نفاذِشریعت کیا کوئی دھمکی ہے جس سے مخالفین کو ڈرانا مقصود ہے؟
شریعت تو انسانوں کے لیے اللہ کی رحمت ہے۔یہ وہ راستہ ہے جو ابن آدم کی دنیاوی زندگی کے لیے آسودگی کا پیغام اوراُخروی زندگی کے لیے نجات کی نویدہے۔نادان دوستی کا یہ کرشمہ ہے کہ اسے یوں بیان کیا جا تا ہے جیسے یہ کوئی سزا ہو۔بدقسمتی سے لوگ دین کی حکمت سے واقف ہیں نہ پیغمبروں کی حکمت عملی سے۔یوں یہ اللہ کے آخری رسولﷺ کے اس ارشاد کے مصداق ہیں جس میں آپؐ نے فرمایا:لوگوں کو خوش خبری سناؤ، انہیں خوف زدہ نہ کرو۔جب سے لوگوں نے دین کو دعوت کی بجائے نظام سمجھنا شروع کیا ہے،انہیں نفاذِ شریعت کی تو فکر ہے، دعوتِ دین کی نہیں۔اسی کا ایک مظہر یہ ہے کہ لوگ معصوم انسانوں کا قتل کرتے اور اپنے تئیں گمان کرتے ہیں کہ وہ نفاذِشریعت کے پیامبر ہیں۔
انسانوں کو دین کی ضرورت کیوں ہے؟پیغمبر کیوں مبعوث ہوتے ہیں؟کیا اس لیے کہ وہ ایک ریاست بنائیں اور اجتماعیت کو اختیار کریں؟ کیا اس لیے کہ وہ ایک معاشرتی نظام ترتیب دیں؟ انسانی سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ سب باتیں انسان کی فطرت میں مو جود ہیں۔ان کے لیے وحی کی ضرورت ہے نہ پیغمبروں کی۔یہ کام تو وہ بھی کرلیتے ہیں جو خدا سے واقف ہیں نہ اس کی وحی سے۔انسان اپنے مادی اور سماجی تقاضوں کا علم فطرت سے سیکھتا ہے۔اللہ کی ساری مخلوقات اسی طرح زندہ رہتی اور اپنی نسل کو بڑھاتی ہیں۔دین انسان کو یہ سکھانے آتا
ہے کہ مادی وجود کے ساتھ اس کا ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔یہ اخلاقی وجود اسے دوسری مخلوقات سے ممتاز بنا تا ہے۔انسان کو اس آ زمائش میں مبتلا کیا گیا ہے کہ وہ اس وجود کی تطہیر کرے۔ یہ تطہیر کیسے ہو؟ یہ سکھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر بھیجے ہیں۔ پیغمبروں نے ایک تو اس بات کی خبر دی کہ اخلاقی وجود کی تطہیر اور تزکیے کے ساتھ اس کی اُخروی نجات وابستہ ہے۔اس کے ساتھ انہوں نے اپنا اسوہ پیش کیا کہ یہ تطہیر کیسے ہوگی۔یہی دین کی دعوت ہے اورپیغمبر اسی کے داعی ہوتے تھے۔ اس کا شعور بھی اگرچہ انسان کی فطرت میں مو جود ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے اس کی یاد ددہانی کا بھی اہتمام فرما یا ہے۔انسان جب تک ایک فرد ہے،اس کی ذمہ داری اپنے وجود کا تزکیہ ہے۔اگر وہ مل کر ایک اجتماعیت تشکیل دیتے ہیں توپھر ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تطہیر بھی کریں۔ پیغمبر یہی بات کہنے کے لیے بھیجے گئے۔ ان کا کام تذکیر ہے۔ انہوں نے اسی کی یاد دہانی کرائی۔ لوگ مان لیں تو اسی میں ہی ان کی بھلائی ہے اور اگر نہ مانیں توانہیں زبر دستی اس کا پابند نہیں بنا یا جا سکتا۔یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولﷺ کو ارشاد فرمائی:آپ تذکیر کرنے والے ہیں،آپ ان پر داروغہ نہیں۔(الغاشیہ21:88)
مسلمان جب کوئی ریاست قائم کرتے ہیں تویہ ان کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے ان احکامات کو ریاستی سطح پہ نافذ کریں جن کا تعلق ریاست سے ہے۔اجتماعیت کی دو صورتیں ہوتی ہیں... ایک معاشرہ اور ایک ریاست۔معاشرہ ایک نظامِ اقدار سے قائم رہتا ہے اور ریاست قانون سے۔اقدار وعظ و نصیحت اور شعوری تربیت سے فروغ پاتی ہیں‘ یہ کام جبر سے نہیں ہوتا۔ہرمعاشرے میں سماجی ادارے یہ کام کرتے ہیں۔ہمارے تہذیبی پس منظر میں گھر، مدرسہ،خانقاہ، مسجد اور دوسرے ادارے یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔قانون اس نظامِ اقدار کا پابند اور اس کا عکس ہوتا ہے‘ اس لیے قانون اس وقت تک مو ثر نہیں ہو تا جب تک نظام ِ اقدار مستحکم نہ ہو جائے۔ ہمارے ہاں لوگ ریاست اور سماج کے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے۔وہ سماجی تشکیل کا کام بھی قانون سے لینا چاہتے اور اسے نفاذِ شریعت کا نام دیتے ہیں۔یہ پیغمبروں کی حکمت عملی سے بے خبری کی دلیل ہے۔
اللہ کے آخری رسولؐ نے پہلے ایک سماج بنایا۔ جب ایک نظام ِ اقدار مستحکم ہو گیا تب اللہ تعالیٰ نے قانون نازل کر ناشروع کیا۔مکہ کے تیرہ سال کوئی قانون نہیں اترا۔قرآن مجید کی مکی آیات میں کوئی قانون بیان نہیں ہوا۔شریعت اس وقت نازل ہونا شروع ہوئی جب مدینہ میں مسلم سماج مستحکم ہو گیا۔ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے اس کی حکمت بیان فرمائی۔کہا اگر لوگوں سے ابتدا ہی میں یہ کہہ دیا جا تا کہ بدکاری چھوڑ دیں تو وہ کبھی اس پر آ مادہ نہ ہوتے۔تمام اخلاقی معاملات میں اللہ کے رسولؐ کی حکمتِ عملی یہی رہی کہ پہلے سماج کو حساس بنایا‘ اس کے بعد قانون دیا جس کے لیے سماج تیار ہو چکا تھا۔ہمارے ہاں اسلام پسند چو نکہ ریاستی پس منظر(State Paradigm) میں سوچنے کے عادی ہیں، اس لیے نفاذِ شریعت سے ان کی مراد قانون سازی اور ریاستی جبرہوتا ہے۔پاکستان اس کا تجربہ کر چکا۔ یہاں اسلامی قانون سازی کے باب میں کوئی کمی نہیں لیکن سماج کہاں کھڑا ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔اس ملک میں تیس سال ہوگئے حدود قوانین کو نافذہوئے‘ اب تک عدالتوں کو کوئی ایک گواہ ایسا نہیں مل سکا جو شریعت کے مطابق گواہی دینے کا اہل ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو حدود قوانین کے تحت سزا نہیں دی جا سکی۔ سماج جب تیار نہیں ہوتا تو اس میں کوئی قانون نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔دین کے جید علمایہ بات جانتے ہیں۔ مو لا نا مودودی نے لکھاتھاکہ جب سماج اخلاقی طور پر کمزور ہو تو اس میں سزا دینے کی جلدی نہیں کر نی چاہیے بلکہ ایسے سماج میں تو اُن لو گوں کو سر یا خان بہادر کا خطاب دینا چاہیے جو خود کو پاکیزہ رکھتے ہیں۔
جو ذہن دین کو محض نظام سمجھتا ہے، وہ اس بات کو سمجھنے سے معذور ہو تا ہے۔دین ہدایت ہے، دین خیر خواہی ہے۔ دین دراصل دعوت ہے۔جب ہم دین کو دعوت سمجھتے ہیں تو ہمارے اندر داعیانہ مزاج پیدا ہو تا ہے۔یہ مزاج ان لوگوں کے بارے میں خیر خواہی کے جذبات پیدا کرتا ہے جو اس ہدایت سے محروم ہیں‘ جن پر اس ہدایت کے فائدے واضح نہیں۔اس سے وہ پیغمبرانہ سوزپیدا ہوتا ہے جس کے تحت پتھر مارنے والوں کو بھی دعا دی جا تی ہے۔پھر داعی اس خیال میں گھلتا چلا جاتا ہے کہ لوگ جہنم کی طرف بڑھ رہے ہیں اور وہ ان کی ہدایت کے لیے بے چین ہو جا تا ہے۔ آج نفاذِ شریعت کا علمبردارمختلف رائے رکھنے والے کو اپنا حریف سمجھتا ہے۔ وہ ان کے سامنے شریعت کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے انہیں دھمکی دے رہا ہے۔ یہ ذہن سماج کی اہمیت سے واقف نہیں ہے اوریہ چاہتا ہے کہ بالجبر اسے شریعت کا پابند بنائے۔اس حوالے سے بھی ہمارے سامنے افغانستان کا تجربہ مو جود ہے۔طالبان نے یہ کام جبر سے کیا۔ان کے جانے کے بعد اگلے دن کابل کے سینماؤں میں اتنا رش ہوا کہ لوگوں نے کھڑکیاں اور دروازے توڑ دیے۔
شریعت ایک خیر ہے‘ یہ کوئی دھمکی نہیں۔نفاذ ِ شریعت کی خواہش بہت محمود ہے لیکن یہ محض قانون اور جبر کا نام نہیں ہے۔یہ ایک داخلی تبدیلی کاناگزیر نتیجہ ہے۔ہماری کوشش اس داخلی تبدیلی کے لیے ہو نی چاہیے۔اس کے بعد سماج خود شریعت کی خواہش کرے گا۔یہ اُسی وقت ہوگا جب ہم دین کو نظام کے بجائے دعوت اور خود کو داروغہ کے بجائے داعی سمجھیں گے۔