علم ایک بہتا دریا ہے ، یہ زمان و مکاں کا اسیر نہیں۔ یہ جس وادی سے گزرتا ہے، اس کے رنگ و بو سے اثر قبول کرتا ہے۔ رنگ و نکہت کا یہ اجتماع، وقت کے سنگلاخ پتھروں سے ٹکراتا ہے اور یوں کھرا اور کھوٹا الگ ہو جاتا ہے۔ یہ سفر صدیوں سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کامیاب وہی ہے جواس کا ہم سفر ہوا۔ علم کی علاقائی تقسیم یا اس سے تعصب کا حاصل خودشکستگی کے سوا کچھ نہیں۔
علم کا یہ دریا یونان سے گزرا تو اس نے وہاں کا اثر قبول کیا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہاں سقراط بستا ہو اور علم اس سے سیراب نہ ہو، افلاطون موجود ہو اور علم کا دریا اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے بہتا رہے۔ ارسطو مجلس آرا ہو اور منطق وادب کی لہریں اسے چھوئے بغیرگزر جائیں۔ علم کا مزاج یہ نہیں۔ یہ یونان سے ہوتاہوا وادیٔ فلسطین میں آیا تو مسیحی روایت سے آشنا ہوا۔ یوں اس نے آسمانی الہام سے اثر قبول کیا۔ روم کی سلطنت نے مسیحی مذہب اختیارکیا تو علم کی لہروںنے مسیحیت کے خدوخال کو اپنا لیا۔اس سفر کا ایک مرحلہ وہ ہے جب سرزمینِ عرب میں علم کا ایک مہتاب طلوع ہوا۔ آسمانی الہام کی یہ صدا جاہلیت کے اندھیروں میں نور بن کر گونجی تو ایک عالم روشن ہوگیا۔ ایک تہذیب وجود میں آئی جو علم کو مومن کی گم شدہ میراث قرار دیتی اور یوں علم کو مشرق و مغرب کی قید سے آزاد کر دیتی ہے۔ عہدِ رسالت اور خلافتِ راشدہ میں الہامی علم کو محفوظ کرنے کے لیے بہت سے علوم کی بنا رکھی گئی۔ قرآن مجید کی حفاظت تو خیر اﷲ تعالیٰ کا اپنا فیصلہ تھا، اس لیے اسے خود رسالت مآبﷺ نے اﷲ کے حکم سے ایک ترتیب کے ساتھ مدون کیا اور مکتوبی صورت میں امت کے حوالے کر دیا۔ صحابہؓ نے پھر اسے ان تک پہنچایا جو بے خبر تھے۔اس کے ساتھ علمِ حدیث اور علم فقہ کی بنیاد رکھی۔ عربی ادب کو محفوظ کیا کہ یہ ام القریٰ کی اس لسانی روایت کا نمونہ تھا، قرآن مجید جس میں نازل ہوا۔
علوم کی بنیادیں قائم ہوئیں تو زمین پر پھیلی علمی میراث کواپنے آغوش میں لینے کا فیصلہ ہوا۔ سیدنا معاویہؓ کے دربار میں ایک مسیحی طبیب تھاابنِ آسال ، اس نے چند یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا۔اس میں کمال کیا تو سیدنا معاویہؓ کے پوتے خالد بن یزید نے۔ شبلی کے نزدیک وہ حکیمِِ بنو امیہ کے لقب کا مستحق تھا جس نے مسلمانوں کی علمی روایت کو یونانی کتب کے ترجمہ سے مالا مال کر دیا۔ عباسی آئے تو منصور نے قیصرِ روم کو خط لکھا اور فلسفہ کی کتب منگوا ئیں۔ بات مامون تک پہنچی تو بغدادعلم کا مرکز بن چکا تھا۔ مامون نے قیصرِ روم کو خط لکھاکہ ارسطو کی تمام کتب بغداد پہنچا دی جائیں۔ یہ وہ عہد تھا جب فلسفہ و حکمت روم میں گمنام ہو چکے تھے۔ بہت تلاش کے بعد ایک راہب ملا جس نے بتایا کہ یونان میں ایک مکان ہے جو قسطنطین کے دور سے بند پڑا ہے ، ہر آنے والا قفل پر قفل لگاتا گیا۔ خوف یہ تھا کہ فلسفہ آزاد ہوا تو مسیحیت اس میں بہہ جائے گی ۔ مامون کے ہم عصر قیصرِ روم نے ان کتابوں کو پانچ اونٹوں پر لادا اور بغداد روانہ کر دیا۔ اپنے تئیں اس نے مسیحیت کو بچا لیا۔ علم کے دریا نے اب بغداد کی وادیوں کا رخ کر لیا تھا اور مدتوں یہاں بہتا رہا۔ یہی وہ عہد ہے جب عالمی سیاست و قوت کا مرکز بغداد تھا، اسلامی ریاست کا دارالخلافہ۔ اہلِ یورپ اگر ارسطو اور فلسفۂ یونان سے واقف ہوئے تو ارسطو کے عربی تراجم کی بدولت ۔ مغرب کے منصف اہلِ علم آج بھی اس کے معترف ہیں۔ جب عرب میں جہالت کے جزیرے آباد ہونے لگے تو اس دریا نے یورپ کا رخ کیا۔ صدیوں سے اب یہ یورپ میں بہہ رہا ہے۔ اس دریا سے تاریخ کے ہر عہد میں ندی نالے نکلتے رہے۔ انہوں نے دوسرے علاقوں کا رخ بھی کیا۔ان خطوں میں اگر نمی ہے تو انہی کے سبب ؛ تاہم علم کے اس دریا کا مرکزی دھارمدت سے یورپ ہی سے گزر رہاہے۔۔۔۔۔ آبِ کبیر کی طرح، جس کے کنارے اقبال نے کسی اور زمانے کا خواب دیکھاتھا، ہنوز جس کا ہمیں انتظار ہے۔
علم کا دریا، دو لہروں سے سیراب ہوا ہے۔ ایک وہ جسے الہامی روایت کہتے ہیں ۔ انبیاء ؑکا علم جس کا نقطۂ عروج و اختتام رسالت مآبﷺ کی ذات والا صفات ہے۔ علم کی دوسری لہر وہ ہے جو اس الہام سے بے نیاز ہوکر پروان چڑھی۔ اس نے انسانی عقل و خرد پر اپنی بنیاد رکھی۔ اس دوسری روایت سے تسخیرِ کائنات کے دروازے کھلے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز کمالات سامنے آئے۔ نامعلوم کی طرف انسانی سفر تیزی سے جاری ہے اور معلوم کی دنیا وسیع ہو رہی ہے۔یہ عقل و خرد کے کرشمے ہیں جس کا اعتراف ہم پر واجب ہے۔ ہم زبانِ قال سے اگر گریز کرنا چاہیں تو ہمارا ایک ایک عضو زبانِ حال سے اس کا اعتراف کر رہا ہے۔ میرے پاؤں کے نیچے سرکتی گاڑی، میرے ہاتھ میں بولتا فون، ہوائوں کی سیر کراتے جہاز، فاصلوں کو مٹھی میں بند کرنے والا انٹرنیٹ۔۔۔ یہ سب کیا ہیں؟ سائنس اور عقل کی خدمات کا اعتراف اور زبانِ حال سے ان کا شکر۔
انسانی عقل کی یہ ایک خدمت ہے۔ اس کی دوسری خدمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں پر الہام کا دروازہ کھولا۔اس نے انسانوں کو یہ بتایا کہ چند سوالات ایسے ہیں جن کا جواب انسانی عقل کے بس میں نہیں۔ عقل طبیعیات کی دنیا میں سفر کرتی ہے تاہم وہ یہ ضرور جانتی ہے کہ ایک مابعدالطبیعیاتی دنیا بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ وہ اس عالم کو مانتی تو ہے لیکن یہ نہیں جانتی کہ یہ کیسا ہے؟ وہ جو کچھ کہتی ہے محض گمان ہے۔انسان مرنے کے بعد کہاں جا تا ہے؟موت کیا ہے؟ کیا اس دنیا سے ماورا بھی کوئی دنیا ہے؟ اس مر حلے پر الہام بھٹکتی عقل کا ہاتھ تھامتا اوراسے انبیاء ؑ کے ہا تھ میں دے دیتا ہے۔ انبیاء ؑجو الہام کا واحد اور مستند ماخذ ہیں۔ مسلمان دنیا کا واحد خوش قسمت وجود ہے جو علم کے اس سفر میں، اس کا ہم سفر ہے۔ اُس کا سفینہ اس دریا میں تیرتا ہے۔ یہ مشرق میں جائے تو اس کے ساتھ، مغرب میں بہے تو اس کا ہم سفر۔ یہ عقل کی وادی سے گزرے تو آسودہ اورالہام کی دنیا میں قدم رکھے تو آسودہ تر۔ تعصب نام کو نہیں ، نہ مشرق سے نہ مغرب سے۔
میں نے مسلمان کا ذکر کیا ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اس الہام سے وابستہ ہو جس کا ماخذ اللہ کے آ خری رسول محمدﷺ ہیں۔ علم کا دریا جب کسی ایسی وادی کا رخ کر تا ہے جہاں جہالت ، علم کے پردے میں ، اس کے پانی کو آ لودہ کر تی ہے تو یہ الہام اس کو متنبہ کر دیتا ہے۔ یوں وہ اس سے اثر قبول کیے بغیراگلی وادی کا رخ کر تا ہے۔کیا اچھی بات لکھی ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے۔ مسلمانوں نے یونانیوں سے اکتسابِ علم کیا توخود کو فلسفہ وحکمت تک محدود رکھا اوران کے ادب سے گریز کیا جو دیوی، دیوتاؤں کے قصوں سے معمور تھا۔ یہ اسی الہام سے وابستگی کے سبب ممکن ہوا جس کا ماخذ رسالت مآب ﷺ کی ذاتِ والا صفات ہے۔ یہ چراغ ہاتھ میں ہوتو علم سے تعصب کیسا، مشرق و مغرب کاامتیاز کیوں؟ پھر تو یہ مومن کی گم شدہ میراث ہے۔