پاکستان میں لوگوں کے خیالات بالعموم کسی تاثر (Perception) کے اسیر ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے قائم ہو جاتا ہے، جیسے ’سیاست‘ کے بارے میں بالعموم خیال یہ ہے کہ یہ فراڈ اور بدعنوانی کے قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک لفظ ہے۔ اس خیال نے جس تاثر کے تحت جنم لیا وہ روزمرہ عوامی مشاہدے اور تجربے کی دَین ہے۔ اسی طرح جب ہم کسی کے دینی علم کو مشکوک سمجھتے ہیں تو اسے مُلا کہہ دیتے ہیں۔مُلا تاریخی اعتبار سے ذی علم اور محترم شخصیات کے لیے خاص تھا۔اب اگر مُلا جدید معنوں میں مستعمل ہے تو یہ بھی لوگوں کے مشاہدے ہی کا حاصل ہے۔ تاہم بہت سے تاثرات جو سنی سنائی باتوں پر مبنی ہوتے ہیں یا کسی ایک آدھ مشاہدے کی بنیاد پر قائم کرلیے جاتے ہیں، انہیں عمومی اصول بنا لیا جاتا ہے۔ اس اندازِ فکر کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے نیک لوگ بدنام افراد کی فہرست میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک تاثر این جی اوز کے بارے میں ہے۔ لوگوں نے چند تنظیموں کا معاملہ مشکوک پایا اور یہ معلوم ہوا کہ وہ کسی بیرونی ایجنڈے کے تحت مصروفِ عمل ہیں تو اس سے یہ اصول اخذ کر لیا کہ تمام این جی اوز ایک جیسی ہیں۔اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی کے خیالات این جی اوز سے وابستہ خواتین و حضرات سے ملتے ہوں تو بلا تحقیق اسے غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ اپنی اس رائے کے حق میں ،میں یہاں چند دلائل بیان کیے دیتا ہوں۔ پاکستان میں مصروفِ عمل این جی اوز دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جو سماجی فلاح و بہبود کے کام کرتی ہیں جیسے ہسپتالوں کا قیام، آفت زدہ لوگوں کی مدد ، نالیوں کی تعمیر اور ا س نوعیت کے دوسرے کام۔دوسری وہ ہیں جو شعورکی بیداری کواپنا ہدف بناتی ہیں جیسے خواتین کے حقوق، بنیادی انسانی حقوق، تعلیمی اصلاحات وغیرہ۔دونوں طرح کی تنظیموں کو اکثر غیر ملکی عطیاتی اداروں سے مدد ملتی ہے۔ وہ ان کاموں کے لیے وسائل فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کا قانون اس کی اجازت دیتا ہے ۔یہ این جی اوز پاکستانی قانون کے تحت رجسٹر ہوتی ہیں اور بین الاقوامی عطیات دینے والے ادارے بھی حکومتِ پاکستان کی اجازت سے پاکستان میں کام کر سکتے ہیں۔ ان سب کے مالی امور کا آڈٹ ہوتا ہے اور دیگر سرگرمیوں کی نگرانی بھی۔ ہسپتالوں کا قیام وغیرہ ایسی سرگرمیاں ہیں جن میں کوئی غیر ملکی ایجنڈا تلاش کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو صحت کی سہولتیں یا پینے کا صاف پانی ملتا ہے تو اس سے کسی غیر ملکی طاقت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ یہ بات بھی معلوم ہے کہ اکثر عام آدمی جو ان کاموں سے فائدہ اٹھاتا ہے، اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سرمایہ کون دے رہا ہے۔ جو لوگ بظاہر یہ خدمت سرانجام دیتے ہیں وہ پاکستانی ہوتے ہیں اور تنظیمیں بھی مقا می ہوتی ہیں۔ ایسے کاموں کو شک کی نظر سے دیکھنا، الا یہ کہ کسی کے پاس کوئی شہادت ہے، میرا خیال ہے کہ انصاف کے خلاف ہے۔ شعوری بیداری کے لیے جو تنظیمیں اور ادارے کام کرتے ہیں، وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنی ایک سوچ رکھتے ہیں اور پھر اس کے تحت پروگرام بناتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے پروگرام ایسے ہیں جن میں ان کے اہداف کسی غیر ملکی ڈونر ادارے سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں اور یوں ڈونر ان کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کرتے ہیں۔دوسری طرح کی این جی اوز وہ ہیں جن کا اپنا کوئی پروگرام نہیں،وہ یہ دیکھتی ہیں کہ اس وقت ڈونر زکا مطالبہ کیا ہے۔وہ محض پیسہ کمانے کے لیے ڈونرز کے حسبِ خواہش پروگرام بناتی اور پھر فنڈز حاصل کرتی ہیں۔ان کے ایجنڈے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ مقامی ضروریات کی بنیاد پر مرتب نہیں ہوا۔یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اکثر ڈونرز کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہے اور انہوں نے دنیا میں مختلف خیالات کی ترویج کے لیے فنڈزقائم کر رکھے ہیں۔ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ہماری ضروریات کے مطابق ہیں جیسے پاکستان میں انسانی حقوق کے بارے میں وہ آگاہی موجود نہیں ہے جس کی ضرورت ہے۔یہاں لوگ مکالمہ ،اختلاف رائے کے آداب اور کثیر المدنیت (Pluralism) جیسے سماجی تصورات کے بارے میں بے خبر ہیں۔ پاکستانی سماج میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی شدید ضرورت ہے،لیکن ان ڈونرز کے بعض اہداف ایسے ہیں جو پاکستانی ثقافت سے کوئی تعلق رکھتے ہیں نہ وہ یہاں کے مقامی مسائل ہیں۔مثال کے طور پر ہم جنس پرستوں کے سماجی حقوق یا سزائے موت کا خاتمہ۔ہمارے سماج کو اس طرح کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ان کے لیے اگر کوئی آواز اٹھاتا ہے تو میرا تاثر یہ ہے کہ اس کا تعلق اُن این جی اوز سے ہے جن کا اپنا کوئی ایجنڈا نہیں یا وہ کسی دوسرے کے اشارۂ ابرو کے پابند ہیں۔ ہم جب ایسی این جی اوز کی مذمت کرنا چاہتے ہیں تو پھر بلا امتیاز سب کو اس میں شامل کر لیتے ہیں اور اس میں پہلی طرح کی این جی اوز بھی شامل ہو جاتی ہیں۔میں ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ پاکستان میں بہت سے مثبت فکری،علمی اور شعوری پروگرام غیر ملکی ڈونرز کی مدد سے جاری ہیں اور ان کا کسی غیر ملکی ایجنڈے سے کوئی تعلق نہیں۔یہ صرف پاکستان کی بہتری اور بھلائی میں ہوتے ہیں۔پھر یہ کام آج سے نہیں ،پچھلے ساٹھ سال سے جاری ہے۔مثال کے طور پر 1960ء کی دھائی میں مسلمان فلسفیوں کے افکار پر ایم اے شریف نے دو جلدوں میں ایک شاندار علمی کتاب مرتب کی ۔اس کتاب کے دیباچے میں لکھا ہے کہ یہ ایک غیر ملکی ڈونر کی معاونت سے شائع ہوئی ۔میں یہ بات براہ راست معلومات کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ پاکستان کی بے شمار مذہبی جماعتوں سے متعلق افراد کے تصنیفی، تحقیقی،علمی اور سماجی منصوبوں کے لیے یہ ڈونرز وسائل فراہم کرتے ہیںاور یہ لاکھوں ڈالرز میں ہوتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی لوگ عوامی فورمز پر این جی اوز کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔اسی طرح پولیو اور ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کے خلاف مہم اور مفت ادویات تمام تر غیر ملکی ڈونرز کا عطیہ ہیں۔ میں این جی اوز کی ایک اور خدمت کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوںجس کی وجہ سے پاکستان میں لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار ملا ہے۔ان کو وہ تنخواہیں مل رہی ہیں جو پاکستان کا کوئی سرکاری ادارہ نہیں دے سکتا۔ان کی وجہ سے پاکستان میں بہت سا زر مبادلہ آ رہا ہے۔ یہ میں ان این جی اوز کی بات کر رہا ہوں جو فلاح و بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں یا ان فکری و سماجی منصوبوں پر کام کر رہی ہیں جن کا تعلق پاکستان کی علمی و معاشرتی ضروریات سے ہے۔ اگر یہ سارے نوجوان بے روزگار ہو جائیں تو اس سے ایک بڑا سماجی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ میں یہ بات بھی اپنے مشاہدے کی بناپر عرض کرتا ہوں کہ ان این جی اوز سے وابستہ نوجوانوں کے خیالات پاکستان اور اسلام کے بارے میں وہی ہیں جوایک عام پاکستانی کے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اقلیت مختلف نقطۂ نظر رکھتی ہے لیکن لازم نہیں کہ ان کا تعلق کسی این جی اوسے ہو۔افکارکی ترویج ایک دوسرے فطری طریقے سے ہوتی ہے جو اس وقت میرا موضوع نہیں۔ جو لوگ غور کرتے ہیں، ان سے میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ کسی بھی موضوع پر محض تاثر (Perception)کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہ کریں۔ باشعور لوگ اگر ایک بے بنیاد بات کے قائل ہوجائیں تو یہ ایک عمومی غلط فہمی میں بدل جاتی ہے جیسے سیاست اور مُلا کے مروجہ تصورات ہیں۔