علم و فن ہویا سیاست و صحافت،یہ دور تعلقاتِ عامہ کا دور ہے۔جب سے زندگی کاروبار بنی ہے،سماجی تعلقات بھی کاروباری اصطلاحوں میں بیان ہونے لگے ہیں۔
بظاہر علم و ادب کے عنوان سے ایک مجلس برپا ہوتی ہے۔منتظم شرکا کی فہرست بنا تا ہے ۔وہ یہ نہیں دیکھتا کہ علم اور ادب کے پہلو سے کس کا کام وقیع ہے۔وہ دو باتیں سامنے رکھتاہے۔کون سماجی و سیاسی اعتبار سے قابل ِ ذکر ہے اور کون مجھے بھی اپنے ہاں مدعو کرتا ہے۔کبھی کبھی اس میں نظریاتی عصبیت بھی داخل ہو جاتی ہے۔یہ رویہ صرف مجلس تک محدود نہیں،'تحقیق‘ بھی اس کی زد میں ہے۔اردو افسانے کی سو سالہ تاریخ پر ایک ضخیم کتاب پڑھی۔ حیرت سے دیکھتا رہ گیا کہ جیلا نی سے لے کر اعجاز احمد فاروقی تک، افسانے کی ایک پوری روایت کا کہیں ذکر نہیں۔
آئے دن لٹریچر فیسٹیول منعقد ہورہے ہیں۔عنوان ادب ہے لیکن میں ایسی شخصیات کے نام بھی مندوبین کی فہرست میں دیکھتاہوں جن کا ادب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔عام طور پر اہلِ صحافت جمع ہو تے ہیں۔صحافت اور ادب کبھی ہم رکاب تھے۔مدت ہوئی کہ یہ رفاقت دم توڑ چکی۔الا ماشااللہ۔ ایسا نہیں کہ ان مجالس میں ادبی شخصیات نہیں ہوتیں ۔ہوتی ہیں ،لیکن وہی جن کے منتظمین سے اچھے تعلقات ہوتے ہیں۔علمی کانفرنسوں میں بھی یہی ہو تا ہے۔یہاں بھی سماجی حلقے وجود میں آ چکے۔یہ قومی سطح پر ہیں اور عالمی سطح پر بھی۔مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کو مدعو کرتے اور یوں اپنے تئیں علم کی خدمت سرا نجام دیتے ہیں۔
اخباری کالم تو ان دنوںتعلقاتِ عامہ کا سب سے موثر فورم ہے۔شہرت کے خواہش مند ،معروف کالم نگاروں کو مدعو کرتے ہیں اور پھران کے کالموں سے دنیا کو معلوم ہو تا ہے کہ کہاں کہاں ، کیسے کیسے گوہر نایاب چھپے ہیں ۔انکشاف ہو تا ہے کہ دنیا کے ایک گوشے میں ایسی غزل لکھی جا رہی ہے کہ غالب زندہ ہوں تو ایک ایک شعر کے بدلے میں اپنا دیوان پیش کر دیں۔اگر وہ یہ پیشکش اپنے عہد کے ایک 'مومن‘ کو کر سکتے ہیں تو آج بھی ویسے 'مومنین ‘ کی کمی نہیں۔ان کالموں سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کہاں کہاں وطن سے محبت کے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ایسے لوگوں کی حب الوطنی کا، اس سے بڑھ کرکیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ بعض کالم نگاروں کی میزبانی کرتے اوریوں ملک کی خدمت بجا لاتے ہیں۔پچھلے دنوں پڑھا کہ ایک یورپی ملک میں فکرِاسلامی کودرپیش مسائل پر ایک کانفرنس ہوئی اور ایک معززکالم نگار کو دعوتِ خطاب دی گئی۔ان کی بہت سی خوبیاں ہیں اور ان گنت لوگ ان کے معترف ہیں۔ بے شمار لوگ ان کے کالم شوق سے پڑھتے ہیں لیکن یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ فکرِ اسلامی سے ان کا کوئی تعلق ثابت نہیں۔اس 'فکر انگیز‘ کانفرنس کی خبر بھی ہمیں ان کے کالم سے ملی۔مجھے اس سے اندازہ ہوگیا کہ دور ِ جدید میںفکر ِ اسلامی در اصل کس بحران میں مبتلا ہے۔
کاروباری لوگ بھی بڑے چالاک ہوتے ہیں۔ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ تعلقاتِ عامہ کیسے کاروبارکے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔کم و بیش دس برس ہونے کو ہیں،اسلام آباد کے ایک بڑے ہسپتال کے یکِ از مالکان سے میری ملاقات ہوئی۔کہنے لگے: ''ہم نے لاہور سے ایک کالم نگار کو اپنے ہاں مدعو کیا‘ انہیں ایک بڑے ہوٹل میں ٹھہرایا اورہوائی سفر کے اخراجات اٹھائے‘ انہوں نے پھر ہمارے ہسپتال پر کالم لکھا‘ اس سے ہمیں جو شہرت ملی،اس کی قیمت ان اخراجات سے کہیں زیادہ تھی جو ان کے اس دورے پر اُٹھے۔ اگر ہم اس سے کہیں زیادہ لاگت سے اشتہار چھپواتے تو شاید ہمیں اس کاایسا فائدہ نہ ہوتا‘‘۔ انہوں نے یہ واقعہ سنا یا تو مجھے اندازہ ہوا کہ وہ کیوں ایک کامیاب تاجر ہیں۔ممکن ہے کالم نگار کے خیال میں بھی یہ بات نہ آئی ہو کہ ان کے کالم سے کیا فائدہ اٹھا یا جائے گا؛ تاہم عام طور پر یہ 'باہمی دلچسپی‘ کے امور ہیں اور فریقین کو معلوم ہو تا ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے کیا توقع رکھتے ہیں۔ لوگ اب اسی لیے تحریر نگاروں کو اپنے ہاں تقریبات میں بلاتے ہیں۔ اگر ایک دوپروگراموں میں شرکت کے باوجود، کالم نگار ان کے ادارے پر لکھنے کے لیے آ مادہ نہ ہو تو پھر وہ کسی اور کا گھر تلاش کرتے ہیں۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ کام بعض دینی ادارے بھی کرتے ہیں۔
تعلقاتِ عامہ آج کا روزمرہ ہے۔زندگی کو اب ہم کاروبار کی نظر سے دیکھتے ہیں۔کاروبار کی نفسیات یہ ہے کہ وہ نفع نقصان کی فضا میں جیتا ہے۔کاروباری ادارے اگر اس کا اہتمام کریں تویہ قابلِ فہم ہے لیکن اگر سماج اور ریاست کے وہ ادارے بھی اسی سوچ کو اپنا لیں جن کا کام علم اور فنون کا فروغ ہے اور وہ منتظمین کی ادنیٰ خواہشات کے اسیر بن جا ئیں تو پھرتشویش ہو تی ہے۔پاکستان میں بہت سے ادارے، مثال کے طور پر ادب کے فروغ کے لیے بنے ہیں۔ان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اکثر ادارہ منتظمِ اعلیٰ کی ذاتی پسند نا پسند کے گرد گھومتا ہے۔وہ ادارے کو شخصی تعلقات کے استحکام کے لیے استعمال کر تا ہے۔اس کی کوششوں کا محوراس گوہر کو تلاش کر نا نہیں ہوتا جو سماج کے سمندرمیں کہیں چھپا ہوتا ہے۔ ادب کا فروغ نہیں ہوتا جو اس کا اصل مقصد ہو نا چاہیے۔اس کا نقصان سماج کو اٹھا نا پڑتا ہے جو باصلاحیت لوگوں سے محروم ہو جا تا ہے۔لوگ مو لانا مودود ی کو جان لیتے ہیں لیکن ابو الخیر مو دودی کو نہیں جا نتے۔اسی لاہور میں بڑا بھائی گمنامی کی دھول میں غائب ہو جاتاہے۔ ناقدریٔ عالم کا صدمہ کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ جناب
جعفر قاسمی کی روایت کے مطابق، اپنے گراں قدر تراجم اور تصانیف کی دو بوریاں کنویں میں پھینک دیتے ہیں۔ اگر سماج میں کوئی کھوج لگا نے والا ہو تا تو ابوالخیر کو سونے میں تول دیتا۔جو انہیں جانتے ہیں، وہ ابو الخیر کو ابو الاعلیٰ سے بڑا عالم مانتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اس نے زندگی کو کاروبار کی نظر سے دیکھنے کا چلن عام کردیا ہے۔ وہ مذہب، آرٹ اور روایت کو بھی کاروبار بنا دیتا ہے۔ یوں وہ عام آ دمی کی دسترس سے نکل جاتے ہیں۔ہمارے ملک میں آئے دن جو لٹریچر فیسٹیول ہوتے ہیں، وہ ملٹی نیشنل یا مقامی کاروباری اداروں کے سرمایے سے منعقد ہوتے ہیں۔یوں ادب عالم آ دمی کی پہنچ سے دور ہو تا جا رہا ہے۔اب تو بسنت بھی ان کی گرفت میں ہے۔سرکاری ادارے جو اس مقصد کے لیے بنتے ہیں، وہ کسی حد تک اس کی تلافی کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے منتظمین تعلقاتِ عامہ کی نفسیات سے باہر آئیں۔دو سال پہلے میں نے یہ خبر پڑھی تھی کہ الحمرا آرٹس کونسل لاہور میں گوشہ ادب و فن قائم ہوا ہے۔مجھے خوشی ہوئی کہ عطاالحق قاسمی صاحب جیسے صاحبِ ذوق کی نگرانی میں یہ اقدام کیا گیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کتنا آبادہے لیکن کیا ہی اچھا ہوکہ ایسی جگہیں ہر شہر اور قصبے میں مو جود ہوں‘ جہاں عام آ دمی کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہو۔گھٹن کے اس ماحو ل میں یہ بڑی خدمت ہوگی۔اس کے نتیجے میںبہت سے باصلاحیت لوگ سامنے آئیں گے۔یہ کام اسی وقت ہوگا جب علمی و ادبی اداروں کو تعلقاتِ عامہ کے شرسے دور رکھا جا ئے گا۔