طالبان نے جواباً،اور اگر میں اپنے مرحوم دوست خلیل ملک کا اسلوبِ اظہار مستعار لوں تو 'انتقاماً‘ اپنی مذاکراتی کمیٹی کا اعلان کر دیا ہے۔'نہلے پہ دہلا‘ اسی کو کہتے ہیں۔حکومت نے چار افراد نامزد کیے۔طالبان نے پانچ کردیے۔حکومت نے بالواسطہ مذاکرات کا آ غاز کیا۔طالبان نے بھی ایک واسطے کا انتخاب کیا۔نہ حکومتی ٹیم میں حکومت شامل ہے اور نہ طالبان کی کمیٹی میں طالبان۔ عرفان صدیقی صاحب حکومت کا حصہ ہیں۔ ان کا نمایاں تر تشخص کالم نگار کا ہے۔انہوں نے ایک طویل عرصہ طالبان کا مقدمہ لڑا ہے۔طالبان، گمان یہی ہے کہ ان کے بارے میں بدگمان نہیں ہیں۔اسی سبب سے وہ اس کمیٹی کا حصہ ہیں۔بطور جملہ معترضہ عرض ہے کہ طالبان نے سماج کی نظری تقسیم کو بھی طشت ازبام کر دیا ہے۔انہوں نے زبان ِ حال سے بتا دیا ہے کہ سماج میں ان کے ہم درد وہم نوا کون کون ہیں۔
کھیل کا پہلا مر حلہ تمام ہوا۔یہ ٹیموں کا اعلان ہے۔اب مطالبات کا تعین ہو نا ہے۔ حکومت طالبان سے کیا چاہتی ہے اور جواباً اُن کے مطالبات کیا ہیں؟ اگلے مر حلے میں اسی پر بات ہو گی۔میرا خیال ہے اگربنیادی اختلاف سے آغاز ہوا تو بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔اگر حکومت طالبان سے یہ کہے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں تو ایسا نہیں ہو گا۔اسی طرح طالبان بھی جانتے ہیں کہ اُن کے تصور کے مطابق ملک میں شریعت نافذ ہو سکتی ہے نہ امریکہ سے تعلقات ختم ہو سکتے ہیں۔ اگر طالبان ہتھیار ڈال دیں تو وہ طالبان نہیں رہیں گے۔ اگر حکومت ان کی بنیادی بات مان لے تو ریاست نہیں رہے گی۔یہ بات دونوں جا نتے ہیں۔اس لیے آ غاز تو کہیں اور سے کر نا ہوگا۔ایسے معاملات میں ابتدا اعتماد ساز اقدامات(CBMs) سے کی جاتی ہے۔اس سے اصل کھیل کا آ غاز ہوگا۔ بغیر ٹاس کے، امکان یہی ہے کہ کھیل کا آ غاز طالبان ہی کریں گے۔طالبان ان مذاکرات سے کیا حاصل کرنا چاہیں گے‘ میں چند باتوں کی نشاندہی کر سکتا ہوں:
٭ حکومت اپنے اخلاص کو ثابت کرنے کے لیے گرفتار طالبان کو رہا کرے۔اس ضمن میں ایک فہرست بھی دی جا سکتی ہے۔
٭ طالبان کے خلاف مقدمات ختم کیے جائیں۔
٭ تاوان ادا کیا جائے۔
٭ قبائلی علاقوں سے فوج نکالی جائے۔
٭ غیر ملکی جنگجوؤں کو بھی گوارا کیا جائے۔اس مقصد کے لیے ان کی رجسٹریشن کی بات بھی کی جا سکتی ہے۔
٭ علما کی ایک کمیٹی بنائی جا ئے جونفاذِ شریعت کے لیے ماورائے آئین اقدامات تجویز کرے اور حکومت ان پر عمل کا اعلان کرے۔یہ کام ریاست پہلے بھی کر چکی۔ جنرل مشرف صاحب کے عہد میں جب تحفظِ حقوق نسواں قانون پر اختلاف ہوا تو انہوں نے اسلامی نظریاتی کو نسل اور پارلیمنٹ جیسے آئینی اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے، یہ ذمہ داری علما کے ایک گروہ کو سونپ دی تھی۔ظاہر ہے کہ اس گروہ کی کوئی آئینی حیثیت نہیں تھی لیکن بات اسی کی مانی گئی۔
اگر حکومت یہ مطالبات مان لیتی ہے توپھر طالبان جواباًجنگ بندی کا اعلان کرسکتے ہیں۔ میرا خیال ہے ان مطالبا ت کو طالبان کی مذاکراتی ٹیم کی مکمل تائید میسر ہو گی۔یہ تمام مطالبات، مختلف ادوار میں جماعت اسلامی ، تحریکِ انصاف اور جمعیت علمائے اسلام کی طرف سے پیش کیے جاتے رہے ہیں، جن کی موثر نمائندگی اس کمیٹی میں بھی ہے۔ اگر حکومت یہ نہیں مانتی تو پھر یہ تما م لوگ عوام میں حکومت کے خلاف مہم چلائیں گے۔یوں طالبان کسی صورت میں خسارے میں نہیں رہیں گے۔
حکومت کیا کر سکتی ہے؟بطورCBMs طالبان سے چند مطالبات کیے جا سکتے ہیں۔
٭ ملک میں دہشت گردی کی کارروائیاں روک دی جائیں۔
٭ اُن قبائلی مَلکوں اور امن جرگوں کے اراکین کو جان و مال کا تحفظ دیا جائے جودہشت گردی کے خلاف حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ایسے بے شمار لوگ مارے جاچکے جنہوں نے اس معرکے میں حکومت یا فوج کا ساتھ دیا اور انہیں تحفظ نہیں دیا جا سکا۔اسی وجہ سے حکومت اور فوج کے بارے میں اشتعال اور غصہ پیدا ہوتارہا ہے۔
٭ فاٹا میں جاری ترقیاتی کاموں میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
٭ غیر ملکی جنگجوؤں کو حکومت کے حوالے کیا جائے۔
٭ فوج کی تعداد کم کی جا سکتی ہے لیکن مکمل انخلا ممکن نہیں۔
اگراس طرح کے اعتماد ساز اقدامات پراتفاق ہو جا تا ہے توپھر با ت مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔حتمی بات تو ایک ہی ہے۔ اگر یہ ریاست ہے تو وہ کسی آئین اور عمرانی معاہدے کی پابند ہے۔آئین کے بغیر کوئی ریاست ایسے ہی ہے جیسے انسانیت کے بغیر انسان۔آئین کا مطلب ہے کہ اتفاقِ رائے سے یہ طے ہو جائے کہ اجتماعی معاملات میں فیصلے کیسے ہونے ہیں۔کیا ریاست طالبان کو یہ بات منوا نے میں کامیاب ہو سکے گی؟ مجھے یہ آ سان دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی بہت سے وجوہ ہیں۔ایک وجہ نظریاتی ہے۔ ایک سیاسی ہے۔ ایک کا تعلق بین الاقوامی سیاست سے ہے۔ میرا تاثر ہے کہ ان حالات میں ریاست یہ چاہے گی کہ سرِدست جنگ بندی ہو جائے تا کہ گلشن کا کاروبار چل سکے۔طالبا ن یہ چاہیں گے کہ انہیں گوارا کر لیا جائے اور وہ اپنی پناہ گاہوں میں محفوظ رہیں۔ سٹیٹس کو(Status Quo)،اس وقت دونوں کے مفاد میں ہے ۔تاہم ہر بات حکومت کے بس میں ہے نہ طالبان کے۔بین الاقوامی قوتیں اور مقامی سیاسی ومذہبی گروہ اپنے اپنے مفادات رکھتے ہیں۔تاریخ کا جبر اپنی جگہ ہے۔ابھی تک ان تمام عوامل کومخاطب بنا نے کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی۔میں مدت سے جس قومی موقف (National narrative)کی بات کر رہاہوں، ابھی تک اس کی اہمیت ہی کسی پر واضح نہیں ہو سکی۔ خد وخال کا تعین تو بعد کی بات ہے۔
اگر یہ تجزیہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت بخار اور دردکا علاج تو کسی حد تک ممکن ہے، مرض کانہیں۔ہم جانتے ہیں بخار اور درد محض علامتیں ہیں۔اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس سے مرض دور نہیں ہو سکتا۔اگر ہم علامتوں کے بعد اصل مرض پرتو جہ دیں تویہ اعتماد ساز اقدامات لا حا صل نہیں۔میں بہتری کے لیے دعا گوہوں لیکن حکومت اور طالبان کے معا ملے میں مجھے نہ جانے کیوں منیر نیازی کا یہ شعر یاد آ تا ہے۔
جانتے تھے دونوں ہم اس کو نباہ سکتے نہیں
اس نے وعدہ کر لیا‘ میں نے بھی وعدہ کر لیا