سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ ایک سیاسی ذہن کے لیے جوآج ناممکن ہے، عالمِ امکان میں وہ ایک حقیقت ہے۔ سیاسی سوچ رکھنے والا ناممکن کی جستجو میں رہتا ہے۔ ناکامی اورکامرانی دونوں اس کے جلو میں سفر کرتی ہیں۔ جمشید دستی صاحب آج سوچ سکتے ہیں کہ کل وہ ملک کے وزیر اعظم ہوں۔ فوج میںآج بطور لیفٹیننٹ اپنی زندگی کا آ غازکر نے والا اگر سیاسی ذہن رکھتا ہے توکل ملک کا صدر بھی ہوسکتا ہے۔ ہمیں تو یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری تاریخ ہی اس باب میں برہانِ قاطع ہے۔ میں بھی آنے والے دنوںکے بارے میں کچھ فرض کر رہا ہوں۔ یہ تجزیہ ہے جس کا انحصار معلومات پر نہیں، مشاہدے اور تجزیے پر ہے۔ اس کے ساتھ،اس عمومی اصول پر جس کا میں نے ذکر کیا۔۔۔ یہی کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔
عمران خان اور علامہ طاہرالقادری میدانِ عمل میں ہیں۔ دیکھیے اور داد دیجیے کہ کون کس کا ہم رکاب ہے۔ عمران خان نے بشارت دی ہے کہ جناب شیخ رشید بھی اس سفر میں ان کے ساتھ ہوں گے۔ نور علیٰ نور۔ بظاہر مقاصد مختلف ہیں لیکن ہدف ایک ہے۔۔۔موجودہ سیاسی حکومت کی اخلاقی ساکھ کا خاتمہ۔ اب ایجنڈا یہ نہیں کہ حکومت کی کارکردگی کو جانچا جائے جو اپوزیشن کا ہو نا چاہیے۔ ایجنڈا یہ ثابت کرناہے کہ اس سیاسی نظام کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں ، ان کی غائبانہ مدد یوں ہوئی کہ حب الوطنی کا ایک آ موزہ نسخہ بھی شاملِ حال ہوگیا۔ اس نعرے کے ساتھ حسب روایت بعض مذہبی تنظیمیں بھی میدان میں نکل آئی ہیں کہ ان کے خیال میںوطن کی محبت کے جملہ حقوق ان کے نام خاص ہیں۔ جب سیاسی ایجنڈا اخلاقی ساکھ اورحب الوطنی کے گر دگھوم رہا ہو توکون کوتاہ نظر ہے جومعاشی ترقی اور سماجی بہتری کے تناظر میں سوچے گا ؟ آخر قومی غیرت اورحمیت بھی کوئی چیز ہے۔ عمران خان کی بطور فرد اخلاقی ساکھ میں کلام نہیں، لیکن وہ ایک سیاست دان بھی ہیں۔ اگر وہ سیاسی کامیابی کے لیے ہرطرح کے لوگ اپنی صفوں میں جمع کر سکتے ہیں توواقعات سے اپنے مطلب کا مفہوم کیوں اخذ نہیں کریں گے؟ اگر حالات سے وہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھا سکتے ہیں توپھرگریزکیوںکریںگے۔
عمران خان کے لیے امیدکا یہ چراغ کیسے روشن ہوا ۔ اس کے لیے موجودہ صورت حال پر ایک نظر ڈالیے۔ ایک ابلاغی ادارے اور ایک حساس ادارے کی آویزش میں حکومت کہاں کھڑی ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کر نا مشکل نہیں۔ اگر اسے ایک 'تھیسس‘ مان لیا جائے تو یقیناً اس کا ایک 'اینٹی تھیسس‘ بھی ہے۔ اس کے خدو خال میں قومی حمیت کا وہ تصور غالب ہے جو فوج کی غیر مشروط حمایت سے مشروط ہے۔اس کے مطابق حب الوطنی کا ایک ناگزیر تقاضا یہ ہے کہ فوج یا اس کے کسی ذیلی ادارے کو علانیہ تنقیدکا نشا نہ نہیں بنا نا چاہیے۔ عوام میں اسی تصورکو عمومی پذیرائی حاصل ہے۔ عمران خان اب اس 'اینٹی تھیسس ‘ کے نمائندے بن کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ وہ شاید یہ خیال کرتے ہیں کہ اس طرح وہ قومی سلامتی کے روایتی تصورکے گرد عوام کو جمع کر لیں گے۔ایک حقیقت پسند سیاست دان یہی کرے گا۔ اب ایک طرف وہ انتخابی دھاندلی کی بات کریں گے اور دوسری طرف فوج کی حمایت ۔ میں اس پس منظر میں ایک اور امکان کو بھی رد نہیں کر سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ نے کئی سال تک حکومتیں بنانے اوربگاڑنے سے خودکو الگ رکھا ہے اورامورِ سیاست کو اہلِ سیاست ہی کا کام سمجھاہے، الا یہ کہ زرداری صاحب کی طرح کوئی رضا کارانہ طور پراپنے حق سے دست بردارہو جائے۔اس عرصے میں میڈیا کی آزادی نے بہت سے لوگوں کو زچ کیااوران میں فوج بھی شامل ہے۔ میڈیا کی معرفت بھارت کے سیاسی موقف نے پاکستان کے صحافتی حلقوں میں جگہ بنائی اوریہ تاثر قائم کر نے کی کوشش ہوئی کہ امن کی راہ میںاگرکوئی رکاوٹ ہے تو وہ ہماری ایجنسیاں ہیں۔ اس بحث میں ' را ‘ کا بہت کم ذکر ہوا حالانکہ خطے بالخصوص بلوچستان کے امن کوبرباد کرنے میں اس کا کردارواضح ہے۔ میڈیا میں جاری یہ بحث عدم توازن کا شکار ہوئی اور یہ فضا ہماری فوج اور قوم کے ایک بڑے طبقے کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتی تھی۔ میڈیا ظاہر ہے کہ فوج کے تابع نہیں ہے۔ یہ حکومتوں کا کام تھا اورانہوں نے اسے آزادی رائے کے نام پر گوارا کیا۔ اس مہم کا نقطہ عروج ایک چینل کی طویل غیر ذمہ دارانہ نشریات تھیں۔ یہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ میرے نزدیک اس پس منظر میں ایک ریاستی ادارے کے اندراس سوچ کا غالب ہو نا غیر متوقع نہیں ہے کہ آزادیٔ رائے کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ اب میڈیاکے ہاتھ ریاستی ادارے کے گریبان تک جاپہنچے ہیں، اس لیے اس سلسلے کو یہیںپہ روکنا ہوگا اور یہ کہ ایجنسیوں کے سیاسی کردارکو ایک حد تک بحال ہو نا چاہیے۔ اگر یہ سیاسی کردار بحال ہوتا ہے تومجھے کوئی حیرت نہیں ہوگی کہ مستقبل میں اس کی کوکھ سے کوئی نئی 'آئی جے آئی‘ برآمد ہو جائے۔ اگر اس مفروضے میں کوئی جان ہے تو عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے سیاسی تحرک اور جماعت اسلامی سمیت مذہبی گروہوں کی ہم قدمی کوایک مفہوم دیا جا سکتا ہے۔
آئی جے آئی تو ایک انتخابی اتحاد تھا توکیایہ کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات مستقبل قریب کا معاملہ ہے؟ میرا خیال ہے ایسا نہیں ہو گا۔ مڈ ٹرم انتخابات کے لیے عوام تیار ہیں اور نہ سیاسی جماعتیں۔ اس کاکوئی اخلاقی اورآئینی جواز مو جودہے نہ تلاش کر نا ممکن ہے۔ عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ مڈٹرم الیکشن کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک عوامی تحریک اٹھائی جائے اور پھر اسے 'ان ہاؤس ‘ تبدیلی کے مطالبے پر منتج کیا جائے۔اس کے نتیجے میں ن لیگ کی صفوںسے کوئی رہنما نمودار ہو جسے عمران خان کی بھرپور حمایت میسر ہو اوراسے پارلیمنٹ کی باقی مدت تک وزیراعظم بنا دیا جائے۔ وزارتِ عظمیٰ کی خواہش تو بہت سے دلوں میں مچل رہی ہے، آج سے نہیں، مدت سے۔ اس کے بعد اگلے انتخابات میں 'آئی جے آئی‘ بروئے کار آئے اورعمران خان وزیر اعظم بن جائیں۔ اس کا ایک نتیجہ واضح ہے، وہ لوگ سیاسی منظر سے ہٹ جائیں یا غیر مو ثر ہو جائیں جو اس وقت ' تھیسس ‘ کی نمائندگی کر رہے ہیں، اینٹی تھیسس ہی پھر تھیسس بن جائے۔ آزادی رائے خود بخود اپنے لیے حدود تلاش کر لے گی۔
ضروری نہیں کہ سیاسی منظر نامہ اسی طرح تشکیل پائے جس طرح اس کالم میںفرض کیا گیا ہے۔ مفروضہ ایک اور بھی ہو سکتا ہے۔ جمہوریت کے عمل کو ترقی معکوس کی نذرکرنا شایدکسی کے لیے ممکن نہ ہو۔ حدود میں رہنے پراصرا رکیا جاسکتا ہے لیکن اس میں ایک مشکل ہے۔ یہ مطالبہ یک طرفہ نہیںہوسکتا۔اب حدود میں رہنا ہمارا کلچر نہیں ہے ۔ طاقت اگر اعلیٰ اخلاقی تربیت سے محروم ہو تو اسے حد میں نہیں رکھا جا سکتا۔ تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے۔ اس وقت دنیا میں فساد اسی وجہ سے ہے کہ امریکہ سے لے کر ہمارے پٹواری تک،کوئی اپنی حد میں رہنے کے لیے تیار نہیں۔ خدائی تو کسی کو بھی زیبا نہیں۔ تاریخ یہ ہے کہ اس کے باوصف سب اسی خواہش میں جیتے ہیں۔ اسی بات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں ایک نئے سیاسی منظر نامے کے خد وخال فرض کر رہا ہوں۔
سیاست امکانات کا کھیل ہے۔اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔ میں نے جو کچھ فرض کیا، بہت ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو ، لیکن اگر ایسا ہوجائے تو اس پر مجھے حیرت نہیں ہوگی ، آپ کو بھی نہیں ہو نی چاہیے۔