ڈاکٹر بابر اعوان کا لائسنس بحال ہو گیا۔
گواہیاں اسی طرح پھیلتی ہیں۔ صبر اسی طرح نتیجہ خیز ہوتا ہے۔رزق کے معاملات عالم کے پروردگار نے اسی لیے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں۔ اگر یہ انسانوں کے حوالے کر دیے جائیں تو انسان، انسانوں کے ہاتھ کا نوالہ چھین لیں۔ بابر اعوان صبح سے شام تک قانون کی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ اپنی خداداد ذہانت کو بروئے کار لاتے ہیں۔یوں وہ سیاست و معیشت کے معاملات رواں رکھتے ہیں۔ عدل کے منصب پر فائز ایک شخصیت نے چاہا کہ ان کے اس ہنر کو چھین لیا جائے۔ قدرت کا فیصلہ مگر کچھ اور تھا۔ آج ''منصف‘‘ کا دامن لوگوں کے ہاتھ میں ہے اور الزامات سے آلودہ۔ بابر اعوان سرخرو ہیں اور کہہ سکتے ہیں۔ع
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
انصاف کا معاملہ مذہب سے جڑا ہواہے۔اس کی بنیاد خوفِ خداہے۔ اس سماج میں مذہب سب سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے،ان دنوں تو بطورِ خاص۔دین کی حمیت کے لیے لوگ جان دینے پر آمادہ ہیں۔ آج کل معلوم ہوتا ہے کہ جذبہ ایمانی اپنے جنون پر ہے۔ میں اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے یہ چاہتا ہوں کہ اہل ایمان کو دین کی بعض تعلیمات کی طرف توجہ دلاؤں۔ وہ دین جس کی محبت میںلوگ سڑکوں پر ہیں، وہ ہم سے کیا مطالبہ کرتا ہے۔اس کے احکام کیا ہیں۔ قرآن مجید کیا کہتا ہے اور اﷲ کے رسولﷺ نے کیا ارشاد فرمایا۔
٭سیدنا ابراہیم ؑنے جب بیت اﷲ کی بنیاد رکھی اور شہر مکہ کی آبادی کا سامان کیا تو اپنے رب سے ایک دعا کی۔ قرآن مجید نے اسے نقل کر دیا: ''جب ابراہیم نے کہا: اے پروردگار! تو اس شہر کو شہر امن بنا دے اور یہاں بسنے والوں کو پھلوں سے رزق عطا فرما۔ (البقرہ:126)
٭ عالم کے پروردگار نے اپنا تعارف کرایا: السّلٰمُ المومن المھیمن (الحشر:23 ) سلامتی اور امن دینے والا نگہبان۔
٭اﷲ کے رسولﷺ نے شرح فرمائی: بے شک سلام‘ اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ہے‘ جسے اﷲ نے زمین پر اتارا ہے۔ تو تم آپس میںسلام کو پھیلاؤ۔
٭عبداﷲ ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اﷲ سے پوچھا کہ اسلام میں کون سا عمل بہتر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: کھانا کھلانا اور آشنا، نا آشنا، سب کو سلام کرنا۔ (بخاری،مسلم)
٭ہر نماز کے اختتام پر ایک دعا، کثرت سے پڑھی جاتی ہے جو رسالت مآبﷺ سے مروی ہے: اے اﷲ تو امن و سلامتی عطا کرنے والا ہے، تجھی سے امن ہے۔ اے بزرگی اور عزتوں کے مالک تو ہی بابرکت ہے (بخاری، مسلم)
٭اﷲ کے آخری رسول ﷺ نے ارشا د فرمایا : جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا، اﷲ اس پر رحم نہیں کرتا ( بخاری ،مسلم)
٭ارشاد ہوا: اﷲ برائی کو برائی کے ذریعے ختم نہیں کرتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے۔ بری چیز کبھی بری چیز کو نہیں مٹاتی۔( مشکوٰۃ)
٭ فرمایا: جو تم سے تعلق توڑے، اس سے تعلق جوڑو۔ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرو اور جو تم سے برا سلوک کرے، اس سے اچھا سلوک کرو۔
٭مکہ فتح ہوا تو کہیں سے آواز اٹھی: آج انتقام کا دن ہے۔ اﷲ کے آخری رسول ﷺنے، جو سر تا پا رحمت تھے، تصحیح فرمائی: آج لطف و کرم کا دن ہے۔
٭اﷲ کی کتاب نے اعلان کیا : غصے کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کر دینے والے، اﷲ ایسے نیکو کاروں کو پسند فرماتا ہے ( آل عمران 134:)
٭ قرآن مجید میں ہے: '' اے نبی! درگزر اختیار کیجیے، نیکی کا حکم دیجیے اور جاہلوں سے اعراض کیجیے‘‘۔ (الاعراف199:)
٭ ارشاد ہوا: ''جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرے تو یہ بڑی اولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے ( الشوریٰ43:)
٭ اﷲ کے پیغمبر نے فرمایا : جو شخص نرمی سے محروم کر دیا گیا ، وہ ہر قسم کی بھلائی سے محروم کر دیا گیا۔ ( مسلم)
٭ نبیؐ سے روایت ہوا : کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں کہ جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جو لوگوں کے قریب رہے، آسانیاں پیدا کرے۔ نرمی کرے اور نرم خو ہو ۔( سنن ترمذی)
٭ارشاد ہوا: اﷲ نرمی کرنے والا ہے اور ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ ( بخاری، مسلم)
٭کہا گیا : آسانی پیدا کرو، سختی نہ کرو، خوش خبری دو، نفرت مت دلاؤ ( بخاری، مسلم)
٭اﷲ تعالیٰ نے اپنے آخری رسولؐ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : آپ نصیحت کیے جائیں۔ آپ تو بس نصیحت ہی کرنے والے ہیں، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ( الغاشیہ 22,21:)
٭سورہ الشوریٰ میں کہا گیا : اے نبی، ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا، آپ پر صرف بات پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے (48:42)
ایک کالم کے دامن میں اتنی وسعت کہاں کہ وہ امن، رحمت اور سلامتی کے اس پیغام کا احاطہ کر سکے۔ یہ تہذیب نفس کا مضمون ہے۔ تزکیۂ نفس بھی اسی کو کہتے ہیں۔ اﷲ کے آخری رسولؐ کی بعثت اس لیے ہوئی کہ وہ لوگوںکا تزکیہ فرمائیں۔ اﷲ کی کتاب اس کو اپنی آیات میں بیان کرتی ہے اور اﷲ کے رسولؐ اپنے ارشادات اور اسوۂ حسنہ سے اس کی شرح و تفسیر فرماتے ہیں۔
دین کی حمیت میں اٹھنے والے لوگ قابلِ رشک ہیں کہ انہیں اس کا احساس ہے۔ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جس دین کی محبت میں وہ نکلے ہیں، وہ دین، رویے کے باب میں ہمیں کیانصیحت کرتا ہے۔ اﷲ کے رسولؐ نے اس حوالے سے اپنے صحابہؓ کی تربیت کی اور ہمارے لیے بھی وہی نمونہ ہیں۔ دین کی حفاظت کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اس رویے کی تعمیر کی جائے جو دین ہمیں سکھاتا ہے۔ ہمیں متنبہ رہنا ہے کہ کسی کا کاروباری مفاد دین کو جنسِ بازار نہ بنا دے۔ کسی کی فتنہ پرور طبیعت ہمارا جذباتی استحصال نہ کرے۔ کسی کی مہم جوئی ہمارے احساسات سے کھلواڑ نہ کرے۔اﷲ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ دین ہمارا محتاج نہیں ہے، ہم البتہ اس کے محتاج ہیں۔ یہ دین کی حمیت کا معاملہ ہو یا حقوق العباد کا ، اﷲ تعالیٰ ہم سے سوال کریں گے کہ ہم نے کہاں تک اﷲ تعالیٰ کے احکام اور ہدایات کو پیش نظر رکھا۔فتنہ‘ اﷲ کی شریعت میں قتل سے سنگین جرم ہے۔ قرآن مجید نے جس جرم کی سب سے شدید سزا تجویز کی ہے وہ محاربہ اور فساد فی الارض ہے۔
شریعت سازی ہمارا کام نہیں ، ہماری ذمہ داری شریعت پر عمل ہے۔شریعت‘ اﷲ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے توسط سے انسانوں کو عطا کرتے ہیں۔ ہم شارع نہیں، ہمارا کام شریعت کی پابندی ہے۔ہم اکثراپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہوگی کہ ہمارا طرز عمل دین کی ایسی تشریح کرے جو شریعت کے خلاف ہو۔ سماج کو متنبہ رہنا چاہیے کہ کہیں وہ طالبان کے نقش قدم پر تو نہیں چل نکلا۔ دعویٰ ان کا بھی یہی ہے کہ وہ دین کی حمیت میں اوراﷲ کی رِٹ قائم کرنے نکلے ہیں۔