بالآخر جمعیت علمائے اسلام وفاقی کابینہ تک پہنچ گئی۔کیا اس طرزِ سیاست کا دور دور تک نفاذِ اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
مو لا نا فضل الرحمن اقتدار کے دروازے پرایک مدت سے دستک دے رہے تھے۔پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی کھڑکی کھلی۔مولا نا نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ پھر کشمیر کمیٹی کا دروازہ نما دریچہ واہوا۔اقتدار کے ایوانوں سے آنے والے لطیف جھونکوں سے جمعیت کی فضامزید خوش گوار ہوئی لیکن مو لانا چند کلیوں پہ کہاں قناعت کرنے والے ہیں۔ان کی 'تکبیرِمسلسل‘ سے ان پر وفاقی کابینہ کا 'شاہ در‘ بھی کھل گیا۔میرے نزدیک اس عمل میں کوئی بات ناجائز ہے نہ قابل ِگرفت۔سیاست اقتدار کے لیے ہوتی ہے۔یہ فراست اور بصیرت کا امتحان ہے۔مو لا نا کو یہ فن آتا ہے کہ کس طرح اپنے جثے سے زیادہ حصہ وصول کیا جائے۔اگر دینے والوں کو اعتراض نہیں تو ہمیں کیا اعتراض۔میرا اعتراض مگر ایک اور پہلو سے ہے۔یہ سب کچھ سیاست نہیں، اسلام کے نام پر ہو تا ہے۔اسے مذہب کا سیاسی استعمال کہتے ہیں اور آج اسلام اور ریاست کے لیے اگرکوئی بات سب سے زیادہ نقصان دہ ہے تو یہی ہے۔مو لا نا فضل الرحمن اس کار ِ خیر میں تنہا نہیں۔یہ بدعت اب ہماری سیاست کے رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔
مذہب سیاست سے جدا نہیں۔ اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ مذہب کے نام پر سیاست کی جا ئے۔مذہب جس طرح زندگی کے تمام شعبوں کے لیے راہنمائی فراہم کر تا ہے، اسی طرح سیاست اور ریاست کے امور میں بھی راہنما ہے۔یہ بات ہم نے اپنے آئین میں لکھ دی ہے۔ہم نے اس ملک میں ایک ساتھ رہنے کے لیے جو عمرانی معاہدہ کیا ہے،اس میںبطور اصول یہ مان لیا گیا ہے کہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنے گا۔ایک عام آ دمی بھی آج یہ حق رکھتا ہے کہ وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور ایسے قانون کو چیلنج کر دے جو اس کی دانست میں خلافِ اسلام ہے۔اسی کے تحت اس وقت سود کے خلاف ایک مقد مہ زیرِ سماعت ہے اور عدالت نے حکومت کو طلب کر رکھا ہے۔اب اس کام کے لیے کسی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے نہ کسی مہم کی۔دوسرے لفظوں میں اس وقت کسی مذہبی سیاسی جماعت کی ہمیںحاجت نہیں ہے۔
آج چند مسائل ایسے ہیں جن میں قانون اور ریاست کی سطح پر پیش رفت کی ضرورت ہے۔ان میں ایک سودی نظام کا خاتمہ ہے۔ 1973ء کے آئین میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ دس سال میں اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔یہ نہیں ہو سکا۔اس کے اسباب اس وقت زیر ِ بحث نہیں۔یہاں صرف یہ نکتہ واضح کر نا ہے کہ اس آئین کے بعد اس باب میں جو کچھ ہوا، وہ عدالتوں میں ہوا۔سود کے خاتمے کے لیے مذہبی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں رہا اور ہو بھی نہیں سکتا تھا۔اب یہ کام دین کے علماء، ماہرینِ معیشت، حکومت اور عدالت کا ہے۔علماء اور سکالر دین کے حوالے سے راہنمائی دیں گے۔ماہرینِ معیشت عصری مسائل کو نمایاں کریں گے اور حکومت کویہ دیکھنا ہے کہ ان دونوں آراء کی روشنی میں وہ کیسے معاشی نظام ترتیب دے سکتی ہے۔عدالت کو اس کا جائزہ لینا ہے کہ حکومت اگر اب تک اس میں ناکام ہے تو اس کی وجہ اس کی عدم دلچسپی ہے یااس راہ میں اسے فی الحقیقت مسائل کا سامنا ہے۔اس سارے عمل میں کسی مذہبی سیاسی جماعت کا کوئی کردارنہیں۔اس مثال سے واضح ہے کہ ریاست کی اسلامی تشکیل کے لیے کوئی ایسی ضرورت باقی نہیں جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کے وجودکو ناگزیر بنائے۔
اس وقت مسئلہ ریاست سے زیادہ،سماج اور فرد کا ہے۔اگر تمام سماجی اداروں اور افراد کا تزکیہ ہو جائے تو ہمارا معاشرہ اپنی ساخت میںاسلامی ہو سکتا ہے۔آج اگر ہماری اخلاقی قدریں زوال کا شکار ہیں تو اس کی بڑی وجہ حکومت نہیں، سماجی ادارے ہیں۔مسجد، محراب و منبر، خانقاہ، مدرسہ، میڈیا، یہ سب سماجی ماحول پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ریاست یا حکومت کے تابع نہیں۔اس باب میں ریاست کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ اگر وہ مدارس کو قانون کا پابند کرنا چاہتی ہے تو اسے مداخلت فی الدین سمجھا جاتا ہے اور اگر میڈیا کو روکتی ہے تو یہ آزادیٔ رائے کا مسئلہ بن جا تا ہے۔ان سماجی اداروں کا کردارا ُس وقت سماج کی اخلاقی ضروریات سے ہم آہنگ ہوگا جب اصلا ح کی کوئی بڑی علمی، فکری اور سماجی تحریک برپا ہو گی۔ یہ تزکیۂ علم سے تزکیۂ سماج تک کا سفر ہے۔ظاہر ہے کہ یہ کام کسی سیاسی جماعت کا نہیں۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ آج پاکستان کو کسی سیاسی مذہبی جماعت کی ضرورت نہیں۔
میرا تجزیہ ہے کہ پچھلے پچیس سال میں ریاست و سماج کی اسلامی تشکیل کے باب میں ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس سے پہلے جب تک آئین سازی کے مراحل درپیش رہے،تب ان کا ایک کردار تھا۔ یہ سفر مکمل ہو چکا، اس لیے ان جماعتوں کا کردار بھی ختم ہو گیا۔گزشتہ پچیس سالوں میں یہ جماعتیں اسی طرح اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق ہیں جس طرح کوئی دوسری غیر مذہبی جماعت ہو سکتی ہے۔ دونوں کے سیاسی کردار اور رویے میں مکمل یکسانیت ہے۔جمعیت علمائے اسلام، اس حوالے سے بطورِ خاص نمایاں ہے۔اگر اسے شریکِ اقتدار کر لیا جائے تواسے پیپلزپارٹی کے ساتھ کام کرنے میں کوئی تکلف ہے نہ مسلم لیگ کے ساتھ۔کیا ایم کیو ایم کا رویہ اس سے مختلف ہے جو اعلانیہ ایک سیکولر جماعت ہے؟
مذہب کے نام پر ہونے والی اس سیاست کا البتہ مذہب کو بہت نقصان پہنچا ہے۔مذہبی جماعتوں نے اپنے مفاد کے لیے مذہب کو استعمال کیا۔کبھی اپنے انتخابی نشان 'کتاب‘کو قرآن مجید بنا کر پیش کیا۔کبھی سیاسی مخالفین کو یہودی ایجنٹ کہا۔عام سیاسی اختلاف کو مذہبی لبادے میں پیش کیا تا کہ عام آ دمی کے مذہبی جذبات کا استحصال کیا جائے۔لوگوں نے جانا کہ سیاسی فائدے کے لیے جس طرح ایک غیر مذہبی سیاسی جماعت ہر حربے کو جائز سمجھتی ہے، اسی طرح ایک مذہبی جماعت کو بھی وہی حربے استعمال کرتے ہوئے کوئی ندامت نہیں ہوتی۔ایک مذہبی جماعت بھی اسی طرح گروہی مفادات کا تحفظ کر تی ہے جس طرح ایک غیرمذہبی جماعت بلکہ بعض مو قعوں پہ تو ان کا رویہ دوسری جماعتوں سے بھی بدتر ہو تا ہے۔ہماری حالیہ سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ان جماعتوں کا غیر مذہبی جماعتوں سے کوئی اصولی اختلاف ہے نہ نظریاتی۔اگر ہے تو مفادات کا ۔انتخابی اتحاد اس لیے نہیں ہوتا کہ نشستوں کے لین دین پر اتفاق نہیں ہوتایا وزارتوں کی تقسیم پر جھگڑا ہو جاتاہے۔
سیاست مو لانا فضل الرحمن کا بھی اِسی طرح حق ہے جس طرح الطاف حسین‘ سید منور حسن اور اسفندیار ولی کا۔ لیکن اس کے لیے مذہب کو استعمال کرنا خود مذہب کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔جمعیت علمائے اسلام کو وزارتیں مبارک‘ لیکن اگر وہ یہ سیاست مذہب کے نام پر نہ کرتے تویہ اسلام کی خد مت ہوتی۔مکرر عرض ہے کہ ہمیںسیاست سمیت زندگی کے ہر شعبے میں اسلام سے راہنمائی لینی ہے۔اس کے لیے ہمیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی ضرورت نہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ اب وہ اس راہ میں حائل ہو رہی ہیں۔مذہب کے سیاسی استعمال کا خاتمہ آج مذہب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔کیا مذہبی سیاسی جماعتیں اس کے لیے اپنے وجود کی قربانی دے سکتی ہیں؟