"KNC" (space) message & send to 7575

آئین مقدس ہے

انسان کی سماجی وسیاسی زندگی میں عہد کی غیر معمولی اہمیت ہے۔عہد، معاہدہ، وعدہ،سب کا ایک ہی مفہوم ہے۔بین الاقوامی اورمعاشرتی زندگی اسی سے قائم رہتی ہے۔اللہ کی شریعت اور انسانی اخلاقیات، دونوں اس باب میں ہم آواز ہیں۔یہ بحث بے معنی ہے کہ معاہدہ تحریری ہو یا غیر تحریری۔اس کا تعلق تمدنی ارتقا سے ہے۔الہامی ہدایت اس معا ملے میں اتنی حساس ہے کہ اس نے اللہ اور بندے کے تعلق کو بھی ایک معاہدے (میثاق)سے تعبیر کیا ہے۔ انسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اُس عہد کی پاس داری کریں جو انہوں نے عالمِ ارواح میں اپنے پروردگار سے باندھا تھا۔عہدِ الست اسی کو کہتے ہیں۔
پاکستان میں بسنے والوں نے بھی ایک ساتھ رہنے کے لیے ایک عہد کیا ہے۔ایک عمرانی معاہدہ۔اسے ہم آئین کہتے ہیں۔یہ شرعی اعتبار سے مقدس ہے اور سماجی و سیاسی حوالے سے بھی۔شرعی اعتبار سے اس لیے کہ مسلمان جب کوئی عہد کرتا ہے تو اس کو نبھانا اس کی دینی ذمہ داری ہے۔اللہ کے رسولﷺ نے عہد شکنی کو منافق کی نشانیوں میں شمار کیا ہے۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا:''جس کا عہد نہیں، اس کا کوئی ایمان نہیں‘‘۔یہاں عہد کا تعلق دین اور دنیا، دونوںسے ہے۔ایک شہری نے ریاست کے ساتھ یہ عہد باندھ رکھا ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کرے گا۔اب اگروہ سرخ سگنل پر نہیں رکتا تو وہ عہد کو توڑتا ہے۔یہ شرعاً گناہ ہے۔ آ خرت میں اس کے لیے جواب دہی ہوسکتی ہے۔
قرآن مجید نے بتا یا کہ بنی اسرائیل نے اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو توڑا۔انہیں اس کی سزا ملی اور وہ منصب ِ امامت سے معزول کر دیے گئے۔عہد کے معاملے میں اللہ کا دین جتنا اصرار کرتاہے، اس سے زیادہ اصرار ممکن نہیں۔قرآن مجید تو یہاں تک کہتا ہے کہ اگر کسی ریاست کے مظلوم مسلمان دین کے معاملے میں بھی تمہیں مدد کے لیے پکاریں تو تم ان کی مدد نہیں کر سکتے اگر تم نے اس ریاست سے کوئی معاہدہ کر رکھا ہے(الانفال:72)۔اسی وجہ سے جب 1948ء میںپاکستان کے لوگوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی مدد کو جا نا چاہا تو مو لا نا مودودی نے اسے ناجائز کہا۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے پاکستان بھارت کے ساتھ معاہدے ختم کر نے کا اعلان کرے،اس کے بعد ہی اسے جائز کہا جا سکتا ہے۔مو لانا مو دودی کا یہ انٹرویو ایک بار پھر دوتین ہفتے پہلے، ''دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین میں شائع ہوا ہے۔جو لو گ اس کی مزید تفہیم چاہتے ہیں، وہ اس موضوع پر مو لا نا شبیر احمد عثمانی اور مو لا نا مو دودی کے مابین خط و کتابت پڑھ لیں۔اللہ کے رسولؐ نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ابو جندل کو مشرکینِ مکہ کے حوالے کر دیا کیونکہ صلح کے معاہدے میں یہ شق مو جود تھی کہ اگر مکہ سے کوئی شخص مدینہ آئے گا تو اسے اہلِ مکہ کے حوالے کردیا جائے گا۔جب ابو جندل کو واپس کیا گیا تو اس وقت معاہدہ قلم بند نہیں ہواتھا،صرف طے پایا تھا۔ اس کے باوصف اللہ کے رسولؐ کو اپنے عہد کا اتنا پاس تھا کہ دل پر پتھر رکھ کر ایک صاحبِ ایمان کو دشمنوں کے حوالے کر دیا۔آپؐ نے ابوجندل کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:''ابو جندل! صبر اور ضبط سے کام لو۔اللہ تمہارے لیے اور مظلوموں کے لیے کوئی راہ نکالے گا۔صلح اب ہو چکی اور ہم ان لوگوں سے بد عہدی نہیں کر سکتے۔(ابن ہشام)‘‘
عہد اور معاہدے کی یہ حیثیت دین میں اتنی واضح ہے کہ اس بارے میں دوسری رائے نہیں ہو سکتی۔اس باب میں الہامی ہدایت کا رحجان یہ ہے کہ معاہدوں کو لکھ لیا جائے۔خود اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے جو معاہدے کیے،انہیں اکثر لکھا گیا۔انہیں ہم الہامی صحائف اور کتب کہتے ہیں۔قرآن مجید اس سلسلے کی آ خری کڑی ہے۔قرآ ن مجید ایک متن کا نام ہے۔یہ ایک کتاب ہے۔اللہ کے آخری رسول اور نبیﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے بطور حکمران، ریاست کی نمائندگی کرتے ہوئے،یہاںکے شہریوں سے تحریری معاہدے کیے۔انہیں اجتماعی طور پر ''میثاقِ مدینہ‘‘ کہا جا تا ہے۔بہت سے محققین اسے دنیا کا پہلا تحریری آئین کہتے ہیں۔یہود نے جب ان کی خلاف ورزی کی تو انہیں اس کی سزا دی گئی۔آئین شکنی کے جرم میں قبائل کوسزا ملی اور کعب بن اشرف جیسے لوگوں کو انفرادی طور پر بھی۔اسی طرح اللہ کی کتاب نے مسلمانوں کو ہدایت کی کہ جب تم قرض کے لین دین کاکوئی معاہدہ کرو تو اسے لکھ لیا کرواور اس پر گواہ بھی بنا لیا کرو (البقرہ:283)۔ اس طرح کے بہت سے شواہد سے شریعت کا یہ منشاواضح ہے کہ معاہدوں کو تحریر میں لاناچاہیے۔
انسان نے اپنے تجربے اورتمدنی ارتقا سے بھی یہی سیکھا کہ معاہدوںکو تحریری صورت میں مدون ہو نا چاہیے۔یہ معاہدہ ریاست اوراس کے شہریوںکے درمیان ہو سکتا ہے،دو ریاستوں کے درمیان ہو سکتا ہے اور اس میں کسی ایک ریاست کے دو شہری بھی فریق ہو سکتے ہیں۔عباسیوں کے دور میں ہارون الرشید نے تحریری قانون کی ضرورت محسوس کی تو قاضی ابویوسف سے لکھنے کو کہا جس کی پابندی پوری ریاست کی عدلیہ اور عمال کریں۔ان کی فرمائش پر ہی امام ابو یوسف نے ''کتاب الخراج‘‘ لکھی جسے ریاست کا آئین بنا دیا گیا۔اس سے پہلے ابو جعفر منصور امام ما لک سے یہ درخواست کر چکے تھے کہ ان کی 'موطا‘ کو ریاست کا دستور بنا دیا جائے۔موطا امام مالک، ظاہر ہے کہ ایک کتاب کا نام ہے۔عثمانیوں نے بھی ریاستی قوانین کو تحریراً مدون کیا اوربر صغیر میں اورنگزیب نے بھی اس کی کوشش کی۔جدید دنیا میں برطانیہ اور آئر لینڈ کے علاوہ ساری دنیا میں تحریری آئین اور قوانین مو جود ہیں۔اسرائیل میں بھی بنیادی قوانین تحریراً موجود ہیں جن کے تحت ریاست کا نظام چلتا ہے۔ پارلیمنٹ(Knesset)، حکومت، صدر،ہر کسی کی مدت، طریقہ ء انتخاب وغیرہ درج ہیں۔
پاکستان کا آئین اس لیے، ہر اعتبار سے ایک شرعی اور تمدنی ضرورت کے مطابق ہے۔یہ ایک عہد ہے جو ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین باندھا گیا ہے۔اس کا احترام دونوں فریقوں پر شرعاً واجب ہے۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ دین کا نام لیتے ہیں اور اس آئین کا ایسے ذکر کرتے ہیں جیسے یہ کاغذ کا ایک بے کار ٹکڑا ہے۔اس کی پابندی ضروری ہے اور نہ اس کا احترام۔دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ فریقین کسی معاہدے کی پوری طرح پابندی نہیں کرتے۔ اس سے معاہدے کی اخلاقی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا اگر ایک فریق اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتا تو دوسرے کے لیے کسی طرح یہ جائز نہیں ہو جا تا کہ وہ اسے جواز بنا کرمعاہدے کی خلاف ورزی کرے۔نکاح ایک مرد اور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔اگرشوہر اس کے تحت اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھاتا تو کیا عورت کے لیے یہ جائز ہو جائے گا کہ وہ خود کو اس معاہدے سے آزاد تصور کر لے؟میں جانتا ہوں کہ ہمارے حکمران آئین کی پوری طرح پابندی نہیں کرتے۔کیا ان کی یہ کوتاہی، بطور شہری میرے لیے قانون شکنی کا جوازبن جائے گی؟
پاکستان کا آئین ریاست اور عوام کے مابین ایک معاہدہ ہے۔عوام نے اپنے منتخب نمائندوں کے توسط سے اس کی پاسداری کا وعدہ کیا ہے۔ قدیم دور میں عوام کی نمائندگی قبائلی لیڈر کرتے تھے۔آج یہ نمائندگی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔اس معاہدے کا احترام پاکستان کے عوام پر شرعاً واجب ہے۔عقلی اعتبار سے بھی یہ ہماری اجتماعیت کی ناگزیر ضرورت ہے۔اس کے بغیر کوئی ریاست باقی نہیں رہ سکتی۔آئین ،اس لیے مقدس ہے۔اگر کوئی فرد اس کی خلاف ورزی کرتا ہے توسزا کا مستحق ہے۔اگر کوئی گروہ ایسا کرتا ہے تو وہ بھی سزا کا حق دار ہو گا۔مسئلہ تحریری یا غیر تحریری کا نہیں، ایک عہد نبھانے کا ہے۔ شریعت کی ہدایت البتہ یہی ہے کہ اسے تحریری ہونا چاہیے۔پاکستان کا آئین اس ہدایت کے مطابق تحریری ہے۔ اس کی خلاف ورزی شرعاً جرم ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں