارغ التحصیل جب عملی زندگی کا حصہ بنتے ہیں توان کا سماجی رویہ معاشرتی اختلاط میں مانع ہوتا ہے۔یوں وہ تمام عمرسماج کے اندر ایک جزیرہ بنا کر جیتے ہیں اورمنفرد رہتے ہیں۔چند لوگ اپنی خدا داد صلاحیت کے باعث اس سے بلند ہوجاتے ہیں لیکن ان میں سے اکثر اپنے مفادات کے لیے اس عمومی رویے کو استعمال کرتے ہیں۔اس باب میں بعض مذہبی سیاسی راہنماؤں کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جن میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر مجلس کا حصہ بن جائیں لیکن وہ جس عصبیت کے نمائندے ہیں،اس کے بارے میں ان کا لائحہ عمل یہی ہے کہ وہ سماج کے ساتھ اختلاط نہ کرے۔اگر ایسا ہوجا ئے تو ان کی سیاست کی بنیاد منہدم ہو جائے۔اپنے عمومی رویے میں مذہبی طبقہ سماج میں گھلنے ملنے سے گریز کرتا ہے، اس لیے یہ بین المسالک رواداری کو بھی ہمیشہ اسی نظر سے دیکھتا ہے اور خود کو اس سے ہم آہنگ نہیں کر پاتا۔ اس کا ایک اورنقصان یہ ہوتا ہے کہ جب مذہبی ہم آہنگی کی بات ہوتی ہے تو وہ مذہبی مباحث کے گرد گھومنے لگتی ہے۔ تکفیر کیا ہوتی ہے؟ اس کا حق کس کو ہے؟یہ علما کا کام ہے یا ریاست کا؟وہ کیا عقائد ہیں جن کی وجہ سے کوئی فرد یا گروہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو جا تا ہے؟حیات النبی‘ ممات النبی، نور بشر،صحابی کی تعریف… مو ضوعات کی ایک طویل فہرست ہے جو اس مسئلے کا احاطہ کرلیتی ہے اوراس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ مسئلہ مزید الجھتا چلا جائے۔ہمارے ہاں یہی ہو رہا ہے۔ فرقہ وارانہ اختلاف نے کم و بیش تیس سال سے سماجی امن کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ان تین عشروں میں جب بھی اسے حل کرنے کی کوشش ہوئی، علما سے رابطہ کیا گیا‘ ہمیں معلوم ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔بھکر کے واقعات بتا رہے ہیں کہ اس باب میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں ایسا ہی ہوگا جہاں مذہب کو صرف علما کا مسئلہ سمجھا جائے گا۔ آج اگر کہیں یہ اختلاف سماجی مسئلہ نہیں ہے تو وہاں اسے ریاست نے اپنے ہاتھوں میں لے رکھاہے یا سماج نے۔مشرق وسطیٰ، ایران وغیرہ میں مسلکی اختلاف سماجی مسئلہ نہیں ہے۔ اسی طرح مغرب میں مذہب کی وجہ سے کوئی سماجی تصادم نہیں ہوتا۔عرب ملکوں میں اس کا سبب یہ ہے کہ ریاست نے مذہب کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔مسجد مدرسے کا قیام، ریاست کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔امام مسجد کا تقرر بھی ریاست کی صوابدید پر ہے۔ علیٰ ہذاالقیاس۔ مغربی ممالک میں سیکولرازم کو ایک سماجی قدر کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ریاستی قوانین اسی کی روشنی میں بنتے ہیں۔یوں مذہبی اختلاف کبھی سماجی امن کے لیے چیلنج نہیں بنا۔پاکستان میں اگر یہ مسئلہ حل ہو نے کا نام نہیں لے رہا تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اسے علما کی ذمہ داری قرار دے دیا اور ریاست اور سماج نے خود کو اس سے الگ کر لیا۔آج اگر کہیں مسلکی جھگڑا ہوتا ہے تو ریاست اور سماج دونوں علما سے رجوع کرتے ہیں اور یوں میرتقی میرؔ کے ایک مشہور شعر کا مصداق بن جا تے ہیں۔ ہمارے جید علما جنہوں نے مدرسے اور مسلک کی فضا سے باہر رہ کر سوچا،ان کا نتیجۂ فکر بھی کم و بیش یہی ہے۔جب پاکستان میں پہلی بار قادیانی مسئلہ اٹھا تو مو لا نا مودودی اس کے حق میں نہیں تھے کہ اسے کسی مذہبی تحریک کا عنوان بنا یا جائے۔وہ خود اس سے الگ رہے اور جماعت کو بھی الگ رکھا۔انہیں حکومت نے زبردستی اس میں گھسیٹا۔ مو لانا مودودی نے اس موقع پر جو عدالتی بیان دیا، وہ ان کے موقف کا صحیح ترجمان ہے۔ان کا خیال تھا کہ جماعت اسلامی ،اسلامی دستور کا جو مطالبہ کررہی ہے، وہ دراصل ایسے مسائل کا حل ہے۔اسے گلی بازار میں حل نہیں کیا جا سکتا۔گویا جب دستور اسلامی ہوگا تو یہ سب مسائل ریاست کے نظم میں حل ہوں گے۔سچ یہ ہے کہ علما نے جب ان معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیاتواس کے بعد مذہب سماجی امن کے لیے ایک مسئلہ بن گیا۔ دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ماضی میں سماجی و ریاستی اداروں نے ایک خصوصی ایجنڈے کے تعاقب میں انتہا پسندی کو فروغ دیا۔ لوگوں کے مذہبی اور قومی جذبات کو ابھارا گیا اور باغی کو ہیرو کا درجہ دیا گیا۔باغی کا لفظ ایک خاص لغوی اور سیاسی پس منظر رکھتا ہے۔اس سے جو پہلا تاثر ابھرتا ہے وہ لاقانونیت کا ہے۔جو لوگ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں ان کے پیش نظر ممکن ہے یہ بات نہ ہولیکن سننے اور پڑھنے والاجو تاثر لیتا ہے،اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ باغی ایک ہیرو ہے اور باغی وہ ہوتا ہے جو اپنے نظریے کے خلاف کسی قانون اور ضابطے کو نہیں مانتا ۔یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اس سماج میں ہر اس آدمی کو ہیرو مانا جاتا ہے جو کسی مذہبی یا قومی جذبے کے زیرِ اثرقانون پامال کرتا ہے اور اس میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا جاتا اگر وہ کسی انسان کی جان لے لے۔اس رویے کی تشکیل میں ریاستی ادارے اوررائے ساز افراد،وہ کسی ممبر پر بیٹھے ہوں یا کسی ٹی وی چینل پر،ان کے ہاتھ میں قلم ہے یا تلوار، سب شریک ہیں۔سادہ سی بات ہے‘ جب یہ لوگ اسامہ اور ایمن ا لظواہری کو ہیرو بنا کرپیش کریں گے تو کیا ہر نوجوان ان ہی کی طرح ہیرو بننے کی کوشش نہیں کرے گا؟یہ اب اس کا اجتہاد ہے کہ اس کے نزدیک اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ امریکا سے ہے یا کسی دوسرے مسلک سے۔مباح الدم کون ہے… امریکی یا دوسرے مسلک کے پیروکار۔ آج جب اس تخم ریزی کے نتائج نکل رہے ہیں تو حیرت کیسی؟ اگر یہ تشخیص درست ہے تو اس کا علاج بھی واضح ہے۔ایک یہ کہ مذہب کے سماجی پہلوکو ریاست یا سماج کا مسئلہ بنا یا جائے، محض علما کا نہیں۔ دوسرا یہ کہ رائے سازطبقات معاشرے میں سطحی جذباتیت کے فروغ اور ہیرو سازی کے اس عمل کی حو صلہ شکنی کرتے ہوئے مثبت اور تعمیری خطوط پر سماجی اصلاح کا آغاز کریں۔اس مسئلے کا حل یہی ہے۔تاہم یہ کام سماج کی ترتیبِ نوکا متقاضی ہے اوروہ دنوں میں نہیں ہوسکتا۔سردست تو علما سے بات کرنا پڑے گی اور ساتھ ہی قانون کے موثر استعمال کو یقینی بنا نا پڑے گا۔علما کو اس پر آمادہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی شکایات کوقانون کے دائرے میں لے آئیں اور انہیں یہ یقین دہانی کرانا پڑے گی کہ قانون اس معا ملے میں کسی امتیاز کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔اس حکمت عملی سے ہم مقامی سطح پرحالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ یہ بات البتہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو نی چاہیے کہ یہ کوئی مستقل علاج نہیں ہے۔اس سے ایک واقعے کا سدِ باب تو ممکن ہے،فساد کی وہ لہر نہیںروکی جاسکتی جو سماج میں پھیل چکی۔مستقل علاج وہی دو نکاتی ہے۔ایک یہ کہ مذہب کے سماجی کردار کا تعین ریاست کرے۔ دوسرایہ کہ سماجی و ریاستی ادارے مذہبی جذبات کو اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال نہ کریں کیونکہ انہیں پھر کسی ایک دائرے تک محدود رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔