دینی مدارس کے حلقوں میں اضطراب ہے۔ اُن کو خدشہ ہے کہ قومی سلامتی کی داخلی پالیسی، ان کی آزادی عمل کو محدود کر دے گی۔ مدارس کو اپنا حلقۂ سیاست سمجھنے والے مذہبی سیاست دان، تحریک چلانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ مدارس کے منتظمین بھی متحرک ہیں اور اپنے ہمدردوں کو مجتمع کر رہے ہیں۔ یہ حضرات پسِ مرگ واویلا جائز نہیں سمجھتے،اس لیے بطور حفظِ ماتقدم، قبل از مرگ ماتم کناں ہیں۔
چند دن پہلے علما کے ایک اجتماع میں شریک تھا۔ یہ 'علما تربیتی کورس‘ کی اختتامی نشست تھی‘ جس کا اہتمام مجلس صوت الاسلام نے کیا تھا۔ مجلس کے سربراہ مفتی ابو ہریرہ محی الدین سمیت سب علما یک زباں تھے کہ مدارس پر اس مفروضہ 'تاخت‘ کو برداشت نہیں کیا جا ئے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس قومی دھارے کا حصہ ہیں کہ سماج کی ایک ناگزیر ضرورت پوری کر رہے ہیں۔ علما پُرجوش تھے کہ وہ مدارس کا دفاع کریں گے۔ یہ اجتماع اگرچہ دیوبندی علما پر مشتمل تھا لیکن اس معاملے میں سب مسالک کے مدارس ہم نوا ہیں۔ باہمی اختلاف کے باوصف، جس طرح اہلِ سیاست جمہوریت کے نام پر متحد ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ حضرات بھی مسلکی اختلاف کے باوجود مدارس کے نام پر یک زباں ہو جا تے ہیں، اس لیے یہ اضطراب محض ایک حلقے میں نہیں، تمام مسالک پر محیط ہے۔
داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں دو مقامات پر مدارس کا ذکر ہے اور کہیں بھی انہیں قومی دھارے میں لانے کی بات نہیں ہوئی؛ تاہم انہیں تعلیم کے قومی نظام کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اس تجویزکا اطلاق تعلیم کے دیگر نجی اداروں پر بھی ہو گا۔ پالیسی کے اس حصے میں قومی وحدت زیرِ بحث ہے۔ اس ضمن میں سماج کے مختلف طبقات کو دوبارہ مجتمع کرنے کے لیے بعض اقدامات کی ضرورت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کے لیے ایک پروگرام 'YES‘ کے عنوان سے ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی مدارس سمیت نجی تعلیمی اداروں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے عملی اقدام سے پہلے، مدارس کے ذمہ داران کو بھی شریکِ مشاورت کیا جا ئے گا۔ اس پالیسی میں کوئی ایسی بات نہیں کہی گئی جس سے یہ نتیجہ برآمد کیا جائے کہ یہ مدارس کے خلاف کوئی سازش ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ علما کا احتجاج محض ایک گمان کا تعاقب ہے۔
قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پاکستان کو آج داخلی سطح پر جس اضطراب اور بدامنی کا سامنا ہے، اس کی ذمہ داری میں ریاستی اورغیرریاستی ادارے سب شریک ہیں، سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ یہ صورتِ حال اُس پالیسی کا نتیجہ ہے جو ریاستی اداروں نے 1980ء کی دہائی میں 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے عنوان سے اختیار کی۔ گویا ریاست بھی ذمہ دار ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا تا ہے کہ ہمارا معاشرہ آج جس فرقہ واریت اور انتہا پسندی کا شکار ہے، اس میں مدارس کا بھی حصہ ہے، اس لیے ان کو بھی اپنے کردار پر نظرثانیکرنی چاہیے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھے اور ان کے کردار کو قومی مفادات سے ہم آہنگ بنائے۔ قومی سلامتی کی داخلی پالیسی اسی ضمن میں دیگر اداروں کے ساتھ مدارس کو بھی زیرِبحث لاتی ہے۔ اس میں کوئی امتیازی بات ہے نہ سازش کا کوئی پہلو۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس حوالے سے دینی مدارس کا کردار قابلِ اصلاح نہیں ہے؟ میرے نزدیک اس کا جواب اثبات میں ہے۔ میں چند امور کی یہاں نشان دہی کر رہا ہوں۔
1۔ پاکستان میں مدارس کی تنظیم مسلک کی بنیاد پر ہوئی۔ یہاں دین نہیں، مسلک کی تعلیم دی جا تی ہے۔ یوں سماج میں مسلکی تقسیم کا سب سے بڑا ماخذ دینی مدارس ہیں۔
2۔ پاکستان میں دوسرے مذہبی مسالک کے خلاف تکفیر سمیت جو بھی انتہا پسندانہ رحجانات اٹھے، اُن سب کا سرچشمہ دینی مدارس اور ان کے فارغ التحصیل لوگ ہیں۔
3۔ طالبان پاکستان میں جس دینی تعبیر کی بنیاد پر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں، اس کا دینی استدلال بھی ان لوگوں نے فراہم کیا جن کا تعلق دینی مدارس سے تھا۔ تحریکِ طالبان پاکستان جس شوریٰ کے تابع ہے وہ انہی مدارس کے فارغ علما پر مشتمل ہے۔ طالبان اگر سماج کے کسی طبقے کا احترام کرتے ہیں تو وہ یہی علما ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی اتفاق کی وجہ سے ہے نہ ذاتی تعلق کے سبب سے۔
4۔ مدارس کا یہ نظام ریاست کے قانون سے نہیں چلتا۔ اس کے نصاب میں حکومت کا کوئی حصہ ہے نہ انتظام میں۔ مثال کے طور پر سرکاری تعلیم کے اداروں میں اس وقت استاد کے انتخاب کے لیے ایک معیار ہے۔ اسی طرح اس کے عزل و نصب کا ایک قانون ہے۔ دینی مدارس میں مہتمم مختارِ کل ہے۔ تنخواہ کا کوئی نظام ہے نہ ملازمت کا کوئی تحفظ۔ اس کے معاشی معاملات بھی کسی سرکاری نظام کے تابع نہیں۔
دینی مدارس کے منتظمین اکثر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی مدرسہ ایسا نہیں جہاں دہشت گردی کی تربیت دی جاتی ہو۔ یہ بات درست ہو گی لیکن اس امرِ واقعہ کا انکار محال ہے کہ ان مدارس میں جو مسلکی اور گروہی عصبیت پیدا کی جاتی ہے، وہ انتہا پسندی کو جنم دیتی ہے جو دہشت گردی کی جانب پہلا قدم ہے۔ اسی طرح ان مدارس سے فارغ التحصیل لوگ اس قوم کا حصہ ہوتے ہوئے بھی اپنے ظاہری حلیے اور سوچ میں عام آ دمی سے مختلف ہیں۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس معاشرے کو جس طرح ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی ضرورت ہے، اسی طرح دینی علوم کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔ آج ڈاکٹر ہو یا انجینئرز، استاد ہو یا سرکاری اہلکار، سب ایک دوسرے سے مختلف نہیں لگتے۔ اگر وہ
خود نہ بتائیں تو انہیں دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ڈاکٹر ہیں یا استاد۔ دینی مدارس سے متعلق لوگوں کا معاملہ یہ نہیں۔ قومی سطح پر یک رنگی پیدا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ تمام بچوں کو ایک جیسی بنیادی تعلیم دی جائے۔ اس کے بعد جو ڈاکٹر بننا چاہے وہ ڈاکٹر بنے اور جو عالم بننا چاہے وہ عالم۔ اگرکوئی مدارس کو قومی دھارے میں لانے کی بات کرتا ہے تو اس کا مفہوم یہی ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ ہم پیشہ ورانہ اور گروہی عصبیت کے حوالے سے سوچتے ہیں۔ دینی مدارس میں اصلاح کی بات کی جائے تو جواباً کہا جاتا ہے کہ صحافت کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟ صحافیوں سے اصلاح کی درخواست کریں تو ان کا موقف ہوتا ہے، فوج کو کیوں نہیں کہتے؟ امرِ واقعہ یہ ہے کہ سب کو اصلاح کی ضرورت ہے۔ میں دینی مدارس پر کالم لکھوں گا تو ظاہر ہے کہ اہلِ صحافت زیرِ بحث نہیں آئیں گے۔۔۔۔۔ علیٰ ہٰذاالقیاس۔ میں نے مجلس صوت الاسلام کے جس اجتماع کا ذکر کیا، اس میں مو لانا زاہدالراشدی نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کورس کی یہ اختتامی نشست ہے، اس کا عنوان بتا رہا ہے کہ علما کو بھی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم سب کو تربیت کی ضرورت رہتی ہے اور اس کے لیے دل و دماغ کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔ قومی سلامتی کی داخلی پالیسی میں مدارس کے خلاف کوئی بات نہیں کہی گئی۔ دیگر اداروں کے ساتھ ان کی اصلاح کا معاملہ بھی اٹھایا گیا ہے۔ پھر یہ کہ اس اصلاح کے لیے کوئی اقدام تجویز نہیں کیا گیا۔ اقدام سے پہلے دینی مدارس کے ذمہ داران سے مشاورت کی بات کی گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے غوروفکر کی بنیاد بنانا چاہیے نہ کہ احتجاج کی۔