سید منور حسن کے خیالات پر مجھے دکھ اور افسوس تو ہے، حیرت نہیں۔جنرل حمیدگل صاحب پر البتہ مجھے حیرت ہے۔آج جب سید صاحب ان ہی کا پڑھا یا ہوا سبق سنا نے لگے تو وہ ’صفِ دشمناں‘ میں جا کھڑے ہوئے: دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی جنرل صاحب کی یادداشت بہت اچھی ہے۔انہیںاگریہ یاد ہے کہ دیوارِ برلن کیسے کھڑی اور کیسے منہدم ہوئی توانہیںوہ معرکہ آرائی بھی یاد ہوگی جو آنجہانی سوویت یونین کے خلاف،ان کی قیادت میں مجاہدینِ پاکستان نے لڑی تھی۔کیا ان کو یاد نہیں سید صاحب بھی اسی صف میں تھے۔فرق یہ ہے کہ جنرل صاحب ایک طرف ہوگئے جب یہ صفیں الٹیں، منور حسن تو وہیں کھڑے ہیں۔ اس لیے حیرت سید صاحب پر نہیں، جنرل صاحب پر ہونی چاہیے جو منور صاحب کی استقامت پر داد دینے کے بجائے ان پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔سابق فوجیوں کی پریس ریلیز میرے سامنے رکھی ہے اور میں ورطۂ حیرت میں ہوں۔ ہر چیز فطرت کے اصول کے عین مطابق آگے بڑھ رہی ہے۔اس عالمِ اسباب میں اللہ کی ایک سنت کارفرما ہے،اسی کو ہم فطرت کہہ دیتے ہے۔جو بویا جاتا ہے وہی کاٹا جا تا ہے۔دین کے جس فہم کو جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل حمید گل کی رہنمائی میں فروغ دیا گیا،اس کا نتیجہ اس کے سو اکوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔ان حضرات نے بتا یا کہ پاکستان کی فوج اسلام کی فوج ہے۔اب اسلام کی فوج جہاد فی سبیل اللہ کا عَلم اٹھانے والوں سے کیسے برسرپیکار ہوسکتی ہے؟اگر سید صاحب نے یہ عقدہ حل کر دیا ہے تویہ اس تصور کا لازمی نتیجہ ہے، برسوں جس کی آبیاری کی گئی۔اگر سوویت یونین جیسے طاغوت کے خلاف مسلح لشکر ترتیب دیے جا سکتے ہیں تو آج امریکی طاغوت کے خلاف کیوں نہیں؟کیا آج شریعت بدل گئی ہے؟کل ریاست کے بغیر جہاد ہو سکتا تھا تو آج کیوں نہیں؟سید منور حسن نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ ایک مخلص آد می ہیں۔ان لوگوں کوتو ان سے شکایت ہو سکتی ہے جو اس تعبیرِ دین ہی کو غلط سمجھتے ہیں لیکن جنرل صاحب کو کیوں ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی۔ سلیم شہزاد مرحوم نے اپنی آخری یا آخری سے پہلے کی رپورٹ میں شواہد کے ساتھ یہ لکھ دیا تھا کہ القاعدہ کیسے جماعت اسلامی میں اپنے رستے بنا چکی ہے۔میرا تاثریہ ہے کہ سید صاحب نے ابھی اپنا دل پوری طرح نہیںکھولا۔لوگ ایک مصرعے کی تاب نہیں لا سکے۔اگروہ پوری نظم کہہ دیں تو قیامت برپا ہوجائے۔میں یہ بات بھی وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سید صاحب اس نقطہ نظر میں تنہا نہیں ہیں،سماج کا ایک غیر معمولی حصہ یہی رائے رکھتا ہے اور لازم نہیں کہ وہ دیگر امور میں جماعت اسلامی کا ہم نوا ہو۔اسباب پر گفتگو ہو سکتی ہے کہ ایسا کیوں ہے لیکن امرِ واقعہ یہی ہے۔سچ یہ ہے کہ اس وقت اجتماعیت کے باب میں کوئی ایسا نقطہ نظر (narrative) موجود نہیں ہے، لوگ جس پر مطمئن ہوں۔اسلامی جمہوریت کا وہ تصور جو پاکستان کے آئین کی اساس بھی ہے،ہمارے نظری اور عملی مسائل کا شافی حل پیش کر تا ہے لیکن ہمارے ہاتھوں اس کی حرمت بار ہا پامال ہو چکی۔اب عملاً اس کی حیثیت وہی ہے جو جنرل ضیاء الحق مرحوم کی نظروں میں تھی:’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘جو لوگ اس کے علمبردار تھے،انہوں نے اپنا اعتبار ختم کیا تو ساتھ اس آئین کا بھی ہو گیا۔ اس وقت ایک خلا ہے اور خلا کا تادیرباقی رہنا غیر فطری ہے۔اگر موجود ہ آئینی نظام کسی حد تک عوام کی امنگوں پہ پورا اترتا تو اس بات کا امکان تھا کہ امید کا چراغ روشن رہتا اور لوگ کسی متبادل کی طرف نگاہ نہ اٹھاتے۔جب ٹماٹر دو سو روپے کلو ہو جا ئیں تویہ اس بات کا اظہار ہے کہ مو جودہ نظام عوام کی توقعات پوری نہیں کر رہا۔اب انہوں نے متبادل کی طرف دیکھنا ہے اور وہ اس وقت طالبان کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ دوسری چیز جو اس نقطہ نظر کی عوامی بنیاد ہے، مذہب کی وہ تعبیر ہے جو ریاستی اداروں کے زیر اثر 1980ء کی دھائی میں پروان چڑھی۔ اس تعبیر میں اس قومی ریاست کی گنجائش نہیں، پاکستان جس اصول پر قائم ہوا ہے۔یہ تعبیر دین کا ایک عالمگیر تصورپیش کرتی ہے جس میں ’لاشرقیہ لاغربیہ۔۔۔۔۔اسلامیہ اسلامیہ‘ کی آواز بلند ہو تی ہے۔ریاست نے اسی کوفروغ دیا کیو نکہ اس وقت یہی ریاست کے مفادات سے ہم آہنگ تھا۔سوویت یونین کا خاتمہ ہواتو ریاست کا نقطہ نظر بھی بدل گیا۔ جو لوگ اس پر دل و جان سے ایمان لائے ہوئے تھے،وہ نہیں بدلے کیونکہ انہوں نے اسے کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں، پوری دیانت اور علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیا تھا۔ان کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ حالات کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہو جائیں۔ان کے نزدیک حالات میں اس کے سوا کوئی تبدیلی نہیں آئی کہ سوویت یونین کی جگہ ایک نئے طاغوت،امریکا نے لے لی؛ وہ اب اس سے برسرِ پیکار ہیں۔جب پاکستان کی ریاست انہیں اس بات سے رو کتی ہے تو انہیں حیرت ہو تی ہے کیونکہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ ریاست جو تیس سال پہلے،ایک طاغوت کے خلاف لڑنے میں ساتھ کھڑی تھی، وہ اب کیوں مخالفت کر رہی ہے؟اس پس منظر میں یہ نقطہ نظروہ اختیار کرتے ہیں کہ جو طاغوت کا ساتھ دیتا ہے، وہ اس کا ساتھی ہے،اس لیے اگر طاغوت کے خلاف جنگ جائز ہے تو اس کے ساتھیوں کے خلاف بھی جائز ہے۔سید منور حسن نے اسی نقطہ نظر(Narrative) کے چہرے سے پردہ اٹھایا ہے اور ان کے تناظرمیں یہ قابلِ فہم ہے۔ جو بات ناقابلِ فہم ہے وہ جنرل حمید گل اور اس قبیلے کا استدلال ہے۔میں نہیں جانتا کہ وہ اس تضادکواس آسانی کے ساتھ کیسے نبھا سکتے ہیں۔یہ تضاد اس وقت سارے سماج میں سرایت کر چکا ہے،اس نے ابہام کی ایک صورت اختیار کر لی ہے۔ سید منور حسن ابہام کا شکار نہیں ہوئے، دوسرے ابھی تک ہیں۔وزیر داخلہ نے بھی قومی اسمبلی میں یہ کہہ دیا کہ شہید کون ہے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔گو یا وہ بھی اس مو ضوع پر کوئی واضح پوزیشن نہیں لے رہے۔ اس وقت مسئلہ اس ابہام کو دور کر نا ہے۔ اگر تو دین کی وہ تعبیر درست ہے جس کی آبیاری 1980ء کی دھائی میں کی گئی تو پھر سید منورحسن کو رد نہیں کیا جا سکتا ،اگر غلط ہے تو ریاست جب تک اس سے ر جوع نہیں کرے گی، وہ ابہام در ابہام میں مبتلا رہے گی اور نتیجتاً سماج کو بھی مبتلا رکھے گی۔یہی سوال جنرل حمید گل کے سامنے بھی ہے۔ اگر انہوں نے 1980ء کی دھائی میں درست کیا تو آج انہیں سید منور حسن کے ساتھ کھڑا ہو جا نا چاہیے اور اگر سید صاحب غلط ہیں تو وہ بیانیہ (Narrative) بھی درست نہیںِ جنرل صاحب جس پر کھڑے تھے۔ مولا نا مو دودی کی خدمتِ اسلام کے، آئی ایس پی آر اور سید منور حسن دونوں معترف ہیں۔ ان کا ایک مشہورجملہ دونوں کی خدمت میں پیش کر تا ہوں ، شاید میری بات ان کی سمجھ میں آسکے۔ان کا کہنا تھا: غلطی کبھی بانجھ نہیں ہو تی۔