اخبار اور کالم نگار کا رشتہ کیا ہے؟ میرے نزدیک وہی جو لفظ اور خیال کا ہے۔خیال مخصوص الفاظ کا محتاج نہیں ہو تا لیکن الفاظ کے انتخاب میں سہل انگاری ،خیال کے ابلاغ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔اس لیے ایک لکھنے والے کو سوچ سمجھ کراخبار کاانتخاب کر نا چاہیے۔ایک سال پہلے جب ’’دنیا‘‘ کا اجرا ہوا تومیں نے محسوس کیا کہ میرے خیال کو الفاظ مل گئے۔ممتاز اہلِ قلم کی ایک نئی دنیا وجود میں آ رہی تھی۔کالم نگاروں کاایک چمن آراستہ ہورہاتھا۔منظر وہی تھا جو مجید امجد نے بیان کیا ہے: روش روش پہ ہیں نکہت فشاں ،گلاب کے پھول حسیں گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول میں بھی اس چمن کا حصہ بن گیا۔مجھے خیال ہوا کہ میرے خیالات کے ابلاغ کے لیے یہ ایک موزوں تر فورم ہوسکتا ہے۔ایک برس پہلے’’دنیا‘‘ کا پہلا شمارہ سامنے آیا تو میرا کالم اس میں شامل تھا۔یہ کالم توقعات کی روشنائی سے لکھا گیا۔توقع میںخوش گمانی ہوتی ہے، یقین نہیں۔میرے پہلے کالم کا عنوان تھا ’’پڑاؤ‘‘۔اس کیفیت کے بیان کے لیے شاید یہی لفظ مناسب تھا۔آج ایک سال بعد اس کیفیت میں کوئی جوہری فرق تو نہیں آیا لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ گمان نے یقین کے طرف قدم بڑھایا ہے۔’’دنیا ‘‘ آج ایک ایسا فورم ہے جہاں خیالات کا تنوع ہے۔اظہار کی آزادی ہے۔اس میں کچھ ایسی خوبیاں ہیں جوکہیں اور نہیں۔میرا تجربہ تو یہی ہے۔میں صرف ایک مثال عرض کر تا ہوں۔ ’’ایڈیٹنگ‘‘جوکبھی اخبار کا ناگزیر شعبہ تھا، آج متروک ہے۔صحتِ زبان، اسلوبِ بیان، نفسِ مضمون،اخبار میں شائع ہونے والے مضامین کو ان سب پیمانوں پہ پر کھا جا تا تھا۔یہ کہاں ممکن تھا کہ جس اخباریا جریدے کی ادارت مو لاناابوالکلام آزاد، غلام رسول مہریا عبدالمجید سالک کے ہاتھ میں ہو،اس میں زبان و بیان کے باب میں تساہل کا مظاہرہ ہو۔آج آزاد ہیں نہ مہر، اس لیے اخبارات کے دفاتر میں کوئی ایسا فردنہیں پایا جا تا جسے فنی اعتبار سے ’’ایڈیٹر‘‘ قرار دیا جا سکے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر رطب و یابس قابلِ اشاعت ہے۔معاصر اخبارات کے ادارتی صفحات کو دیکھتا ہوں تومعلوم ہوتا ہے کہ کالم نویس اور مضمون نگار جو لکھ دیں وہ شائع ہو جاتا ہے۔’’دنیا‘‘ میں ایسا نہیں ہے۔ہجے کی غلطی پکڑی جاتی ہے اورکالم نگار کا بھرم قائم رہتا ہے۔جملے کی ساخت بھی درست کی جاتی ہے،اگرچہ اکثریہ ذوقی معاملہ ہوتاہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایڈیٹر کا بھی تو ذوق ہوتا ہے۔’’دنیا‘‘ کے ذمہ داران مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس متروک شعبے کو زندہ کیا۔ یہ بات اب مان لینی چاہیے کہ ہم صحافت کے رومانوی عہد میں زندہ نہیں ہیں۔وہ دور اب قصہ پارینہ ہے اور شاید دوبارہ لوٹ کر نہ آسکے۔رومان کا تعلق انقلاب اور تحریک کے ساتھ ہوتا ہے۔انقلابوں اور تحریکوں کادور گزر چکا۔سائنسی اور جمہوری انقلاب دراصل عہدِ انقلاب کے خاتمے کا اعلان ہیں۔جہاں جمہوریت نہیں ہے وہاں سماج اس کی طرف مراجعت کریں گے لیکن جمہوری طریقے سے۔مشرقِ وسطیٰ میں اٹھنے والی عرب بہار اس کا ایک اظہار ہے۔شام وغیرہ میں جو کچھ ہورہا ہے،وہ محض تشدد ہے جس کا انجام نا کا می ہے۔تشدد عمل کی صورت میں ہویا ردِ عمل کی صورت میں، اس کی اب پذیرائی نہیں ہو سکتی۔پاکستان جیسے فکری پسماندگی کے شکار معاشروں میں جذبات اور خوابوں کا کاروبارشاید چند دن مزید چل جائے لیکن اس سے زیادہ نہیں۔اس لیے جدید معاشروں میںصحافت بھی رومانوی نہیں ہو سکتی۔یہ اب سماجی ارتقا کا ایک ذریعہ ہے اور صحافت کواسی حوالے دیکھا جانا چاہیے۔اگر یہ مقدمہ درست ہے توآج کسی اخبارکو پرکھنے کا پیمانہ یہ ہے کہ اس نے سماجی ارتقا میں کتنا حصہ ڈالا ہے۔ ’’دنیا‘‘ اس معا ملے میں سرخرو ہے۔سماجی ارتقا کا لازمہ آزادی رائے ہے۔ایک زندہ سماج میں ایسے فورمز ہو نے چاہئیں جہاں لوگ اپنی بات آزادی کے ساتھ کہہ سکیں۔اختلافِ رائے کااحترام ہولیکن یہ شائستگی اور دلیل سے مشروط ہو۔’’دنیا‘‘ میں ہر طرح کے مضامین اور کالم شائع ہوتے ہیں۔اس وقت سماج میں جو زاویہ ہائے نظر مو جود ہیں، سب کی ترجمانی ہے۔مجھے بہت سی باتوں سے شدید اختلاف ہوتاہے۔میں سوچتا ہوں میرے کالموں کا بارے میں یہی رائے بعض دوسرے لکھنے والوں کی بھی ہو سکتی ہے۔اگر وہ مجھے برداشت کرتے ہیں تو میرے دل میں بھی یہ وسعت ہونی چاہیے کہ میں ان کی آزادی رائے کے حق کا احترام کروں۔یہ فیصلہ پڑھنے والوں پہ چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کس کی رائے کو قبول کرتے ہیں۔معاشرے اسی طرح ذہنی ارتقا سے گزرتے اور نمو پاتے ہیں۔’’دنیا‘‘ نے گزشتہ ایک سال میں ایک ایسے فورم کا کردار ادا کیا ہے جو سماجی تبدیلی کا انجن ہے۔اخبار کے ذمہ داران اگر اس پر اظہارِ تشکر کریں تو وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔محترم نذیر ناجی صاحب کا میں بطورِ خاص ذکر کر نا چاہوں گا جو اس گاڑی کے ڈرائیورہیں۔انہوں نے اس کے تنوع کو بر قرار رکھا۔وہ خود صاحب الرائے شخصیت ہیں، لیکن انہوں نے اخبار کو اپنے خیالات کا ترجمان بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔انہوں نے خالصاًپیشہ ورانہ حوالے سے اخبار کو دیکھااور اسی وجہ سے ’’دنیا‘‘ آج سرخرو ہے۔ چیف ایڈیٹرمیاں عامر محمود صاحب کا کردار بھی ایسا ہے جو لائقِ تحسین ہے۔میں اُن سے ایک آدھ بار ملا ہوں اور وہ بھی ’’دنیا‘‘ کے اجرا سے چند سال پہلے۔ان کی تعلیمی اور سماجی خدمات میرے لیے ہمیشہ متاثر کن رہیں۔پرنٹ اور الیکٹرانک، میڈیا کے دونوں شعبوں میں وہ ملک کے موثر ترین لوگوں میںشامل ہیں۔ ان کی حیثیت اب رجحان ساز کی ہے۔میں ان سے خیر ہی کی توقع رکھتا ہوں۔آج پاکستان کی کچھ قومی ضروریات ہیں۔صحافت کو ان سے ہم آہنگ ہونا ہے۔اگر صحافت میں بھی میاں صاحب ان مثبت اقدار کی آبیاری کر سکیں جن کا مظاہرہ انہوں نے تعلیم کے میدان میں کیا ہے توان کا شمار سماج کے جدید معماروں میں ہوگا۔ میں’’دنیا‘‘ کی پہلی سالگرہ کے موقع پر محترم ہارون الرشید صاحب کا ذکر بھی کرنا چاہتاہوں۔انہی کی تحریک پرمیں ’’دنیا‘‘ کے کالم نگاروں میں شامل ہوا۔ایک صاحب ِ اسلوب کالم نگارکے طور پر میں ان کا ہمیشہ مداح رہا ہوں لیکن ان کی ذاتی تو جہ اس کے سوا ہے۔ان سے اختلاف کرتے وقت میں اس خوف سے بے نیاز ہوتا ہوں کہ اس کا اثر ہمارے سماجی تعلق پر پڑے گا۔سچ یہ ہے کہ اس کے لیے جس اخلاقی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے،کم لوگ اس کا اہتمام کر سکتے ہیں۔ ایڈیٹوریل سٹاف کی محنت کا ثمر ہمارے سامنے ہے۔میں اس کا خیر مقدم کرتا ہوں اور خواہش رکھتا ہوں کہ دوسرے اخبارات بھی اسے قابلِ تقلید جا نیں۔ ’’صحافت‘‘ اگر چہ رومان نہیں ہے لیکن دیانت یا اخلاص رومان کے لوازم میں سے نہیں ہیں۔ان کا تعلق تو بنیادی اخلاقیات سے ہے۔صحافت کو اگر کاروبار مان لیا جائے تو بھی دیانت ضروری ہے۔آج بطور کالم نگار اخبار کا سادہ ورق میری دسترس میں ہے۔مجھے اس پر لفظوں سے نقش و نگار بنانے ہیں۔مجھے سوچنا ہے کہ میں اپنی صورت سنوار رہا ہوں یا ملک وقوم کی۔یہی بات ایڈیٹر صاحب کو سوچنی ہے اور مالک کو بھی۔ایک سال کی ’’دنیا‘‘ تو بہت اجلی ہے جس پر ذمہ داران اطمینا ن کا اظہار کر سکتے ہیں۔میں دعا کرتا ہوں کہ ایک سال بعد بھی ان کے چہرے اسی اطمینان سے روشن ہوں۔ 78