ڈاکٹر محمد شکیل اوج کی نئی تصنیف''تعبیرات‘‘ میرے سامنے ہے۔فکرِ تازہ کے اس مظہر کے لیے شاید اس سے موزوںعنوان، کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔اسلاف سے منسوب علم وحکمت کی وہ عظیم الشان روایت،جو ہم سب کے لیے باعثِ صد افتخار ہے،اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو وہ''تعبیر‘‘ہے۔دوسرے لفظوں میںنصوص پرغور و فکر ،اُن کی تفہیم اور پھر استنباطِ احکام۔ ہم اسے تفسیر،علم ِ حدیث اور فقہ کے زیرِ عنوان بیان کرتے ہیں۔
ختمِ نبوت کے اعلان سے واضح تھا کہ اُس الہام کا باب اب بند ہوا جس پر ابن آدم کی ہدایت منحصر ہے۔دین مکمل ہوا اور اﷲ کے آخری رسول محمدﷺ نے ایک لاکھ سے زائد افراد کے اجتماع سے اس کی گواہی لی۔اللہ کے رسول ﷺکے بعد،دین میں کسی کی یہ حیثیت نہیں کہ اس کا فرمایا شریعت اور ہدایت قرار پائے۔تاہم تفقہ فی الدین کا دروازہ کھلاہے اورقیامت تک کھلا رہے گا۔ ہم قرآن مجیدپر غور کریںگے۔آپﷺ کے ارشادات و افعال کو سمجھیں گے اور پھر اپنا نتیجہ فکر بیان کردیں گے۔اسلاف نے بھی یہی کیا۔آیات سے مفہوم اخذ کیا اور اس باب میں اختلاف بھی کیا۔اہلِ تفسیر نے ایک آیت کے معانی بیان کرتے ہوئے بہت سے اقوال جمع کر دیے،جو متضاد بھی ہیں۔حدیث کے باب میں بھی روایت ود رایت کے تحت ایک سے زیادہ آرا بیان ہوئیں۔یہی معاملہ فقہ کا ہے۔بہت سے فقہی مسالک کی موجودگی شاہد ہے کہ اخذ و استنباط میں اختلاف ہوا۔یہ ساری روایت اس کے سوا کچھ نہیں کہ نصوص کی انسانی تعبیر ہے۔اس تعبیرپر نص کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔بایں ہمہ یہ کہنا کہ تعبیر کا باب بند ہو گیا،سابقہ تعبیر کو وحی و الہام کے مترادف قرار دینا ہے۔تعبیر کی اس روایت کو اگر باقی رہنا ہے تو لازم ہے کہ ہر دور میں ایسے اہلِ علم موجود رہیں جو یہ فریضہ انجام دیں ۔اس کے لیے آج بھی شرط وہی ہے جو ماضی میں تھی:تفقہ فی الدین۔جس فرد میںیہ صلاحیت موجود ہے ،وہ اسلاف کی اس تاریخ کا وارث ہو گا اور تعبیر کی اس روایت کو آگے بڑھائے گا،جس نے تفسیر،علم ِ حدیث اور فقہ سمیت بہت سے علوم کو جنم دیا۔دور حاضر میں ڈاکٹر محمد شکیل اوج کا شمار بھی ایسے ہی اصحابِ علم میں ہوتا ہے جو اسلاف کی اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ڈاکٹر شکیل اوج ،میرے علم کی حد تک ،ان گنے چنے اہلِ علم میں شامل ہیں جو دین کے باب میں قرآن کو اعتقاداً نہیں عملاً حاکم مانتے ہیں۔اہلِ علم کی اکثریت کا دعویٰ یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کو دین کا پہلا ماخذ اور اسے فرقان مانتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان کا علمی کام ،کم ہی اس دعوے کی دلیل بنتا ہے۔ عملاً ماخذات کی فہرست میں قرآن سب سے آخر میں ہے۔قرآن پہ روایت حاکم ہے یا فقہ۔تفسیر،حدیث، فقہ...سارے دینی لٹریچر پر ایک نظر ڈال لیجیے۔الاّ ماشااللہ ،اس کے بہت کم مظاہر دکھائی دیں گے کہ لوگ قرآن کی روشنی میں حدیث یا اقوال اسلاف کو سمجھتے ہوں۔اس کے البتہ ان گنت شواہد موجود ہیں کہ روایات اور اقوال کو حاکم مان کر قرآن کی آیات کی تعبیر ہو رہی ہے۔اس باب میں اگر کسی نے تنقید کی ضرورت محسوس کی تو بس اتنی کہ روایت کو سند کے پیمانے پر پرکھ لیا۔اس کے بعد قرآن کا متن کچھ کہتا رہے،حاکمیت روایت ہی کی ہو گی۔کوئی اس بات کو سمجھنا چاہے تومعروف اردو تفاسیر میں سورۂ انفال کی آیات67,68کی تفسیر پڑھ لے۔اسی طرح فقہا کے اقوال کو حاکم مانا گیا ہے۔اگرکسی نے جواباً قرآن مجید کی کوئی آیت پیش کرنا چاہی تو فتویٰ اور اس کے آگے بڑھ کر اتہام سے اس کی زبان بندی کی کوشش کی گئی۔ڈاکٹر شکیل اوج کا شمار ان اہلِ علم میں ہوتا ہے جنہوں نے اس ترتیب کو الٹنے کی سعی کی۔''تعبیرات ‘‘کے مضامین اس کی شہادت ہیں۔
''تعبیرات‘‘ کے مضامین ایک دوسرے پہلو سے بھی اہم ہیں۔مسلمانوں کی جس علمی روایت کا میں نے ذکر کیا،اس میں ارتقا ہی کسی عہد میں اس کی معنویت کو بیان کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں ،ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آپ جس دور میں جی رہے ہیںاس کے بدلتے حالات میں دین آپ کو پوری طرح راہنمائی فراہم کر رہا ہے یا نہیں؟کثیرالمدنیت(Pluralism) کی دور میں دنیا کو 'دارالاسلام‘ اور 'دارالحرب‘ میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔اس تمدنی تبدیلی سے قدیم فہم پر نظر ثانی ناگزیر ہے۔کتاب میں شامل چند مضامین کے عنوانات نقل کر رہا ہوں جس سے جانا جا سکتا ہے کہ اس کتاب کی عصرِ حاضر ،میں کیاافادیت ہے :''کیا غیر مذاہب کے تمام پیروکار باطل پرست ہیں؟‘‘، ''انسان کا ذہنی ارتقا‘‘، ''حقیقتِ ربا اور اس کی اطلاقی نوعیت‘‘،ایڈز۔قرآن کریم کی روشنی میں‘‘''عذابِ الہی اورفطری حوادث کے مابین فرق و امتیاز‘‘،''امام ابو حنیفہ کی قرآن فہمی کے چند نظائر‘‘۔یہ آخری مضمون تو ان لو گوں کوبطورِ خاص پڑھنا چاہیے جو حنفی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی روایات کے اسیر ہیں۔
یہاں ایک اشتباہ کا ازالہ ضروری ہے۔خارج میں پیدا ہونے والی ضروریات کے زیرِ اثر نصوص کی تعبیر میں یہ خطرہ موجود ہو تا ہے کہ کسی عصری پیمانے کو معیار مان کر نصوص کو ان کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ظاہر ہے یہ کوئی محمود کاوش نہیں۔اس فکری کجی سے بچنے کی ایک صورت یہ ہے کہ قرآن کو داخلی وسائل کی بنیاد پر سمجھا جائے۔ان وسائل میں قرآن کی زبان، اس کا نظم اور اس کا اسلوب بہت اہم ہیں۔اگر تفسیر میں انہیں پیش نظر رکھا جائے تو یہ امکان باقی نہیں رہتا کہ دینی نصوص کو عصری حقائق سے ہم آہنگ بنانے کے لیے'تفسیر بالرائے‘کا سہارا لیاجائے۔
''تعبیرات‘‘ میں پیش کیے گئے نتائجِ فکر اگرچہ جدید ہیں لیکن میں ان معنوں میں انہیں روایتی سمجھتا ہوں کہ یہ غوروفکر کی قدیم روایت کا تسلسل ہیں۔ قدیم روایت تنقید کے پل صراط سے گزری ہے۔یہ کتاب بھی اس مر حلے سے گزرے گی۔اگر یہ کام استدلال اور شائستگی کے دائرے میںہوتا ہے تو یہ کتاب اور اس کی تنقید دونوں یکساں محترم ٹھہریں گے اور اسے دین کی خدمت سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر اسے فتویٰ اور اتہام کے حوالے کردیا گیا تو یہ ہماری بد قسمتی ہوگی۔اہلِ علم سے توقع یہی رکھی جانی چاہیے کہ وہ اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت اس فرق کو پیشِ نظر رکھیں گے۔میرے نزدیک ڈاکٹر صاحب کی یہ کوشش دین کی غیر معمولی خدمت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید کو اعتقاداً ہی نہیں عملاً بھی حاکم مانا ہے۔ آج ہمیں فرقہ واریت اور مذہب کے نام پر جس انتہا پسندی کا سامنا ہے ،اس کا علاج یہی ہے کہ قرآن مجید کی حاکمیت پر مبنی علمی روایت کو آگے بڑھایا جائے۔