''متجدد، مغرب زدہ...‘‘ یہ حوصلہ علما اور اہلِ دانش ہی کا ہے کہ وہ اختلافِ رائے رکھنے والوں کو ان اسمائے صفت کے ساتھ پکاریں۔ ایک عامی تو ڈر جاتا ہے کہ اگر یہ خلافِ واقعہ ہوا تو اللہ کو کیا جواب دے گا؟ الفاظ اس کی نوکِ قلم سے بھی الجھتے ہیں لیکن وہ انہیں سختی سے جھٹک دیتا ہے کہ اسے پوست سے نہیںِ مغز سے مطلب ہے۔ مناظرے سے نہیں، مکالمے سے ہے۔ اسلوب سے نہیں، استدلال سے ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ایوانوں سے یہ آواز اٹھی کہ عائلی قوانین خلافِ شریعت ہیں۔ اس کی صدائے بازگشت اس کالم میں بھی سنی گئی۔ میں نے چند اصولی باتیں لکھیں۔
1: اختلافی امور میں یہ حق نظمِ اجتماعی کا ہے کہ وہ جس تعبیر کو چاہے، اختیار کر لے۔
2: کسی معاملے میں اگر اہلِ علم میں ایک سے زیادہ آرا ہوں تو یہ پھر معاملہ ترجیح اور غیر ترجیح کا ہے، اس کے شرعی اور غیر شرعی ہو نے کا نہیں۔
3: اگر اللہ نے کسی معاملے میںکوئی شرط عائد کی ہے تو کوئی دوسرا اسے ختم نہیں کرسکتا؛ تاہم نظمِ اجتماعی کا فیصلہ بدلا جا سکتا ہے، اگر مسلمانوں کا دوسرا نظم اجتماعی اس سے مختلف رائے رکھتا ہو۔
4: دین کے ہر حکم میں یہ بات خود بخود شامل ہے کہ اس کا نفاذکرتے وقت زمان اور مکان کی رعایت ملحوظ رکھی جائے گی۔ سیدنا عمر فاروقؓ اور دوسرے خلفائے راشدین نے اسی اصول کے تحت فیصلے دیے۔ اسے شریعت میں تبدیلی نہیں کہا جا سکتا۔
عنایت ہو گی اگر کوئی یہ نشاندہی کر سکے کہ اِن میں 'تجدد‘ کہاں ہے اور 'مغرب زدگی‘ کہاں؟ واقعہ یہ ہے کہ یہ سب باتیں ہماری علمی تاریخ میں کبھی اجنبی نہیں رہیں۔ خود رسالت مآبﷺ نے اس بات کی تربیت فرمائی تھی۔ آج ناقدین جس روایت کا حوالہ دے رہے ہیں، وہی اس موقف کے حق میں ایک شہادت ہے۔ رسولوں اور انبیاء کا منصب یہ ہے کہ جو بات اللہ کی طرف سے ان تک پہنچے، اس کا ابلاغ کریں۔ رسالت کی شان سے یہ فرو تر بات ہے کہ وہ اللہ کی بات میں کوئی ترمیم کرے۔ رسالت مآبﷺ کے باب میں یہ بات خود قرآن مجید نے واضح کی (المائدہ 5:67)۔ جب قرآن مجید نے بتا دیا کہ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے تو آپﷺ نے اس کے اطلاق میں کسی استثنا کو قبول نہیں کیا۔ اس معاملے میں تو آپ کے موقف کی شدت کا عالم یہ تھا کہ مشہور روایت کے مطابق فرمایا: اگر فاطمہ بنتِ محمدﷺ بھی اس کی زد میں ہوں گی تو بھی حد نافذ ہو گی۔ دوسری طرف آپﷺ نے قحط میں اس سزا کو موقوف کر دیا۔ یوں زبانِ حال سے واضح فرما دیا کہ شریعت کے نفاذ میں حالات کی رعایت پیشِ نظر رہے گی۔ سیدنا عمرؓ اور خلفائے راشدینؓ نے یہ بات رسول اللہﷺ سے سیکھی اور اس پر عمل کیا۔ سیدنا عمرؓ کے نظائر دو اسباب سے زیادہ پیش کیے جاتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپؓ کا دورِ اقتدار سیدنا ابوبکر ؓ کے مقابلے میں کہیں طویل تھا۔ دوسرا یہ کہ یہ اسلامی ریاست کے ارتقا اور استحکام کا دور تھا۔ پھر یہ کہ مقاصدِ شریعت کا جیسا فہم آپ کو حاصل تھا، کم لوگوں کو ملا تھا۔ علامہ اقبال نے اسی سبب سے انہیں امت میں حریّتِ فکر کی پہلی آواز قرار دیا۔ مصلحت اور زمان و مکان کی روایت کو ہماری فقہی تاریخ میں مصالحِ مرسلہ اور استحسان کے عنوانات کے تحت بیان کیا جاتاہے۔ مصالح مرسلہ کا مفہوم ہے: ''وہ عمومی مصلحتیں، جن کو ہماری صوابدید پر چھوڑ ا گیا ہے‘‘۔ استحسان سے مراد ہے: ''ایک معاملہ میں بظاہر قیاس تو ایک حکم لگاتا ہے مگر عظیم تر دینی مصلحتیں ایک دوسرے حکم کا تقاضا کرتی ہیں، اس لیے پہلے حکم پر دوسرے کو ترجیح دی جائے‘‘۔ ہمارے دینی لٹریچر میں 'مقاصدِ شریعت‘ کا مستقل عنوان ہے۔ امام شاطبی نے اس پر تفصیل سے لکھا۔ مولانا مودودی کے الفاظ میں ان امور پر ایسی نفیس فقہی بحث کسی دوسرے نے نہیں کی۔ میں اس باب میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کتاب ''مقاصد شریعت‘‘ کا ذکر کسی دوسرے کالم کے لیے اٹھا رکھتا ہوں کہ یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس بحث میں مو لانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا تذکرہ ہوا۔ نظم ِاجتماعی کے باب میں ان کی رائے بھی یہی ہے۔ میں نے ''اسلامی ریاست‘‘ سے ان کا ایک جملہ نقل کیا تھا۔ ''تفہیمات‘‘ حصہ سوم میں
انہوں نے اس موضوع پر تفصیل سے اظہارِ خیال کیا ہے۔ انہوں نے معاملات میں قانون سازی کے چار شعبے بیان کیے ہیں۔ پہلا شعبہ 'تعبیر‘ ہے۔ اس کی تعریف وہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں: ''جن معاملات میں شارع نے امر یا نہی کی تصریح کی ہے، ان کے بارے میں نص کے معنی یا ان کا منشا متعین کرنا‘‘۔ مو لانا کے نزدیک دیگر تین شعبے قیاس، استنباط و اجتہاد اور مصالحِ مرسلہ و استحسان ہیں۔ اس بحث کو وہ ان الفاظ میں سمیٹتے ہیں: '' قانون بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مملکت اسلامیہ کے اربابِ حل و عقد کی شوریٰ ہو اور وہ اپنے اجماع سے یا جمہوری فیصلے (یعنی اکثریت کے فیصلے) سے ایک تعبیر، ایک قیاس، ایک استنباط و اجتہاد یا ایک استحسان و مصلحتِ مرسلہ کو اختیار کر کے قانو ن کی شکل دے دیں۔ خلافتِ راشدہ میں قانون سازی کی یہی شکل تھی‘‘(صفحہ: 39) میں نے اپنے کالم میں اس سے مختلف بات نہیں لکھی۔ مولانا مودودی کو ناقدین نے بہت سے ''اعزازات‘‘ سے نوازا لیکن کوئی انہیں متجدد یا مغرب زدہ نہیں کہہ سکا۔ معلوم نہیں لوگوں نے ان کے یہ مضامین پڑھے یا نہیں۔ اس سے پہلے اقبال بھی یہی بات کہہ چکے۔
علما کے پاس یہ لائسنس بھی ہے کہ وہ دوسروں کے منہ میں اپنی بات ڈالیں اور پھر اس کو مشقِ تنقید بنائیں۔ اس ساری بحث میں کہیں اس سوال کا گزر نہیں کہ رسالت مآبﷺ کے فیصلے ایک وقت کے لیے تھے یا دائمی۔ سنت‘ دین کا مستقل اور تاقیامت ماخذ ہے۔ بات تو مسلمانوں کے نظم ِاجتماعی کی ہے۔ اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مختلف تعبیرات میں سے کسی ایک تعبیر کو اختیار کرے۔ جس پارلیمنٹ کو لوگ 'کرپٹ اور لاعلم‘ کہتے ہیں، اس نے آج تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیا جو شریعت کے خلاف ہو۔ 1973ء کا آئین اسی 'کرپٹ اور لاعلم‘ پارلیمنٹ کا دیا ہوا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت بھی انہی 'اوصاف‘ کے حاملین کی عطا ہے۔ آئین کی دفعہ 62،63 بھی اسی آئین کا حصہ ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ خلطِ مبحث کے شوقین یہاں یہ نکتہ اٹھائیں گے کہ ان دفعات پر عمل نہیں ہوا۔ یہ بحث کا ایک دوسرا دائرہ ہے کہ کسی ریاست میں قانون نتیجہ خیز کیسے ہوتا ہے۔ میں نے بارہا اس پر لکھا ہے۔ اس وقت بات ہو رہی ہے قانون سازی کی۔ اس حوالے سے اگر اس پارلیمنٹ نے کوئی کوتاہی کی تو اس پر گفتگو ہونی چاہیے۔ اس واہمے (myth) پر میں الگ سے لکھوں گا کہ نظر یاتی کونسل نے اتنے قوانین کو غیراسلامی قرار دیا اور پارلیمنٹ اسے زیرِ بحث نہیں لائی۔ زیادہ تر یہ قوانین ایسے ہی 'غیرشرعی‘ ہیں جیسے دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت غیر شرعی ہے۔ رہی بات کسی سیاسی رہنما کے امیرالمومنین بننے کی تو جمہوریت نے اس کا امکان ختم کر دیا ہے۔ وہی جمہوریت جو محترم ناقدین کے مسلسل زیرِ عتاب رہتی ہے۔
یہ علمی مباحث ہیں جن کا مقصد ذہنی ارتقا ہے۔ یہ مناظرہ نہیں، مکالمہ ہے۔ مکالمہ باہمی احترام سکھاتا اور ا نسانی سوچ کو مہمیز دیتا ہے۔ مکالمے میں یہ نہیںہوتا کہ مو لانا تقی امینی، 'مولوی تقی امین‘ بن جائیں اور مولانا حنیف ندوی کے نام سے 'مولانا‘ کا سابقہ ہٹا دیا جائے۔ افسوس ہے کہ لوگ اسلاف کا نام تو لیتے ہیں لیکن ان سے اختلاف کے آداب نہیں سیکھتے۔