میں شاید پہلا آ دمی ہوں جس نے اخبارات کے صفحات پر یہ آواز اٹھائی کہ نجی (Private)جہاد کا تصور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے نہ یہ عقل و فراست کے پیمانے پر پورا اترتا ہے۔میں نے بارہا اسے مو ضوع بنا یا اور بتایا کہ اللہ کے کسی رسول نے اقتدار کے بغیر مسلح اقدام کیا نہ ہماری علمی روایت میں نجی جہاد کو جائز سمجھا گیا ہے۔اللہ کے آ خری رسول محمد ﷺ نے اہلِ مکہ کے مظالم اٹھائے لیکن جواباً تلوار نہیں اٹھائی۔جب مدینہ میں آپﷺ کو اقتدار ملا تو پہلی بار اللہ نے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی(الحج40-39:22)۔یہ بھی اجازت تھی، حکم نہیں تھا۔میں نے بار بار تنبیہہ کی کہ جب ایک باریہ دروازہ کھول دیا جاتا ہے تو پھر اسے بند کرنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔پھر لوگ گروہ بناتے اور ہر اُس کے خلاف عَلمِ جہاد اٹھالیتے ہیں جسے وہ اسلام کا دشمن سمجھتے ہیں۔یہ دشمن امریکاہو سکتا ہے اور بھارت بھی۔ یہ کوئی فرقہ ہوسکتا ہے اور کوئی شخصیت بھی۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کہ ایک سماج میں بہت سے مسلح گروہ وجود میں آجائیں اورہر طرف فساد پھیل جائے۔نجی جہاد ریاست کے اہتمام میں کیا جائے یا افراد اور گروہ اپنے اجتہادسے یہ قدم اٹھائیں،یہ کسی ایک ملک میں ہو یا عالمی سطح پر، دونوں صورتوں میں اس کے نتائج ایک جیسے تباہ کن ہیں۔ علمی سطح پر یہی بات جاوید احمد غامدی صاحب نے کہی۔ سماجی سطح پرمو لانا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان جیسے اصحابِ خیر نے اس جانب متو جہ کیا۔افسوس کہ کسی نے مان کر نہیں دیا۔بات یہیں رکی نہیں۔ لوگ اُن کے درپے ہو گئے جوان نتائج سے خبردار کر رہے تھے۔غامدی صاحب کو ہجرت کرنا پڑی۔ مو لانا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان شہید کر دیے گئے۔ہم جیسوں کے خلاف مضامین اور کالموں کے انبار لگ گئے۔ہمیں کہا گیا یہ جہاد کے منکر ہیں۔ان کے فضائل بیان کئے گئے جنہوں نے نجی جہاد کا علم اٹھا یا تھا۔کالم لکھے گئے کہ ایمن الظواہری جیسے لوگ تو اللہ کے ہاں اتنے محبوب اور ’’پہنچے ہوئے‘‘ ہیں کہ ہم جیسے حشرات الارض ان کے مقام و مر تبے کا ادرا ک ہی نہیں کر سکتے۔پھر وہ وقت آیا کہ لوگوں نے ہر بات بچشمِ سر دیکھ لی۔پاکستان کی سرزمین فساد سے بھر گئی۔مساجد اور معبد ویران ہوگئے۔فجر کی نماز با جماعت پڑھنی ممکن نہیں رہی۔آج خوف اور بھوک نے پورے سماج کو حصار میں لے رکھاہے۔آج ریاست سراسیمہ ہے اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ما ررہی ہے۔اب نجی جہاد کے علم بر داروں کی آنکھ کھلی ہے اور وہ بتارہے ہیںکہ نجی جہاد کا تصورکتناتباہ کن ثابت ہوا ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل نے اسے اپنے طویل مذاکرے کا مو ضوع بنایا۔اس میں وہ لوگ بھی شریک ہوئے جو نجی جہاد کے سب سے بڑے اخباری علم بر دار تھے۔انہوں نے اپنے کالموں میں برسوں اس تصور کی آب یاری کی۔اس ٹی وی مذاکرے کی روداد ایک معروف کالم نگارنے قلم بند کردی ہے۔جی چاہتا ہے کہ میں خلافِ عادت ان کے کالم سے ایک طویل اقتباس یہاں نقل کر دوں کہ اُن سے بہتر، ان کے جدید خیالات کی ترجمانی کوئی دوسرانہیں کر سکتا۔ 20ستمبر کوایک معاصر میں، اپنے کالم میں انہوں نے لکھا: ’’یہ سوال انتہائی اہم تھا کہ کیا پاکستانی ریاست نے پرائیویٹ جہاد کو خارجہ پالیسی کے ایک اہم وسیلے کے طور پر اپنا ئے رکھا؟شرکا کا اتفاق تھاکہ ہاں ایسا ہی ہوااور پھر اس پر بھی کوئی اختلاف نہ تھا کہ یہ پالیسی ملک کے لیے مضر ثابت ہوئی۔بیشترغلطیوں کی فصل نیک نیتی اور اخلاص کے کھیتوں میںاگتی ہے،اس لیے ہر گز یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ پرائیویٹ جہاد کو خارجہ پالیسی کا اہم ہتھیار بنانے والوں کی نیت میں کوئی فتور تھایا وہ جان بو جھ کر ایسا راستہ تراش رہے تھے جو آگے چل کر پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا۔وہ یقینا پاکستان کے دفاع کو موثر بنا نے کے لیے ٹھوس حکمت عملی وضع کر رہے تھے لیکن تاریخ نے یہی بتا یا کہ یہ راستہ غلط تھا۔ابتدا میں ایسا ہی ہو تا ہے کہ پرائیویٹ جنگجو براہ راست ریاستی نظم تلے رہتے ہیں۔پھر وہ براہ راست نظم سے نکل کر کسی حد تک آزادانہ تنظیم میں ڈھل جا تے ہیں۔ایک عرصے تک وہ ریاستی اعضا کے ساتھ رابطے میں رہتے‘ نان و نفقہ کی حد تک مدد لیتے اور کچھ اہداف و مقاصد کے لیے بھی کام کر تے رہتے ہیں لیکن پھر ایک ایسا مر حلہ بھی آ جا تا ہے جب انہیں کئی دوسرے مر بی اور سرپرست مل جاتے ہیں۔وہ اپنے اہداف و مقاصد کا تعین بھی خود کر نے لگتے ہیں۔وہ ریاست کی احتیاج سے نکل کر خود سری کی ایسی راہ پر چل نکلتے ہیں جوانہیں ریاستی اداروں کے مدِ مقابل لا کھڑا کرتی ہے۔ پاکستان آج اسی تجربے سے گزر ر ہا ہے۔ کبھی پاکستان کی خارجہ حکمت عملی کے خاکے میں رنگ بھرنے والے وہ عناصرجنہیں نازو نعمت سے پالا پوساگیااور جو کبھی ریاستی اداروں کا بازوئے شمشیر زن رہے،آج اپنی اپنی لشکرگاہوں میں بیٹھے،اپنے اپنے مقاصد کے لیے زور آزمائی کر رہے ہیں۔بحث کے دوران یہ نکتہ بھی اٹھا کہ اس روش کی آب یاری فوجی آ مروں نے کی۔اس بات کا بھی تذکرہ ہوا کہ جمہوری حکمرانوں کے دور میں بھی خارجہ پالیسی روایتی اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ اثر رہی جس نے پرائیویٹ جہادی عناصر کے ساتھ راہ و رسم جاری رکھی۔اگر پاکستان کو ایک مہذب جمہوری ریاست کے طور پرمضبوط و مستحکم بنانا ہے تو پالیسیوں کی صورت گری کا کام عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کر نا ہوگااور لشکر بندیوں کے اس سلسلے کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا جو اب ہمارے قومی وجود کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔‘‘ یہ محض ایک اقتباس نہیں،اُس داستانِ عبرت کا خلاصہ ہے جو پچھلے تین عشروں میں اہلِ پاکستان کے لہو سے لکھی گئی ۔یہ لہو صرف انسانوں کا نہیں، اس میں ہماری روایات،مذہب، اقدار،سب کا خون شامل ہے۔اس کی ذمہ دار صرف ریاست نہیں، وہ مذہبی جماعتیں بھی ہیں، جنہو ںنے اس تصور کو پھیلا یا، نجی جہاد کے لیے مجاہدین فراہم کیے اور پوری قوم کو ایک عذاب سے دوچار کردیا۔ اس ذمہ داری میں وہ اہلِ دانش بھی شریک ہیں جنہوں نے اپنے قلم اور زبان سے اس خیال کو تقویت پہنچائی،اس کے حق میں ایک جذباتی فضابنائی اور ہمارے سماج کو تاریخ کے سب سے بڑے المیے میں مبتلا کر دیا۔ کالم نگار نے ریاستی اداروں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ جب غلطی واضح ہو جائے تو پھر رجوع کر لینا چاہیے۔میں نہیں جانتا کہ ریاست اس مشورے سے کتنا فائدہ اٹھاتی ہے،لیکن میں معزز کالم نگاروں اور دانش وروں کو بھی یہی مشورہ دینے کی جسارت کروں گا۔ان کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے عامتہ الناس کو بتا نا چاہیے کہ وہ ایک غلط خیال کی فصل بوتے رہے اور آج سماج کی رگوں میں اگر یہ زہر پھیلا ہے تو وہ اس سے بری الذمہ نہیں۔عالمِ برزخ میں اخبار نہیں پڑھے جاتے ورنہ مولانا حسن جان اور ڈاکٹر فاروق خان اس کالم کو پڑھنے کے بعد ایک دوسرے کو دیکھتے اور غالب کو یاد کرتے ؎ کی مرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ ہائے اس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا