کہا جا رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب وہ نہیں رہے گا جو پہلے تھا۔ بعض قوتیں چاہتی ہیں کہ اس تبدیلی کو سرمائے کی طاقت سے روک لیں۔ انہیں شاید اندازہ نہیں کہ یہ معاملہ ذہنی انقلاب کا ہے اور اس کا راستہ سرمائے، پیسے سے نہیں روکا جا سکتا۔
مذہبی انقلاب کے بعد جمہوری انقلاب، شاید انسانی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ جس طرح مذہب نے زاویۂ فکر سے لے کر اندازِ حیات تک، ہر چیز کو بدل ڈالا، بالکل اسی طرح جمہوریت نے بھی انسانی سوچ اور عمل، دونوں پر غیرمعمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کسی سماج کے لیے اب ممکن نہیں رہا کہ وہ جمہوریت سے گریز کر سکے۔ مذہب کی طرح جمہوریت بھی انسانی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ مذہب طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کو محیط ہے۔ وہ انسان کی آزادیٔ فکروعمل کو یقینی بناتا ہے؛ البتہ وہ انسانی عقل کے لیے لاینحل مسائل کی ایک الہامی تعبیر رکھتا ہے؛ تاہم وہ انسان پر جبر نہیں کرتا کہ وہ اس تعبیر کو لازماً مانے۔ یہ الگ بات ہے کہ انسانوں کی اکثریت نے اس کو تسلیم کیا ہے۔ جمہوریت کا دائرہ صرف طبیعیاتی ہے۔ یہ بھی انسان کو سوچ اور عمل کی آزادی دیتی ہے، جبر کی نفی کرتی ہے اور یہی بات اسے انسانی فطرت سے ہم آہنگ بناتی ہے۔ ابلاغ کی دنیا میں آنے والی تبدیلی نے جس عالمگیر فکری فضا کو جنم دیا ہے، اس کے بعد یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی سماج دنیا سے کٹ کر جیے اور کسی دوسرے خطے میں آنے والی فکری اور تہذیبی تبدیلیوں سے اثر قبول نہ کرے۔ مشرقِ وسطیٰ کو مذہب اور قومیت جیسے عنوانات کے تحت اس جمہوری انقلاب سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش، ایک وقت تک کسی نہ کسی طرح کامیاب رہی۔ گزشتہ چند سال میں پیش آنے والے واقعات کی گواہی ہے کہ اب یہ ممکن نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جمہوریت مخالف قوتیں اب پورے زور کے ساتھ آخری معرکہ لڑنا چاہتی ہیں۔ اس جنگ میں ان کے پاس ایک ہی ہتھیار ہے۔۔۔۔۔دولت۔
اس تبدیلی کا آغاز ایران سے ہوا۔ شہنشاہیت کے خلاف ایک جمہوری انقلاب برپا ہوا جس کی قیادت ایران کے مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں تھی مگر وہ یہ بھول گئے کہ بادشاہت کے خلاف انقلاب، دراصل جبر کے خلاف انسانی نفرت کا اظہار تھا۔ ایران کو یہ بات ذرا دیر سے سمجھ میں آئی لیکن کسی حد تک آ گئی، اب ایران انسانی آزادی کے اگلے مر حلے میں داخل ہو گیا ہے۔ آج وہ انسانی فطرت اور عالمی معاشرت سے زیادہ ہم آ ہنگ ہونے لگا ہے۔ تیونیسیا اور مصر میں بھی اس تبدیلی نے دستک دی، وہاں لوگوں نے اس کے لیے اپنے دروازے کھول دیے جیسے وہ پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ تیونیسیا کے راہنما راشدالغنوشی اخوان کے مقابلے میں زیادہ حکیم ثابت ہوئے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ تیونیسیا میں اس مرحلے پر اپنے منشور پر اصرار ممکن نہیں ہے تو انہوں نے جانا کہ سب سے پہلے جمہوریت کو مستحکم کر نے کی ضرورت ہے تا کہ سابق جبر پھر نہ لوٹے۔ جمہوریت رہے گی تو اپنی بات کہنے کی اجازت ہو گی اور اس کے ساتھ وہ عالمی رد عمل سے بھی محفوظ رہیں گے۔ انہوں نے اپنے منشور کے برخلاف ایک سیکولر آئین کو تسلیم کر لیا۔ یوں وہ موجود تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو گئے۔ مصر میں اخوان کو مو قع ملا جو انہوں نے گنوا دیا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد 'ٹائم‘ نے 'سرورق کی کہانی‘ کے طور پر محمد مرسی کا انٹرویو شائع کیا اور امریکی قوم کے ساتھ دنیا کو یہ بتایا کہ کیلیفورنیا کی یونیورسٹی کا فارغ التحصیل صدر کیسے عالمی تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہو گا۔ امریکہ نے اخوان کو اپنی حمایت کا یقین دلایا اور اپنے سابق اتحادیوںکو ناراض کیا۔ اخوان نے تیونیسیا کی 'النہضہ‘ کے برخلاف اپنے منشور پر عمل درآ مد کو ترجیح دی۔ عالمی حالات اور سماج کے عمومی مزاج کو پیش نظر نہیں رکھا۔ اس سے ان کے مخالفین کو واپس آنے کا موقع مل گیا جو کسی اخلاقی ضابطے کے پابند نہیں تھے۔ دوسری طرف خطے میں آمریت اور بادشاہت کی علم بردار قوتوں کے کان بھی کھڑے ہو گئے۔ پہلے سے موجود یہ خطرہ مزید گہرا ہو گیا کہ جمہوریت اگر اسی طرح آگے بڑھتی رہی تو ایک دن دوسری بادشاہتیں بھی اس کی زد میں ہوں گی۔ ڈالر پھر متحرک کیے گئے اور اخوان بلکہ جمہوریت کے خلاف، جنرل سیسی کو پیش کر دیے گئے۔
دولت کی تقسیم کا دائرہ یہیں تک محدود نہیں رہا۔ لبنان کو تین بلین ڈالر ملے تا کہ وہ فرانس سے اسلحہ خرید سکے۔ یہ امداد لبنان کے دفاعی بجٹ سے دگنی ہے۔ یوں فرانس اور لبنان دونوںکو خوش کیا گیا۔ بحرین میں بھی ایسے ہی سرمایہ نچھاورکیا گیا تا کہ وہاں اٹھنے والی جمہوری تحریک کوکچل دیا جائے۔ یہ ساری سرمایہ کاری اس لیے ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی جمہوری تبدیلی کو روکا جائے۔ یہ انسانی فطرت سے لڑنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کو ناکام ہونا ہے لیکن نہیں معلوم کہ آخری معرکے تک وہ کتنی انسانی جانیں لے لے اور کیسے کیسے المیوں کو جنم دے۔ میرا خیال ہے، اس سے بچنے کی ایک صورت موجود ہے، جمہوریت کا برطانوی ماڈل۔ وہاں بادشاہ مو جود ہے جسے پُرتعیش زندگی گزارنے کے لیے ریاست تمام وسائل فراہم کر رہی ہے۔ جاپان، ملائشیا اور دوسرے بہت سے ممالک میں بھی، جمہوریت کے باوجود
بادشاہت کا ادارہ پایا جاتا ہے۔ اگر مشرقِ وسطیٰ میں بھی اس ماڈل کو اپنا لیا جا ئے تو آنے والے دنوں میں ممکنہ تصادم سے بچا جا سکتا ہے۔ پھر یہ بھی لازم نہیں کہ اس کو اسی صورت میں قبول کر لیا جائے۔ اس میں مقامی حالات کی رعایت سے تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بادشاہ کو زیادہ اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔ بعض عرب ممالک میں آج بھی پارلیمنٹ موجود ہے، اسے عوامی رائے عامہ سے وجود میں آنے کاحق دیا جائے۔
مشرق وسطیٰ کے اس تصادم میں پاکستان کیا کرے؟ بین الاقوامی تعلقات کے باب میں دو پیراڈائم ہیں۔ ایک امت ِمسلمہ کا اور دوسرا قومی ریاست کا۔ امتِ مسلمہ میں بہت سے مسلم ممالک شامل ہیں اس لیے امت کا ماڈل تو ناقابلِ عمل ہے۔ سب کو بیک وقت خوش نہیں رکھا جا سکتا۔ اب صرف قومی ریاست کا پیراڈائم ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے مادی اور دنیادی مفادات کا تقاضا کیا ہے؟ بعض اوقات غیرجانبدار رہنا بھی مفاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک کا انتخاب ناگزیر ہو تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ کون پاکستان کے ساتھ زیادہ مخلص ہے؟ کس نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا؟ اس سوال تک پہنچتے پہنچتے بحث دولت کی تقسیم کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ڈالر اگر پاکستان میں فساد لے کر آئیں تو ان سے لازماً گریز کر نا چاہیے۔ ڈالر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی بہت آئے لیکن وہ اس ملک میں فساد کا ایسا بیج بو گئے کہ اُن سے کئی گنا زیادہ خرچ کرنے کے باوجود، ہم اُس کے مضر اثرات سے نہیں نکل سکے۔