پاکستان اور بھارت کے سیاسی افق پر مو لوی فضل اللہ اور نریندرامودی کا ظہورخبر دے رہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا مستقبل کیا ہو گا۔ قرآن مجید کی ہدایت تو یہ تھی کہ برائی کو نیکی سے ختم کیا جائے مگر ہم نے برائی کو برائی سے ختم کر نا چاہا۔یوں جواباً ایک بڑی برائی ظاہر ہوگئی، اسی کانام مو دی ہے۔ فضل اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جنگجو ہیں اور کم از کم اس وقت یہ امکان نہیں کہ وہ ریاست پر قابض ہو جائیں کیونکہ انہوں نے ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ اس کے برخلاف مو دی جمہوری طریقے سے بھارت کے ایوانِ اقتدار پر دستک دے رہے ہیں۔گویا یہ امکان ہے کہ کل ریاست کے وسائل اور ادارے ان کے رحم و کرم پر ہوں۔ اگر اس قماش کے لوگ ریاست پر قابض ہو جا ئیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح کا فتنہ بر پا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ہو نے والی یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ بربادی کے طرف خطے کا سفر بہت تیزی سے جاری ہے۔ میں پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوںکہ اس وقت دونوں طرف غالب نقطہ نظر نفرت کی اساس پر قائم ہے۔ہمارا معا ملہ تویہ ہے کہ ہم ہرکسی سے نفرت کرتے ہیںاور اپنی تباہی کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں،اس لیے اگر یہ اندازِ نظر آگے بڑھتا ہے تواس میںہمارے لیے کوئی خیر نہیں؛تاہم اسے بدلنے کے لیے لازم ہے کہ ہمارے قومی افق پر کسی غیر معمولی شخصیت کا ظہور ہو جو اس اندازِنظرکو تبدیل کردے۔ مجھے دکھائی نہیں دیتا کہ قدرت ہم پر اتنی مہربا ن ہوگی۔اس کا ایک تعلق ہمارے تاریخی شعورسے بھی ہے۔ سید نا علی ؓکی شخصیت کا ایک پہلو ایسا ہے جس پر بہت کم بات ہو تی ہے۔انہوں نے رسالت مآب ﷺ کے بعد امت کی سیاسی تقسیم کا دروازہ کھلنے نہیں دیا۔سقیفہ بنی ساعدہ میں اگر چہ سید نا ابو بکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ کی بصیرت کام آئی اور فتنے کا دروازہ بند ہو گیالیکن اسے بعد میں بھی کھولنے کی کوشش کی گئی اور اس کے لیے لوگوں نے سیدنا علیؓ کے کندھے کو استعمال کر نا چاہا۔ انہوں نے اپنے بعض تحفظات کے باوصف خود کو اس سے الگ رکھا اور مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کا ساتھ دیا۔یہ معلوم ہے کہ وہ شیخین کے سب سے قریبی مشیروں میں سے تھے۔وہ سید نا عثمان ؓ کے ساتھ خلافت کے ممکنہ حق داروں میں تھے لیکن جب حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ ہوگیا تو انہوں نے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ جب امیر المومنین پر بلوائیوں نے حملہ کیا تو اپنے دونوں صاحب زادوں کو ان کی حفاظت پر مامور کیا۔ گویا حضرت عثمانؓ کی جان بچانے کے لیے اپنے بیٹوں کی جان کو خطرے میں ڈالا۔اُن کا یہی طرزِ عمل ہے جسے علی شریعتی ’علوی شیعیت‘ کہتے ہیں۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا کردار اگر اس کے بر خلاف ہو تا تو سوچا جا سکتا ہے کہ امتِ مسلمہ کا کیا حال ہوتا۔ سیدنا حسن ابن علیؓکا معا ملہ بھی یہی ہے۔انہوں نے بھی غیر معمولی بصیرت اور ایثار کا مظاہرہ کیا اور بکھرتی ہوئی امت کو ایک بار پھر یک جان کر دیا۔سیدنا معاویہ ؓنے بھی ان کے شایانِ شان معاملہ کیا اور یوںان کا عہدِ اقتدار مسلمانوں کی غیر معمولی ترقی کا مظہر بن گیا۔سید نا حسن ؓ چاہتے تو انہیں بھی بہت سے جان نثار مل سکتے تھے اور وہ اقتدار کی کشمکش میں فریق بن سکتے تھے۔انہوں نے اس کے بر خلاف ایک طرزِ عمل اختیار کیااور اجتماعی مصالح کو ترجیح دی۔ یہ کام بلا شبہ غیر معمولی شخصیات ہی کر سکتی ہیں۔ ان شخصیات کا معا ملہ تو مسلمانوں کے باہمی اختلاف کے تناظر میں ہے لیکن اس میں ہمارے لیے عمومی رہنمائی ہے۔ہم نے بعد کے ادوار میں، باہمی اختلافات میں بھی ان شخصیات کے طرزعمل سے کبھی رہنمائی لینے کی کوشش نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے تاریخی مطالعے میں بھی ان شخصیات کی زندگی کے اس پہلو کو نمایاں نہیں کیا گیا۔ہم نے کبھی کسی اختلافی امر میںحضرت علیؓ اور حضرت حسنؓ کی بصیرت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔یہی نہیں،ہم نے تو صلحِ حدیبیہ سے بھی صرفِ نظر کیا جو دو متحارب قوتوں کے مابین تھا۔عہدِ ریاست کا مطالعہ بھی ہم نے مغازی کے عنوان سے کیا اور بعدمیں بھی سلاطین اور حکمرانوں کی فتوحات کو تاریخِِ اسلام کا نام دیا۔ یہ تاریخ کا ایک باب تو ہو سکتا ہے، مکمل تاریخ نہیں۔شبلی نے مثال کے طور پر یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی علمی خدمات اور رویے کیا تھے۔اس سے مسلمانوں کی تاریخ کا ایک دوسرا پہلو سامنے آتا ہے،لیکن اس سے ہمیں زیادہ دلچسپی نہیں۔ اس تاریخی شعور کا یہ نتیجہ ہے کہ ہم حکمت کو کمزوری اور صبر کو بزدلی سمجھتے ہیں۔یہ رویہ کہ خیر سے برائی کا سامنا کیا جا سکتا ہے، ہمارے ہاں زیادہ مقبول نہیں ہوا، بطورِ خاص جب معا ملہ غیروں کے ساتھ پڑا۔ہماری بد قسمتی اس سے بڑھ گئی کہ ہمارا سامنا جن لو گوں سے ہوا،ان میں بھی کم ظرفوں کی اکثریت رہی۔نہرو اور پٹیل دونوں نے فراڈ، دھوکے اورمنفی سیاست سے باہمی تعلقات کا آغاز کیا۔پٹیل وغیرہ نے پاکستان کے اثاثے دینے میں جس کم ظرفی کا مظاہرہ کیا اور نہرو نے کشمیر میں جس فراڈ کا سہارا لیا، اس کا لا زمی نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں مودی کا ظہور ہو۔وہ بھی آج یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر نہرو کی جگہ پٹیل وزیر اعظم ہو تے تو بہتر تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ وزیراعظم بن کر تاریخی غلطی کی اصلاح کر نا چاہتے ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر بھارت میں وہ وزیراعظم بن جا تے ہیں تو اس خطے کا مستقبل کیا ہوگا۔ہم توپہلے ہی طے کر چکے کہ برائی کا جواب بھلائی سے نہیں دیا جا سکتا۔اس اندازِ فکر کا نتیجہ فضل اللہ کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ اگر آج اس خطے کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہاں امن ہو تو اس کے لیے ان رجحانات کو سمجھنا ضروری ہے جو مودی اوراس طرح کے دوسرے کرداروں کو جنم دیتے ہیں۔مودی کا ابھرنا بھارت کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔بھارت کے لیے وہ ایک غیر معمولی داخلی بحران کا باعث بن سکتے ہیں۔یہ اٹھارہ کروڑ مسلمانوں کو ریاست کے خلاف متحد کر دے گا۔اگر پاکستان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو تا ہے اورساتھ مسلمان بھی ناراض ہوتے ہیں توسوچا جا سکتا ہے کہ بھارت کو سلامتی کے کیسے بحران کا سامنا ہوگا۔ پاکستان پہلے ہی انتہا پسند عناصرکے ظہورکا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ اس لیے خطے میں امن کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سیاسی قیادت غیر معمولی بصیرت کی مظہر ہو۔میں نے ذکر کیا کہ کیسے سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنؓ جیسی جلیل القدر شخصیات نے تاریخ کا دھا را بد ل دیا۔ہم اگر اس تاریخی شعور سے بہرہ مند ہو ں تو بھارت اور امریکاکے ساتھ معا ملات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس کے لیے قرآنی بصیرت کو سمجھنے کی ضرورت ہے جوبرائی کے خاتمے کے لیے نیکی کو زیادہ موثر ہتھیار قرار دیتا ہے۔ملکوں میں جنگ کی نوبت آتی ہے اور اس کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔تاہم جنگ کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر قبول کیاجانا چاہیے۔ اصل حکمت عملی یہی ہو کہ فتنے کا دروازہ بند ہو اور برائی کے مقا بلے میں نیکی بروئے کار آئے۔ورنہ بات من مو ہن سنگھ سے مودی تک جا پہنچے گی۔