سعودی عرب نے اخوان المسلمون پر پابندی عائدکردی ہے۔ موقف یہ ہے کہ اخوان دہشت گرد ہیں۔ میں اس خبر میں امتِ مسلمہ کو تلاش کر رہا ہوں۔
یہ خبر تاریخی تسلسل اور بہت سی خبروں کے جلو میں نمودار ہوئی ہے۔کچھ دن پہلے سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر سے اپنے سفراء کو واپس بلا لیا تھا۔شکایت یہ تھی کہ قطر کی حکومت نے مصر میں منتخب اخوانی صدرمرسی کی حمایت کی تھی۔شام میں قطر اور سعودی عرب کے درمیان مفادات کا تصادم ہے۔ یہ سب لوگ پہلے ایک دائرے میں سوچتے ہیں۔۔۔ نسل، یوں عرب ہوتے ہوئے غیر عربی کے خلاف متحد ہوجا تے ہیں۔ جب عربوں میں مفادات متصادم ہوتے ہیں تو سوچ کا نیا دائرہ وجود میں آتا ہے۔۔۔ جغرافیہ ، اب لوگ اپنے اپنے ملک کے تناظر میں سوچنے لگتے ہیں۔ یہی اخوانی ایک دور میں سعودی عرب کو عزیز تھے جب مصر میںناصر کی حکومت تھی۔اخوان کے فکری امام سید قطب کو پھانسی دے دی گئی۔ان کے بھائی محمد قطب طویل عرصے تک شاہی مہمان کی حیثیت سے سعودی عرب میں مقیم رہے۔اُن دنوں ناصر''عزت عربوں کے لیے ہے‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے عربوں کی قیادت کے امیدوار تھے۔دوسرے عربوں کو یہ کہاں گوارا تھا۔ یوں اخوان کی پشت پناہی کی گئی۔ 1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں ناصر کے نزدیک اخوان دہشت گرد تھے، آج سعودی عرب کا موقف یہی ہے۔کم وبیش ایک سال پہلے امام کعبہ نے مصرکے اخوانی رہنما اور صدر محمد مرسی کے بارے میں خطبۂ جمعہ میں جو کچھ کہاتھا،لوگ ابھی تک اس کی صدائے بازگشت سنتے اور مضطرب ہو جاتے ہیں۔آسمان کے ان بدلتے رنگوں کو دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں امتِ مسلمہ کہاں ہے؟
مشرقِ وسطیٰ میںایران اور عراق کی جنگ بھی ماضی قریب کا واقعہ ہے۔ سعودی عرب اور لیبیا کی کشمکش بھی زندہ رہی جب تک قذافی زندہ تھے۔اب اپنے خطے میں آجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے چاہا کہ پاکستان شام کے معاملے میں اس کا ساتھ دے لیکن حکومت آ مادہ نہیں ہوئی۔ اب سعودی عرب نے بھارت سے دفاعی معاہدہ کر لیا ہے۔ایران اور بھارت کے تعلقات اور کشمیر پر ایرانی موقف سے بھی ہم باخبر ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے وحدتِ امت کے علم بردار قاضی حسین احمدکو اپنی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیا۔ہماری حکومت نے کوشش کی کہ طالبان کی حکومت ڈیورنڈ لائن کو سرحد مان لے ، طالبان نے انکار کر دیا۔میں تاریخ کے ان واقعات پر غور کر تا ہوں تویہ سوال میرے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے: امتِ مسلمہ کیا ہے؟
غورو فکرکا سفرکبھی تمام نہیں ہوتا۔ہم آج ایک سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں اور آنے والے کل میں، بعض نئی معلومات اور فکری ارتقا کے باعث یہ جانتے ہیں کہ گزرے کل جو سوچا تھا،غلط تھا۔اس با ت کو مانتے ہوئے، آج مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ بطور سیاسی وحدت، امت ایک ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمّٰی نہیں۔ یہ ایک روحانی تصور ہے جس کا سیاسی حقیقتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاسی وحدت کی اساس جغرافیہ اور نسل ہی ہے۔ ہماری تاریخ کے ابتدائی ادوار میں جغرافیہ، نسل اور مذہب میں کوئی تفاوت نہیں تھا، یوں ایک وحدت قائم رہی۔ پھر نسلی امتیاز نے سر اٹھایا۔ بنوامیہ اور بنوعباس کی کشمکش اسی کا نتیجہ تھی۔اس وقت تک یہ معرکہ آرائی ایک ہی جغرافیہ کی حدود میں تھی۔ بنو امیہ کو جب یہاں سے دیس نکالا ملا تو انہوں نے سپین میں ایک نئی دنیا آ باد کر لی۔ یوں جغرافیہ بھی الگ ہوگیا۔ دوسری طرف بنوعباس کااقتداربھی سمٹنے لگا۔اس طرح سیاسی وحدت کی فطری اساسات، جغرافیہ اور نسل نے ایک بار پھر مسلمانوں میںظہورکیا۔ بر صغیر میں نظریے کو سیاسی وحدت کی اساس کے طور پر ایک بار پھر زندہ کیا گیا۔ایک خیال کے طور پر اسے پذیرائی ملی اور پاکستان وجود میں آگیا۔ علامہ جمال الدین افغانی جیسے بعض صاحبانِ فکر ونظر نے نظریے کو ایک بار پھر عالمگیر وحدت کی بنیاد بنا نا چا ہا ، اس خیال کو لیکن عملاً کہیں جگہ نہ ملی۔ علامہ اقبال نے اگرچہ نظریے کو بطور سیاسی وحدت قبول کیا لیکن عالمی سطح پرانہوں نے اجتہاد کیا اور وہی اس وقت کسی حد تک ممکن ہے۔
علامہ اقبال مسلمانوں کی قومی ریاستوں کو امرِِ واقعہ سمجھتے ہوئے ان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ان کا خیال یہ ہے کہ ان ریاستوں کو سب سے پہلے اپنے وجود میں استحکام چاہیے۔ جب یہ حا صل ہو جائے تو وہ مل کر لیگ آف نیشنز کی طرز پر ایک اتحاد بنا لیں۔گویاان کے نزدیک بھی مسلمانوں کی ایک ریاست کا تصور خیالی ہے جو عالمگیرہو۔ دین کو میں جتنا سمجھ سکا ہوں، اس سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ ایک عالمگیر سیاسی وحدت کوئی دینی تقاضا نہیں۔ دین ہم سے یہ مطالبہ کر تا ہے کہ ہم جہاں ہوں،ایک نظمِ اجتماعی کی صورت میں ہوں۔اگر اس نظمِ اجتماعی کی باگ ہمارے ہاتھ میں ہوگی تو ہم یہ دیکھیں گے کہ دین اجتماعی معاملات میں ہمیں کیا حکم دیتا ہے اور پھر ہم اس کو تسلیم کریں گے۔اگرنظم ِاجتماعی ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے تو پھر ہم ایسے ریاستی قوانین کا مطالبہ کریں گے جو ہماری مذہبی آ زادی کو یقینی بنائیں۔دنیا میں اس کی ضمانت سیکولرازم ہی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی جیسی جماعت جب پاکستان میں متحرک ہوتی ہے تو ریاستی امور میںاسلام کے نفاذ کی بات کرتی ہے اور اس مطالبے کو غلط نہیں کہا جا سکتا۔ یہی جماعت بھارت میں سیکولر اقدار کی بات کرتی ہے اور یہ وہاں کے تناظر میں صحیح مطالبہ ہے۔ابھی چند دن پہلے، جماعت اسلامی ہند نے اپنے انتخابی منشور کا ا علان کیا ہے۔اس میں کہیں نفاذِ اسلام کا مطالبہ شامل نہیں ہے۔
امتِ مسلمہ اس لیے ، میرے خیال میں ایک روحانی تصور ہے، سیاسی نہیں۔اس حوالے سے دیکھیں تو بھارت کے انیس کروڑ مسلمان اور پاکستان کے مسلمان ایک امت ہیں۔ سیاسی حوالے سے دیکھیں تو پاکستان کے مسلمان اور یہاں کے غیر مسلم ایک امت ہیں۔ روحانی وحدت کی اساس نظریہ ہے اور سیاسی وحدت کی اساس جغرافیہ۔ یہ وہ بنیادی حقیقت ہے جس کا اعتراف لازم ہے ۔ بصورت دیگر ہم ایک ایسے خیال کے تعاقب میں عمر گزار دیں گے جس کا کوئی وجود نہیں۔ اگر ہم اس بات کو جان لیں تو ہمیں اس سوال کا جواب مل سکتا ہے کہ جماعت اسلامی بھارت میں سیکولرازم اور پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مطالبہ کیوں کر تی ہے؟ پھرہمیں اس پر بھی حیرت نہیں ہوگی کہ سعودی عرب دنیا بھر میں مساجد کے قیام اور قرآن مجید کی اشاعت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا اور دوسری طرف اخوان کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ایک اس کے روحانی وجود کا تقاضا ہے اور دوسرا اس کے سیاسی وجود کا۔
ایک بات البتہ واضح ہے۔ اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کا دین اس سے یہ تقاضا ہر حال میں کرتا ہے کہ وہ اپنے اخلاقی وجودکی حفاظت کرے۔سیاسی وجود کی بقا کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دین کی بتائی ہوئی کسی اخلاقی قدر کو پا مال کر دے۔ ظلم ظلم ہے اور کوئی سیاسی مفاد اس کو جائز قرار نہیں دے سکتا ۔ قرآن مجید نے صاف بتا دیا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں یہاں تک نہ لے جائے کہ تم انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دو۔ ہر مسلمان ریاست کو یہ حق تو ہے کہ وہ اپنے قومی وجودکومحفوظ بنائے لیکن اگر اس کے لیے وہ اخلاقی اقدارکو پامال کرے گی توایسی ریاست کے ذمہ دار آخرت میں جواب دہ ہوں گے۔