معلوم ہوتا ہے، حکومت غیر متعلق ہوچکی۔اس معرکے میں اب دوہی فریق ہیں:طالبان اور فوج۔حکومت غور و فکر کے آٹھ ماہ بعد صرف یہ جان سکی کہ وہ کچھ نہیں جانتی۔یہ نتیجۂ فکر بھی کچھ برا نہیں لیکن حکومت کی سطح پر اس کا اعتراف مشکل ہوتا ہے۔وزیر داخلہ نے واضح کر دیاہے کہ ہم مذاکرات کے مضمرات سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں نہ آپریشن کے۔یہ بھی مشکل اور وہ بھی مشکل۔ اربابِ اقتدار میں اگر کوئی صاحبِ ذوق ہوتا تو میں اس کی خدمت میں منیر نیازی کا ایک شعر پیش کرتا ؎
تھا منیر آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائگانی سے ہوا
فرد ہو یا ریاست ،انتشارِ فکر ہلاک کرتا ہے۔ابہام کی کوئی منزل نہیں۔غلط فیصلے کے مضمرات اتنے برے نہیں ہوتے جتنے فیصلہ نہ کرنے کے نتائج۔ اے پی سی نے مذاکرات کے حق میں فیصلہ دیا۔وزیر داخلہ کی اس باب میں فکری یک سوئی اتنی واضح رہی کہ کچھ بد خواہ انہیں طالبان کا وزیر داخلہ کہنے لگے ۔اس کے بعدلازم تھا کہ صرف اس ایک راستے پر چلا جائے۔اب معلوم ہوا کہ حکومت تو پہلا قدم ہی نہیں اٹھاسکی۔ابہام در ابہام،یہاں تک کہ وزیر داخلہ کو اعلانیہ اپنی بے بسی کا اظہار کرنا پڑا۔حکومت کے اس اعتراف سے فریق ثانی کو جو تقویت ملی ہو گی،اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
مذاکرات سے مراد کیا ہے؟ مذاکرات کس لیے؟ اگرچہ یہ سوالات ہنوز جواب طلب ہیں، لیکن ہم اس سے ایک عمومی مفہوم اخذ کر سکتے ہیں۔ طالبان جو کچھ کر رہے ہیں ،ہم متفق ہیں کہ درست نہیںکر رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس سے باز آ جائیں۔اس کے لیے ہم ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں گفت و شنید سے یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے طرزِ عمل سے رجوع کر لیں۔اگر مطمح نظر یہی تھا تو اس کے کچھ مضمرات تھے۔سب سے پہلے تو ہمیں یہ جانناتھا کہ طالبان کا نظریہ کیا ہے۔ دوسرا یہ کہ ان کے مطالبات کیا ہیں۔ تیسرا یہ کہ سماج میں ان کے نقطۂ نظر کی کتنی پذیرائی ہے۔ اس کے بعد ہم اس قابل ہوتے کہ ایک متبادل نقطۂ نظر (Alternate Narrative) مرتب کرتے۔ میرے علم میں نہیں ہے کہ حکومت میں کسی بھی سطح پر یہ بحث اس طرح اُٹھائی گئی ہو۔
طالبان کا ایک دینی استدلال ہے۔ مذاکرات کا آغاز ہو نہیں سکتا جب تک یہ واضح نہ ہو جائے کہ ان کی تعبیرِ دین درست نہیں۔ یہ کام ظاہر ہے کہ علما اور دینی سکالرز کا تھا۔ حکومت کو سب سے پہلے اہلِ علم کو تلاش کرنا چاہیے تھا جو طالبان کے دینی استدلال کی غلطی واضح کر سکتے۔اس کے بعد ان تک علماء کی معرفت یہ نقطۂ نظر پہنچایا جاتا۔ مجھے اس بات سے کبھی اتفاق نہیں ہو سکا کہ طالبان کسی امریکی سازش کاحصہ ہیں۔ وہ اپنے مؤقف میں مخلص ہیں۔اس لیے وہ کبھی کسی ابہام کا شکار نہیں ہوئے۔مذاکرات کا آغاز علمی مذاکرات سے ہوتا۔ اس کے بعد ان کے مطالبات پر بات ہوتی۔ انہیں بتایا جاتا کہ نفاذ اسلام سے مراد اگر قانونی پیش رفت ہے تو پاکستان کا آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر اس سے مراد خاص لوگوں کی حکومت ہے تواسلامی تعلیمات کے مطابق یہ جبر سے نہیں ہو سکتا۔ آپ سماج میں اپنا نقطۂ نظر پیش کریں۔ اگر لوگ آپ کے ہم نوا ہو جاتے ہیں تو پھر آپ اپنی مرضی کے حکمران لے آئیں۔ اگر انہیں جمہوریت پر اعتراض تھا تو انہیں بتایا جا سکتا تھا کہ ہماری جمہوریت مغربی جمہوریت سے مختلف ایک تصور ہے۔پاکستان کے آئین قرآن و سنت کی قیادت اور اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کو تسلیم کرتا ہے۔اس لیے اسے مغربی جمہوریت پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جس میں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہے۔ان کا دوسرا مطالبہ تھا امریکا سے تعلقات کا خاتمہ۔اس حوالے سے بھی ان کے سامنے عملی مسائل رکھے جاتے اور ان پر واضح کیا جاتا کہ کس طرح خود رسالت مآب ﷺ نے اپنے عہد کے سماجی ماحول کو پیش نظر رکھ کر حکمتِ عملی ترتیب دی۔
اس کو بھی دیکھنا ضروری تھا کہ سماج میں اس نقطہ نظر کی کتنی پزیرائی ہے۔اگر ایک معاشرے میں کوئی نقطہ نظر مقبول ہے تو پھر اس کے عَلَم برداروں کے خلاف کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ضرورت تھی کہ حکومت متبادل نقطہ نظر پورے جوش و خروش اور دینی استدلال کے ساتھ عوامی سطح پر متعارف کراتی تاکہ طالبان کو مزید افرادی قوت میسر نہ آسکتی۔ اس کے ساتھ چوتھا کرنے کا کام یہ تھا کہ ان لوگوں کو تلاش کیا جاتا جن کے ساتھ طالبان کا اعتماد کا رشتہ ہے اور ان کے ذریعے ان تک اپنا موقف پہنچایا جاتا۔
حکومت نے اس طرح کا کوئی کام نہیںکیا۔ان کی تمام تر توجہ انتظامی امور پر رہی۔حکومت کے ذمہ داران کی نگاہ اس جانب نہیں اٹھی کہ جب مقابلہ ایک نظر یے(Ideology) سے ہو تو صرف مادی تیاری کافی نہیں ہوتی۔ طالبان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ ان کی نظریاتی یک سوئی ہے۔ ان کو اپنی نظریاتی صحت پر اتنا یقین ہے کہ وہ اپنی بات پورے استدلال کے ساتھ علماء، ریاست اور میڈیا کے سامنے رکھ چکے۔ یہ نقطۂ نظر بلا شبہ غلط ہے لیکن ابہام سے پاک ہونے کی وجہ سے اس کے ماننے والے منظم ہیں اور یک سو بھی۔وہ سیرت کے اہم باب صلح حدیبیہ سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے درپیش معرکے میں ایک جائز فریق کی حیثیت حاصل کر لی۔ یہ بات اس وقت ثابت ہو گئی جب حکومت اور وزارتِ داخلہ کے پسندیدہ علماء نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں حکومت اور طالبان کو ایک تنازع کے دو فریق قرار دیاگیا جن کی اخلاقی ، قانونی اور شرعی حیثیت یکساں ہے۔ طالبان نے اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرنے کا وقت بھی حاصل کر لیا۔ اب وہ مستقبل کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس کے جواب میں حکومت کے پاس کیا ہے؟صرف ابہام۔
آٹھ ماہ اور ان گنت جانیں ضائع کرنے کے بعد یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکومت کیا چاہتی ہے؟ میرا تو خیال ہے دہشت گردی کا خاتمہ ابھی تک حکومت کی پہلی ترجیح ہی نہیں بن سکا۔ کام دو ہی ہیں۔ ایک متبادل نقطہ نظر کی تشکیل اور پھر بااعتماد لوگوں کی معرفت پاکستان تحریکِ طالبان سے بات چیت، اگر حکومت مذاکرات کے لیے یکسو ہے تو میرا خیال ہے اس کام کے لیے ملا عمر سے بہتر کوئی واسطہ نہیںہو سکتا۔ پاکستان تحریکِ طالبان کے لوگ انہیں امیر المومنین کہتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ''کوئٹہ شوریٰ‘‘ یا کسی اور واسطے سے ان کے ساتھ رابطہ کرے اور انہیں ثالث بنا دے۔اس وقت پاکستانی طالبان سے نتیجہ خیز مذاکرات کا یہی طریقہ ممکن دکھائی دیتا ہے۔کیا حکومت یہ طرزِ عمل اختیار کر سکے گی؟ میرا خیال ہے اس کا وقت گزر چکا۔اب اصل فریق میدان میں آچکا۔شمالی وزیرستان اس وقت پاک فضائیہ کے طیاروں کی زد میں ہے۔