طالبان اور عسکریت پسندی کے معاملے میں ریاست کا ابہام حیرت انگیز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ’’کارگل آپریشن‘‘ کو دہرایا جا رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ آپریشن جبرالٹر، بلکہ اس سے بھی قبل آزادیٔ کشمیر کی پہلی تحریک سے یہ ابہام مسلسل ہمارا ہم سفر ہے۔کارگل آپریشن چونکہ ماضی قریب کا حصہ ہے، اس لیے ذہنوں میں تازہ ہے ورنہ یہ ہماری کتابِ تاریخ کا پہلا باب ہے نہ آخری۔ حکومت اور ریاستی اداروں کے ذمہ داران کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس کے اسباب خالصتاً سیاسی اور غیر مقامی ہیں۔ وزیرِ داخلہ کا نتیجۂِ فکر یہ ہے کہ ایک آمر نے فاٹا میں فوج بھیجی اور یہ اس کانتیجہ ہے۔تجزیہ نگاروں نے اخباری صفحات سیاہ کر دیے کہ یہ امریکی جنگ کا حصہ بننے کی وجہ سے ہے۔ صحیح یہ ہے کہ عسکریت پسندی محض سیاسی عمل ہے اور نہ امریکی جنگ کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک سماجی معاملہ بھی ہے۔ جب تک تمام زاویوں سے اس کا جا ئزہ نہیں لیا جائے گا، یہ ابہام باقی رہے گا اور ہم اس کے مضمرات کی گرفت میں رہیں گے۔ دنیا بھر میں سنگین معاملات کو اسی طرح ہمہ جہتی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسرائیل کی صورت میں فلسطین کی سرزمین پر جو اجنبی پودا لگایا گیا، اس کے زہریلے برگ و بار نے عرب دنیا میں فساد پھیلا دیا۔ امریکا کے لیے اس کی غیر معمولی اہمیت تھی۔ اہلِ فلسطین کے ردِ عمل اور اپنی سرزمین سے محبت کے باعث اسرائیل کا وجود خطرات میں گِھر گیا اور ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل بھی۔ امریکا ایک ایسے خطے کو حالات کے حوالے نہیں کر سکتا تھا جہاں تیل جیسی دولت کے ذخائر ہوں۔امریکا کی حکومت اور پالیسی ساز اداروں نے اس پر غور کا آغاز کیا کہ یہ مسئلہ اصلاً ہے کیا اور وہ کیسے اسے حل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہتی حکمتِ عملی پر کام کا آغاز ہوا۔ اس کے سیاسی پہلو سے تو سب واقف ہیں لیکن سماجی اور تحقیقی پہلو کی خبر کم لوگوں کو ہے۔امریکی ذمہ داران نے اس کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور دوسرے پہلوئوں کو سمجھنے کے لیے سنجیدہ تحقیق کو ضروری سمجھا۔ 1970ء کی دہائی میں امریکا کی کم و بیش تمام ممتازیونیورسٹیوں میں ’’مطالعہ مشرقِ وسطیٰ‘‘ (Middle East Studies) کے نام سے تحقیقی شعبے قائم ہوئے۔ ان کے لیے فنڈز سی آئی اے نے فراہم کیے۔ دنیا بھر سے اہلِ علم کو وہاں جمع کیا گیا اور تحقیقی سہولیات فراہم کی گئیں تاکہ وہ اس کے مختلف پہلوئوں پر دادِ تحقیق دیں۔ خطے کی تاریخ سے لے کر مذہبی پس منظر تک، سامی تہذیب کے مطالعے سے سید قطب کے فکری جائزے تک، ایسا غیر معمولی علمی ذخیرہ سامنے آیا کہ اگر دو تین عشروںمیںہونے والے اس علمی کام کی صرف ’’کتابیات‘‘ (Bibliographies) ہی مرتب کی جائے تو کئی جلدیں وجود میں آئیں۔ آج عرب بہار اور جو دوسرے واقعات ہم دیکھ رہے ہیں ،امریکی اہلِ تحقیق بہت پہلے ان کا جائزہ لے چکے۔ اگر آج مشرقِ وسطیٰ پر غیر معمولی امریکی اثرات ہیں تو یہ محض اسرائیل کی فوجی امداد کا نتیجہ نہیں۔ یہ تو اس ہمہ جہتی حکمتِ عملی کا ایک مظہر ہے جو اس تحقیق کے نتیجے میں اختیار کی گئی ہے۔ پاکستان کی ریاستی و غیر ریاستی دانش کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی معاملہ کی ایک جہت سے اگرواقف ہے تو دوسرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ طالبان یا یوں کہیے کہ عسکریت پسندی کے معاملے کا تعلق بھی مسائل کی اسی نوع سے ہے۔آج طالبان کے ساتھ مذاکرات کا چرچا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عسکریت پسندی سے نجات صرف مذاکرات پر موقوف ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ اس معاملہ کا صرف ایک پہلو ہے اور وہ ہے سیاسی، جیسا کہ وزیرِ داخلہ کے بیانات سے واضح ہو رہا ہے۔ میرے علم میں کوئی ایسی ریاستی یا حکومتی کوشش نہیں ہے جو اس معاملے کو ہمہ جہتی پہلو سے دیکھ رہی ہو اور اس کی روشنی میں کسی پالیسی کی تشکیل پیش نظر ہو۔اس ابہام کا نتیجہ ہے کہ مذاکرات کا ڈول ڈالنے کے بعد میجر جنرل کی سطح کے فوجی افسر مارے جا رہے ہیں اور وزیر داخلہ کا ارشاد ہے کہ ہمیں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔ معلوم نہیں، ان کا روئے سخن کس جانب ہے ۔حکومت کو شایدمشورے کی ضرورت نہ ہو لیکن سماج کو ہے کہ وہ اس معاملے کو پوری طرح سمجھے۔یہ محض سیاسی قصہ نہیں ہے۔اس کے سماجی پہلو بھی ہیں‘ اور میں، ان میں سے چند کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں۔ 1۔1979-80ء میں جب سوویت یونین کے خلاف افغان مزاحمت کی سر پرستی کا فیصلہ کیا گیا تو ہم نے مثالی نظام اور مثالی قیادت کا ایک خاکہ ترتیب دیا۔پھر تمام ابلاغی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے،اسے عوامی سطح پر مقبول بنایا۔پہلے گل بدین حکمت یا ر اوربرہان الدین ربانی جیسے حضرات کے بت تراشے گئے،اور پھر ملا عمر کے۔معلوم ہوا کہ افغانستان میں طارق بن زیاد کا جنم ثانی ہو گیا ہے۔طارق بن زیاد تو میں نے احتیاطاً لکھا ورنہ ان کے فضائل ایسے تھے کہ ہماری تاریخ کے صدر اوّل ہی میں ان کے نمونے پائے جاتے تھے۔پھر معلوم ہوا کہ ملا عمر کی قیادت میں خلافت علیٰ منہاج النبوہ قائم ہو گئی اور عدالتیں اسلامی طریقے سے کام کر رہی ہیں۔وہ امن ہے کہ زیورات سے لدی عورت افغانستان کے ایک سرے سے چلے تو دوسرے سرے تک کوئی میلی آنکھ اس کی طرف نہیں اٹھتی۔شاید یہ ہماری قومی تاریخ کا واحد منصوبہ ہے جس پر ہمہ جہتی غور کیا گیا۔یہ نقطۂ نظر اب ہماری نفسیات کا حصہ بن چکا۔جو کوئی اس سے نسبت کا اظہار کرتا ہے،سماج میں اس کے لیے پہلے سے نرم گوشہ موجود ہے۔کیا یہ غیر معمولی واقعہ نہیں کہ طالبان خود کش دھماکے کرتے ہیں۔بے گناہ عورتیں اور بچے مارے جاتے ہیں۔وہ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور اس کے باوجود سماج میں ان کے خلاف کوئی منفی رد عمل پیدا نہیں ہوتا۔عسکریت پسندی کے سماجی پہلو زیر غور لائے بغیر یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی۔ 2۔ریاست ایک جگہ پر عسکریت پسندی کی حمایت کرتی ہے اور دوسری جگہ پر اس کی مزاحمت۔ایک تنظیم کو کام کرنے کی اجازت دیتی ہے اور دوسری پر پابندی لگاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ بھارت کے خلاف جنگ جائز ہے تو امریکا کے خلاف کیوں نہیں؟ کوئی ریاست اس تضاد کے ساتھ آخر کیسے چل سکتی ہے؟ 3۔ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ حکومت عسکریت پسندوں سے کیا چاہتی ہے؟ کوئی مطالبہ کوئی تجویز اس کی طرف سے سامنے نہیں آئی۔سب سیاسی جماعتیں مل بیٹھی تھیں تو یہ طے ہونا چاہیے تھا کہ طالبان سے یہ یہ مطالبات کیے جائیں گے۔اگر وہ مان گئے تو ان کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں ہو گا۔اس پر قوم کو اعتماد میں لیا جاتا اور رائے عامہ کو ہموار کیا جاتا۔مذاکرات فی نفسہ تو مطلوب نہیں ہیں۔یہ ابہام بدستور جاری ہے جس کی جھلکیاں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ 4۔مذہبی تعبیر کا معاملہ الگ ہے۔ میں بار ہا اس پر لکھ چکا کہ سماج میں ایک نیا نقطۂ نظر جنم لے چکا ہے۔یہ کسی سرحد کو مانتا ہے نہ بین الاقوامی معاہدے کو۔اس کو مخاطب بنانے کی کوئی ریاستی حکمت عملی ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ 5۔عوامی مسائل کے حل میں حکومتی ناکامیوں کا تسلسل بھی ایک متبادل نظام کی خواہش کو ابھار رہا ہے۔اگر ایک طرف لوگ حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھیں گے اور دوسری طرف ان کے سامنے ملا عمر کی مثالی حکومت کا نقشہ پیش کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ لوگوں کا انتخاب دوسرا ہو گا۔ ان پہلوؤں کے ساتھ اس کے سیاسی اور بین الاقوامی پہلو بھی ہیں،جن پر اکثر بات ہوتی رہتی ہے۔ان کو بھی یقیناً پیش نظر رہنا چاہیے۔حاصل یہ ہے کہ مذاکرات فی نفسہ مطلوب نہیں ہیں۔ مطلوب ہے پاکستان کو جائے امن بنانا۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم عسکریت پسندی کے مذہبی، سیاسی،سماجی اور دوسرے پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی حکمت عملی ترتیب دیں گے۔ افسوس کہ سر دست اس کے آثار نہیں ہیں۔حکومت تو مشورے کی ضرورت سے بے نیاز ہے،لیکن سماج کو بہر حال سمجھنا ہو گا کہ اس کا مسئلہ اصل میں کیا ہے؟