فارسی زبان میں علمِ تصوف کی پہلی معرکہ آرا تصنیف 'کشف المحجوب‘ کی ایک نئی اشاعت،ا س وقت میرے سامنے رکھی ہے۔
چند برس پہلے، میں نے اس کتاب کے بالاستیعاب مطالعے کا ارادہ کیا۔سالوں پہلے میں نے اس کا ترجمہ پڑھا تھا۔ عمر کے اُس مر حلے میں،دل چاہتا تھا کہ ہر کتاب پڑھ لی جائے۔اس سے یہ تو ہوتا ہے کہ دماغ کے کسی گوشے میں کتابوں کاایک ڈھیر لگ جائے لیکن یہ بات کہ ہرکتاب سلیقے کے ساتھ اپنے مخصوص شیلف میں رکھی ہو،اس کا کوئی شعور پیدا نہیں ہو تا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مطالعہ ایک سائنس ہے۔جس طرح لائبریری سائنس کتابوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرتی ہے تاکہ حسبِ ضرورت کتاب کی تلاش میں کوئی دقت پیش نہ آئے، اسی طرح ضروری ہے کہ انسانی ذہن میں بھی مختلف مو ضوعات کا علم اپنے اپنے خانے میں مو جود رہے اورحسبِ مو قع مستحضر ہو جا ئے۔پھر یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر علم کی کچھ مبادیات ہیں۔پہلے انہیں سمجھنا چاہیے۔ اس کے بعد ہی یہ امکا ن پیدا ہو تا ہے کہ اس علم کی کوئی کتاب آپ کی سمجھ میں آئے۔اس احساس کے سبب، بہت سی کتابیں بشمول 'کشف المحجوب‘ دوبارہ پڑھیں۔
بطور علم،تصوف کے مو ضوعات وہی ہیں جو فلسفے کے ہیں۔ وحدت الوجود افلاطون جیسے فلاسفہ کے ہاں زیرِ بحث رہا۔ ہمارے ہاںاس کا بیان الٰہیات کے ذیل میں ہوتا ہے۔اہلِ علم جانتے ہیں کہ اسلام کی طرح مسیحیت اور یہودیت جیسے مذاہب میں بھی تصوف کی روایت مو جود ہے،اس لیے اس امتیاز کو واضح کر نے کے لیے تصوف کے ساتھ 'اسلامی‘ کا سابقہ مستعمل ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب یہ مو ضوع مسلم سماج یا تاریخ کے تناظر میں زیرِ بحث ہے تو اسلامی حوالہ اضافی ہے۔عامتہ الناس میں اس سے یہ نقصان ہوا کہ وہ تصوف کو اسلام ہی کی ایجاد سمجھنے لگے۔یوںیہ ساری بحث اپنے سیاق و سباق سے کٹ گئی۔
' کشف المحجوب ‘کاشماراسلامی تصوف کی امہاتِ کتب میں ہو تا ہے۔اس مو ضوع سے دلچسپی رکھنے والا کوئی شخص اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا،کتاب اللمع،رسالہ قشیریہ،فتوحاتِ مکیہ، اور احیاالعلوم کی طرح۔ خوش قسمتی سے ان میں سے اکثر کا،اب اردو زبان میں ترجمہ ہو چکا۔'کشف المحجوب ‘کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اس کے مصنف نے بر صغیر کے سماج پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔سید علی ہجویریؒ کے مستند سوانح مو جود نہیں ہیں‘ لیکن جو کچھ میسر ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ لا ہورمیں گزارا۔وہ ایک دفعہ یہاں آئے، پھر چلے گئے۔ جب دوسری بارتشریف لائے تو تامرگ یہیں رہے۔ان کے شخصی اوصاف ان کے علم پر مستزاد تھے۔اپنے علم،للہیت اور اخلاص کے سبب ،ہماری صوفیانہ روایت میں شاید وہ سب سے زیادہ قابلِ ذکر ہستی ہیں جو پاکستان میں مدفون ہیں۔
' کشف المحجوب‘ کے مطالعے سے واضح ہے کہ شیخ علی ہجویریؒ وحدت الوجود کے قائل تھے۔یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔سارے صوفی وجودی ہوتے ہیں۔شیخ احمد سر ہندی نے وحدت الشہود کی بات کی لیکن شاہ ولی اللہ نے واضح کر دیا کہ یہ محض بیان کا فرق ہے، جوہر کا نہیں۔میں نے جب اس کتاب کا تفصیلی مطالعہ شروع کیا تو ابتدا ہی میں یہ بات واضح ہوگئی جب انہوں نے علم اور تصوف کی تعریف کی۔تاہم جب میں نے وہ احادیث پڑھیں جو انہوں نے نقل کیں تو میں چونک اٹھا۔اُس عہد کے اسلوبِ تحریر میں حوالہ دینے کی روایت نہیں تھی۔مطالعے کے دوران میں،اس خواہش نے میرا احاطہ کر لیاکہ ان روایات کی تخریج ہو نی چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ فلاں احادیث کس کتاب میں بیان ہوئی ہیں اور ان کی صحت کا معیار کیاہے۔میں ہر صفحے پر ان روایات کو خط کشیدہ کر تا گیا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ماضی میں'کشف المحجوب‘ کے بہت سے نسخے مستعمل رہے ہیں۔ہمارے ہاں جب یہ کتاب شائع یاترجمہ ہوئی تو کسی ایک نسخے کو سامنے رکھا گیا۔اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ دوسرے نسخے میں کیا فرق ہے تو اس کا کوئی ذریعہ مو جود نہیں تھا‘ الاّ یہ کہ سب کو سامنے رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی لائبریری ہی میں ممکن ہے۔
حدیث کے حوالے پر میر اچونکنا بے سبب نہیں تھا۔روایتِ حدیث کے باب میں صوفیا کا تساہل معروف ہے۔ہماری علمی تاریخ اِن مباحث سے مملوہے کہ صوفیا کی روایت کو قبول کر نا چاہیے یا نہیں۔ہندوستان کے معروف سکالر ڈاکٹر غلام قادر لون نے اپنی معرکہ آرا کتاب ''مطالعۂ تصوف‘‘ میں 'صوفیا اور علمِ حدیث‘ کے عنون سے ایک باب باندھا ہے ۔ان کے نزدیک، اہلِ علم کی عمومی رائے یہی ہے کہ تصوف کی کتابیں مو ضوع اور ضعیف روایات سے بھری ہیں۔اس حوالے سے امام غزالی کی 'احیا‘ سب سے زیادہ تنقید کا ہدف بنی۔ابن جوزی نے 'تلبیسِ ابلیس‘ میں امام صاحب پر نقد کیا۔ علامہ سبکی نے غزالی کی بے سند روایات پر مستقل باب باندھا۔ایک تحقیق کے مطابق،احیا میںچھ سو ضعیف احادیث ہیں۔ احیا کے بعد، اس حوالے سے جس کتاب پر سب سے زیادہ تنقید ہو ئی وہ ابو طالب مکی کی 'قوت القلوب‘ ہے۔اس کا شمار بھی تصوف کی امہاتِ کتب میں ہو تا ہے۔
یہ سب باتیں میرے علم میں تھیں جب میں نے 'کشف المحجوب‘ کا تفصیلی مطالعہ شروع کیا۔ اس لیے جب میں نے پڑھا کہ ''نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے اہلِ تصوف کی آواز سنی اور اس پر یقین نہ کیا تو،وہ اللہ کے ہاں غافلوں میں لکھا گیا‘‘تو میں چونک اٹھا۔یہ معلوم بات ہے کہ اسلام کا صدرِ اول تصوف کے لفظ سے خالی ہے۔ اس لیے یہ روایت یقینا مو ضوع ہے۔دلچسپ بات ہے کہ تصوف اور صوفی کے لفظ پر خودحضرت علی ہجویریؒ نے فاضلانہ بحث کی ہے لیکن کہیں قرآن و سنت کا حوالہ نہیں۔یہ ایک روایت نہیں،کتاب میں اس نو عیت کی اور بھی روایات مو جود ہیں جو ایک طالب علم کو مشکل میں ڈالتی ہیں۔اس کے لیے میں، مطالعہ کے دوران میں، اس بات کی ضرورت محسوس کر تارہا کہ یہ کتاب ایک محققانہ مطالعے کا مو ضوع بنے۔میرے سامنے جب 'کشف المحجوب ‘ کی تازہ اشاعت آئی تو مجھے خوشی ہوئی کہ یہ کسی حد تک میری ضروریات کوپورا کر تی ہے۔مثال کے طور پر مجھے اس سے معلوم ہوا کہ اس کتاب میں جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان کی تعداد 177ہے۔
یہ ایک صاحبِ دل صوفی عبدالعزیزالراعی جالندھری کی پچیس سالہ محنت کا ثمر ہے۔پہلی جلد فارسی متن پر مشتمل ہے۔ انہوں نے چار سو سال پہلے کے ایک قلمی نسخے کو بنیاد بنا یا لیکن نو مختلف متون کو سامنے رکھا۔حوا شی میں یہ واضح کر دیا کہ کس نسخے میں کون سی عبارت مختلف ہے اور کیسے۔ آخر میں ان آیات، احادیث اور اقوال کو الگ سے جمع کر دیا ،کتاب میں جن کا حوالہ ہے۔اسی طرح جدید اصولِ تحقیق کے مطابق ،شخصیات،ممالک ، شہروں اور رجال کی فہرست دے دی گئی ہے۔دوسری جلد میںفارسی متن کے ساتھ اردو ترجمہ ہے۔ تیسری جلد فرہنگ اور اشاریہ کے لیے خاص ہے۔ اس محنت شاقہ کااعتراف کرتے ہوئے،میں یہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ یہ تحقیق بھی میرے سوالات کا جواب نہیں دیتی۔ مثال کے طور پر پہلی جلد میں روایات کو الگ سے جمع کر دیا گیا ہے لیکن ان کی تخریج نہیں ہوئی۔ یعنی یہ معلوم نہیں ہو تا کہ یہ روایت حدیث کی کس کتاب میں ہے اور اس کا ماخذ کیا ہے۔تاہم اس کے با وجود یہ ایک قابلِ ذکر علمی کام ہے جس میں سید فضل معین معینی اجمیری نے صوفی صاحب کا بھرپور ساتھ دیا۔یہ کتاب لاہور کے شاہ جی پبلشرز نے شائع کی ہے۔ صوفی صاحب کا 1999ء میں انتقال ہو چکا۔اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے۔