اعتدال اور توازن ہی میں حسن ہے، لیکن یہ بات کس سے کہی جائے؟ اہلِ مذہب؟ عزت مآب سید منور حسن نے جناب الطاف حسین کو قرآن مجید پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ کیا اچھا مشورہ ہے جو ایک مسلمان دوسرے کو دے سکتا ہے۔ تری آواز مکے اور مدینے۔ لیکن کیا میں سید صاحب کو بھی یہی مشورہ دینے کی جسارت کر سکتا ہوں؟ اسی قرآن مجید میں یہ بھی تو لکھا ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اﷲ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اﷲ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو، اﷲ اُس سے پوری طرح باخبر ہے‘‘۔ ( المائدہ 5: 8) رہے مولانا فضل الرحمٰن تو ان کو سات خون معاف کہ مذہب کے جملہ حقوق ان کے نام محفوظ ہیں۔ توہینِ مذہب کا کوئی مقدمہ ان کے خلاف قائم ہو سکتا ہے نہ یہ مطالبہ کہیں سے اٹھ سکتا ہے۔ یہ تو مداخلت فی الدین ہو گا! فتویٰ سازی کے سب کارخانے ان دنوں بند ہیں کہ معاملہ اعلیٰ حضرت کا ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اُن کی مادرِ علمی کو برسوں پہلے ایک استفتا بھیجا گیا جس میں ایک عالم کی تحریروں پر رائے مانگی گئی۔ دارالافتا نے صادر کیا: ’’ضال اور مضل ہے‘‘۔ مستفتی نے جواباً عرض کیا: ’’حضور یہ تو آپ ہی کے ایک بزرگ کی نگارشات ہیں‘‘۔ شور اٹھا کہ فتویٰ واپس لیا جائے ہمارے اکابر اور ان کے خلاف فتویٰ؟ افسوس کہ حسنِ ظن کا یہ باب اپنے لیے کھلا اور دوسروں کے لیے بند رہتا ہے۔ اس لیے آج ’’ دارالافتا‘‘ بند ہیں کہ مسلک کے تمام مفتیانِ کرام رخصت پر ہیں: ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! مولانا کا معاملہ تو ایک طرف لیکن سید منور حسن تو جانشینِ سید مودودی ہیں۔ وہی جو تمام عمر فتووں کی زد میں رہے۔ ان کے عہد میں جماعت اسلامی ’صالحین‘ کی جماعت سمجھی جاتی تھی، مفتیوں کی نہیں۔ آج مفتی اعظم خیبر پختونخوا جناب سراج الحق صاحب کا فتویٰ ہے: نیٹو سپلائی حرام ہے۔ شہادت کے باب میں خود امیر جماعت کا دوسرا فتویٰ سامنے آ چکا۔ سید صاحب کسی مدرسے کے سند یافتہ ہیں نہ سراج الحق صاحب۔ مولانا مودودی تو سند یافتہ تھے۔ برصغیر کے جلیل القدر علما سے پڑھا اور اسناد لیں، یہ الگ بات ہے کہ کبھی تشہیر نہیں کی۔ لوگوں نے علمی استعداد پر انگلی اٹھائی تو بھی اسناد نہیں دکھائیں۔ دنیا سے رخصت ہوئے تو محققین نے شائع کر دیں۔ اس پس منظر کے باوصف سید مودودی نے کبھی فتویٰ نہیں دیا‘ لیکن آج ان کی مسند‘ خیر سے‘ مفتی حضرات کے پاس ہے: میں جانتا ہوں’’جماعت‘‘ کاحشر کیا ہو گا۔ طے تو یہ کر رکھا تھا کہ جماعت اسلامی پر کبھی قلم نہیں اٹھاؤں گا۔ برسوں کی جگر سوزی کا حاصل کیا ہے؟ شکوے، شکایتیں، فاصلے اور سعی نامشکور۔۔۔۔۔زمیں جنبد، نہ جنبد گل محمد! لیکن کبھی کبھی برداشت کے بندھن ٹوٹ جاتے ہیں۔ سید مودودی کے کاتے ہوئے سوت کو جب لوگ اس بے دردی سے ریزہ ریزہ کر تے ہیں تو دل پر ہاتھ پڑتا ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی قلم اٹھ جاتا ہے اور اس وادی میں آ نکلتا ہوں: دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے! جس دین کی عصبیت میں یہ ہنگامہ برپا ہے، اُس کی تعلیم سے بھی کسی کو کوئی نسبت ہے؟ جس قرآن کے پڑھنے کی ہم تلقین کرتے ہیں، کبھی خود بھی اُسے کھول کر دیکھا ہے؟۔۔۔۔۔ محض تلاوت کے لیے نہیں، راہنمائی کے لیے بھی؟ ہم اﷲ کے رسولﷺ کی محبت میں بے تاب سڑکوں پر نکلتے اور ہر قدر کو پامال کر دیتے ہیں۔ کبھی ہم نے سوچا کہ خیروبرکت کی اس ماخذ ذاتِ مبارکﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا تھا؟ وہ کس احساس میں دن بھر سرگرداں اور رات کو مصلے پر کھڑے رہتے تھے؟ روشن جبیں رب کے حضور جھکی ہوئی اور خوب صورت آنکھیں نمناک، آخر کس کے لیے؟ ع کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟ اﷲ کے رسولﷺ قیامت کے روز شکایت کریں گے، اپنی قوم کے خلاف۔ یہ میں نہیں کہتا، خود اس آخری الہام کی خبر ہے: ’’ اے میرے رب! میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک (مہجور) بنا لیا تھا‘‘۔ ( الفرقان 25: 30) کاش میں وہ الفاظ یہاں نقل کر سکتا جو سید مودودی نے ’مہجور‘ کی شرح میں لکھے ہیں۔ اﷲ کے رسولﷺ کس کے خلاف یہ شکایت کریں گے؟ آپﷺ کی قوم کون سی ہے؟ میں اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔ خدا گواہ ہے، لرزہ طاری ہو جاتا ہے، مگر یہ مذہبی پیشوا؟ مریدِ سادہ تو رو رو کے ہو گیا تائب خدا کرے کہ ملے شیخ کو بھی یہ توفیق قرآن میں تحریف کیا ہے؟ دوسرے سوالات کی طرح ہم نے اس سوال کو بھی چند کلامی مباحث تک محدود کر دیا ہے۔ کیا یہ قرآن کی تحریف نہیں ہے کہ ہم چند خیالات کے ساتھ اس کتاب کی طرف رجوع کریں اور پھر ان کے حق میں دلائل تلاش کریں؟ کیا قرآن پر ایمان کا یہی مطلب ہے؟ قرآن کا مطالبہ اس کے برخلاف ہے۔ خالی ذہن کے ساتھ اِس کے حضور میں پیش ہوا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ وہ کیا ارشاد کرتا ہے؟ وہی ہمارا عقیدہ ہو، وہی ہمارا خیال ہو! مسلک، گروہ، فقہ۔۔۔۔۔ہر بات اُس کی میزان پر پیش کی جائے۔ جسے وہ کھرا کہے قبول کر لی جائے اور جسے وہ رد کر دے اسے مسترد کر دیا جائے۔ قرآن اس لیے تو نہیں ہے کہ ہماری عصبیت کا دفاع کرے۔ اگر ہم قرآن کو اپنی خواہش، جذبات، تعصب اور مفاد کے تابع کرتے ہیں تو یہ بھی قرآن میں تحریف ہے۔ کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام بیچ اس مسئلے کے؟ دین کا یہی سوئے استعمال ہے جس سے ہم ڈرتے تھے۔ یہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ جن جلیل القدر شخصیات نے دین کی یہ تعبیر پیش کی، میرا حُسنِِ ظن یہ ہے کہ ان کا دھیان اس انجام کی طرف نہیں گیا ہو گا۔ اگر انہیں موقع ملتا تو میرا گمان یہ بھی ہے کہ وہ اُسی طرح اس سے رجوع کرتے جس طرح امام غزالی ؒ نے مناظرے سے کر لیا تھا۔ سیدنا مسیح ؑ تو قیامت کے دن اپنے نام لیواؤں سے اعلانِ برأت کر دیں گے جنہوں نے انہیں خدا کا بیٹا بنا دیا۔ کیا یہ بزرگ بھی ایسا کریں گے؟ قیامت، جی ہاں وہی قیامت جس نے برپا ہونا ہے اور ہم سب نے اﷲ کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ شہیدوں کا معاملہ وہاں پیش ہو گا اور ’’ شہادت‘‘ دینے والوںکا بھی۔ قاتل بھی وہاں ہوں گے اور مقتول بھی۔ گرجے جلانے والے بھی اور ان کے وکیل بھی۔کیا ہمیں معلوم ہے کہ گرجوں میں راکھ ہو جانے والوں کا استغاثہ لے کر کون کھڑا ہو گا؟ اقبال نے تو جب اپنے تناظر میں سوچا‘ لرز اٹھے: ور حسابم را تُو بینی ناگزیر از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر مگر وہ اقبال تھے، مریدِ سادہ اور یہاں معاملہ شیخ سے آ پڑا ہے!