لوگ اپنے فہمِ دین کو شریعت کہتے ہیں۔اگر کوئی اختلاف کی جسارت کر بیٹھے تووہ اسلام مخالف۔اسلامی نظریاتی کونسل کے باب میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
2008ء میں کونسل نے عائلی قوانین پر نظرثانی کی۔اُس وقت کو نسل کا فیصلہ تھا کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت اسلام کی تعلیمات کے مطابق اور خلافِ شریعت نہیں ہے۔آج کی کونسل نے اِ ن قوانین پر تیسری نظر ڈالی اور قرار دیا کہ اجازت کی شرط غیر شرعی ہے۔کونسل کااپنا اختلاف بتا رہا ہے کہ اس معا ملے میں ایک سے زیادہ آرا مو جود ہیں۔گویا مسلمانوں کا نظمِ اجتماعی کوئی رائے بھی اختیار کر سکتا ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ اختلاف شریعت کا نہیں فہم کا ہے۔فہم کے دروازے کبھی بند نہیں ہوسکتے۔اسی جذبے کے ساتھ اگر ہم اس بحث میں شریک ہوں تویہ ارتقا ہوگا جو اسلامی فکر کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
تعددِ ازدواج اسلام کا کوئی حکم نہیں۔عرب میں یہ رواج پہلے سے مو جود تھا۔غزوہ احد میں جب بڑی تعداد میں صحابہ کی شہادت کا حادثہ ہوا تو یتیم بچوں کی کفالت ایک سماجی مسئلہ بن گیا۔قرآن ِمجید نے اس جانب متوجہ کیا اور مسلمانوں کو اجازت دی کہ وہ اس سماجی رسم سے فائدہ اٹھائیں اوریتیموں کی کفالت کے لیے ان کی بیوہ ماؤں سے نکاح کر لیں۔تاہم اللہ نے اس اجازت پردو پابندیاں عائد کر دیں جو اسلام سے پہلے مو جود نہیں تھیں۔ایک یہ کہ اس سماجی ضرورت کے لیے بھی، بیک وقت چار سے زیادہ نکاح نہیں کیے جا سکتے۔ دوسرا یہ کہ بیویوں کے مابین عدل لازم ہے۔ جوعدل نہیں کر سکتے، وہ یہ بھاری پتھر نہ اٹھائیں۔آج بھی اگر کوئی معاشرتی ضرورت متقاضی ہو توایک سے زیادہ نکاح کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم کسی مصلحت یا ضرورت کے تحت مسلمانوں کا نظم ِ اجتماعی چاہے توکوئی اضافی شرط بھی عائد کر سکتا ہے۔یہ حق البتہ اسے حاصل نہیں کہ جو شرائط اللہ تعالیٰ نے عائد کر دی ہیں،انہیں ختم کرے۔خود عائد کردہ شرط اگر اجتماعی مصالح تقاضا کریں تو ختم بھی کی جاسکتی ہے۔دوام اللہ تعالیٰ کی لگائی ہوئی شرائط کو ہے، نظمِ اجتماعی کی شرائط کو نہیں۔
آج کسی مقام پر،اگر مسلمانوں کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ لوگ تعددِ ازدواج کی اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھارہے ہیں تو وہ اس سؤ استعمال کو ختم کرنے کے لیے نئی پابندی عائد کر سکتی ہے اور اسے غیر اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔معاصر مسلمان ملکوں میں اس نوعیت کی شرائط مو جود ہیں۔ مثال کے طور پر عراق میں 1959ء میں دوسری شادی پر پابندی لگادی گئی اور اسے عدالت کی اجازت سے مشروط کر دیا گیا۔جو شخص یہ اقدام کر نا چاہتا ہے ،اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے وہ عدالت کو مطمئن کرے۔آج مسلمانوں میں،بالخصوص عرب دنیا میں، اس اجازت کا جس طرح ناجائز فائدہ اٹھایا جا تا ہے، اس کے بعد تو یہ ناگزیر ہے کہ دوسری یا تیسری شادی پر ایک سے زیادہ پابندیاں عائد کی جائیں۔ اللہ کے احکام ، مرد اور عورت دونوں کے لیے ہیں اوراگر کوئی انہیں کسی کے استحصال کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کو روکنا مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی کی ذمہ داری ہے۔پاکستان میں عورتوںکے ساتھ جو سلوک کیا جا تا ہے، اس کے بعد تو لازم ہے کہ اس نوعیت کی مزید پابندیاں لگائی جائیں نہ کہ پہلے سے عائد پابندیوں کو غیر اسلامی قرار دے کر ختم کرنے کی بات کی جائے۔
جو لوگ مسلمانوں کی فقہی تاریخ پر نگاہ رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے لیے کوئی اجنبی بات نہیں۔اہلِ علم میں کبھی دوآرا نہیں رہیں کہ اختلافی امور میں یہ نظمِ اجتماعی یعنی حکومت ِ وقت کا حق ہے کہ وہ جس تعبیر کوچاہے اختیار کرلے۔مولانا مودودی نے لکھا ہے: ''جن معاملات میں کتاب و سنت کے احکام ایک سے زیادہ تعبیرات کے متحمل ہوں،اُن میں مقننہ (پارلیمنٹ) ہی یہ طے کرے گی کہ کون سی تعبیر کو قانونی شکل دی جائے‘‘(اسلامی ریاست،صفحہ324)۔اس لیے مسئلہ شرعی اور غیر شرعی کا نہیں، راجح اور غیر راجح کاہے۔میں اس ضمن میں چند مثالیں نقل کر رہا ہوں۔
1۔قرآن مجید نے اہلِ کتاب خواتین سے نکاح کی اجازت دی ہے ۔شرط صرف یہ ہے کہ وہ محصنہ(پاک دامن) ہوں۔ سیدناعمرؓ کو خیال ہوا کہ لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے لگے ہیں تو انہوں نے اس پر پابندی لگا دی۔
2۔ قرآن مجید نے چور مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹنے کی سزا بیان کی ہے۔ سید نا عمرؓ نے قحط کے دنوں میں اس پر عمل درآمدروک دیا۔
3۔رسول اللہﷺ نے صحابہؓ سے کہاکہ وہ ان سے دین کی جو بات سنیں،وہ دوسروں تک پہنچائیں۔سیدنا عمرؓ نے اپنے عہد میں کئی لوگوں کو روایتِ حدیث سے منع کر دیا۔
4۔ سید نا عمرؓ کے عہد تک جمعہ کی ایک اذان ہوتی تھی۔سیدنا عثمان ؓ نے دواذانوں کا حکم دے دیا۔
5۔قرآن مجیدنے عرب اہلِ کتاب کے لیے یہ قانون بیان کیا کہ یہ جزیہ دیں گے ا ورمحکوم بن کر رہیں گے (توبہ29:9)۔ جزیے کا قانون عہدِ صدیقی تک سب پر نافذ رہا۔ سید نا عمرؓ نے بنی تغلب کے نصاریٰ کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔
6۔ سید نا ابو بکر صدیق ؓ کے دور تک خواتین مساجد میں آزادانہ طور پر آتی جا تی تھیں۔سیدنا عمرؓ نے انہیں منع کر دیا۔
7۔ رسول اللہﷺ نے کبھی بیس رکعت باجماعت نماز تراویح ادا کی ،نہ اس کا حکم دیا۔سید نا عمرؓ نے باجماعت نمازِ تراویح جاری فرمادی۔
8۔رسو ل اللہﷺ نے فرمایا آئمہ (حکمران) قریش میں سے ہوں گے۔ کئی صدیاں اس پر اجماع رہا۔یہاں تک کہ عثمانیوں کی خلافت کے خلاف،یہ روایت بطور استدلال برصغیر میں بھی پیش کی گئی۔بعد میں علماء اس کے قائل ہوئے کہ یہ حکم اس عہد کے لیے تھاا ور اس میں اُس دور کی مصلحت پیش نظرتھی۔یہ آج کے حالات یا غیر عرب کے لیے نہیں۔
کوئی یہ خیال نہ کرے کہ یہ شریعت میں تبدیلی تھی۔دین کے ہر حکم میں یہ بات خود بخود شامل ہے کہ اس کا نفاذکرتے وقت مقاصدِ شریعت اور زمان و مکان کی رعایت کو ملحوظ رکھا جا ئے گا۔اس کے تعین کا حق نظم ِاجتماعی کو حاصل ہے۔سید نا عمرؓ اور دوسرے خلفائے راشدین نے اسی حق کو استعمال کیا اور اپنے زمانے کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے،فیصلے دیے۔ نظم ِ اجتماعی کے فیصلے دائمی ہوتے ہیں نہ ان کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔اس میں ترجیح کا حق باقی رہتا ہے۔یہی سبب ہے کہ آج کہیں آٹھ رکعت تراویح پڑھی جارہی ہے اور کہیں بیس۔ کہیں جمعے کی دو اذانیں ہو تی ہیں اور کہیں ایک۔ یہی نوعیت دوسرے نکاح کی شرائط اور شادی کی عمر کے تعین کی ہے ۔شام میں علماء کے مشورے سے 1953ء میں ایک قانون نافذ ہوا جس میں شادی کے لیے لڑکی کی عمر 17 اور لڑکے کی 18 سال مقرر کی گئی۔ تونس میں 1957ء میں ایک قانون بنا جس کے تحت شادی کے لیے لڑکے کے لیے 18 اور لڑکی کے لیے 15سال کا ہونا لازم قرار دیا گیا۔ جن امور میں قرآن و سنت نے دوٹوک بات نہیں کہی، ان میں رائے سازی اور قانون سازی کا حق ہمیشہ تسلیم کیا گیا ہے اور احکامِ دین کے نفاذمیں حالات کی رعایت بھی ایسا ہی معاملہ ہے اوراس میں اہلِ علم نے کبھی اختلاف نہیں کیا۔ اللہ یا اس کے رسولﷺ نے کہیں منع نہیں فرمایا کہ نکاحِ ثانی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت نہیں لینی چاہیے۔اسی طرح کہیں شادی کے لیے عمر مقرر نہیں کی۔ان امور میں کوئی رائے اختیار کی جاسکتی ہے اور حالات کے تبدیل ہونے سے انہیں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اگر یہ بات یہاں تک رہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔یہ فہمِ دین کا اختلاف ہے جو ہمیشہ رہے گا۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنے فہم کو شریعت قرار دیتے ہیں۔جن امور میں خود کونسل کی دو آرا ہوں،ان میں ایک کو شرعی اوردوسری طور کو غیر شرعی کہنا ، میرا خیال ہے کہ حد سے تجاوز ہے۔