سونامی اور انقلاب، ہیجان کی علامتیں ہیں۔ہیجان اور امن کبھی ہم قدم نہیں ہو سکتے۔
ہیجان کا پہلا ہدف عقل ہے۔فرد ہو اجتماع،خود کوہیجان کے حوالے کر دے تواس کے وجود پرپھر اسی کی حکومت ہو تی ہے۔انسان کی قدرو قیمت اسی وقت ہے جب وہ عقل کو حاکم مان لے۔بصورتِ دیگر،وہ عناصر میں ظہورِ ترتیب کا ایک مظہر ہے اوراس کے سوا کچھ نہیں۔قرآن مجید نے اللہ کے آ خری رسولﷺ کی کوثرو تسنیم میںدھلی زبان سے کہلوایا:''آخر اس سے پہلے،میں تمہارے درمیان ایک عمر بسر کر چکا۔کیا تم میں عقل نہیں؟(یونس16:10)‘‘واقعہ یہ ہے کہ رسول کی شناخت عقل والوں کو ہی ہو تی ہے۔
سیاست میں ہیجان ہے۔خیال یہ تھا کہ انتخابات کے بعد کم ہوجائے گا کہ رائے عامہ نے ایک تبدیلی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔افسوس کہ تو قع پوری نہیں ہو سکی۔سیاست کی باگ ان ہاتھوں میں ہے جو جذباتی استحصال کو شعار کیے ہوئے ہیں۔ مذہب اور عوامی مسائل، دونوں اس کی بنیاد فراہم کرہے ہیں۔ مذہب ایک مدت سے شعور سے زیادہ جذبات کا معاملہ ہے کہ اہلِ مذہب نے سماج کی تربیت ان ہی خطوط پر کی ہے۔عوامی مسائل خود بڑی حقیقت ہیں۔شدید گرمی اوربجلی کی لوڈشیڈنگ۔ رمضان صبر کیا دے کہ اضطراب بڑھ رہاہے۔اب حکومت کے بارے میں کون کلمۂ خیر کہے؟ ہیجان پیدا کر نے کے لیے اس سے سازگار اسباب کہاں میسر آ سکتے ہیں؟ اللہ دے اور بندہ لے! یوں سماج پر آج ہیجان کی حکمرانی ہے اور کسی طرف سے عقل کی بات سنائی نہیں دے رہی۔
شاید یہ وقت بھی ہم پر پہلی مرتبہ آیا ہے کہ قوم میں فریق ہیں ثالث کوئی نہیں۔کبھی اہلِ صحافت میں مصطفیٰ صادق جیسے لوگ ہوتے تھے کہ انتہا پسندانہ رحجانات میں پُل بن جاتے۔ علما میں مولانا ظفر احمد انصاری تھے کہ سب ان کو محترم جانتے۔مولانا مودودی اور بھٹوصاحب ان پر بیک وقت اعتماد کرتے۔وجہ ان کی بے غرضی تھی۔ مو لا نا انصاری گورنر ہاؤس سے نکلے تو جناب مصطفیٰ کھر نے سواری کی پیش کش کی۔ معذرت کی کہ انتظام ہے۔عمارت سے باہرآئے۔ایک ٹیکسی میں بیٹھے اور چل دیے۔ اعتماد اسی طرح پیدا ہو تا ہے۔ایک دور میںجناب مجید نظامی کو بھی یہ حیثیت حا صل رہی۔ جناب ہارون الرشید نے محترم مجیب الرحمن شامی کی طرف صحیح اشارہ کیا۔وہ ایک کردار ادا کر سکتے ہیں کہ ان کو نوازشریف صاحب ا ور عمران خان دونوں کا اعتماد حاصل ہے۔ آخر کسی طرف سے توعقل کی بات سامنے آئے۔ہم کب تک ہیجان کو اپنا حاکم بنائے رکھیں گے؟
عقل کی بات کیا ہے؟کوئی سماج مسلسل حالتِ اضطراب میں نہیں رہ سکتا۔بالخصوص وہ سماج جسے بقا کے چیلنج کا سامنا ہو۔ پاکستان آج ان قوتوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام کر رہا ہے جو ریاست کے اندر ریاست بنائے ہو ئے تھے۔ابھی کل ہی فوج کے تین جواں سالوں نے اپنی جانیں اس معرکے کی نذر کیں۔ اعدادو شمار گواہ ہیں کہ پا ک فوج نے بیرونی اور کھلے دشمنوں کے خلاف اتنی جانی قربانی نہیں پیش کی، جتنی اپنے ملک کے اندر لڑتے ہوئے دی ہے۔اس وقت اس اقدام کے حق میں فکری اور سیاسی ہم آ ہنگی،اس کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔لازم ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک میں ایسی فضا بنائیں جس سے دہشت گردی کی واردات مشکل ہو جائے۔قومی سلامتی کے ادارے یکسو ئی کے ساتھ ایسے عناصر کو ہدف بنا سکیں جو فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اگر اس ماحول میں بھی سیاسی جماعتیں بے معنی احتجاج اور لانگ مارچ کی حکمت عملی اپنا ئیں گی تو وہ در اصل ریاست کی قوت کو تحلیل کر دیں گی اور اس کا فائدہ فسادیوں کو ہو گا۔ عقل کی بات یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں انتخابات کے بعد ملک پر سکون ہو جاتے ہیں اور معمول کی زندگی شروع ہو جا تی ہے۔اداروں کو موقع دیا جا تا ہے کہ وہ کام کریں۔ جلسے جلوس کی سیاست نہیں کی جا تی کہ اس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہو تا۔سیاسی جماعتیں آنے والے انتخابات کے لیے خود کو تیا رکر تی ہیں۔امریکہ میں آج رائے عامہ کی اکثریت اوباما کو جدید امریکہ کا بد ترین صدر قرار دے رہی ہے لیکن کوئی ایک آواز بھی ایسی نہیں کہ ان کے خلاف لانگ مارچ کے لیے اٹھی ہو یایہ مطالبہ کیا جا رہا ہوکہ صدر اوباماکو وقت سے پہلے ان کے عہدے سے ہٹا دیا جا ئے۔سب کو معلوم ہے کہ سیاسی وسماجی استحکام ہرشے پر مقدم ہے۔اسی میں امریکہ کا مفاد ہے۔
ایک عامی بھی جا نتا ہے کہ پاکستان کے لیے امن اور استحکام اتنا ہی ضروری ہیں جتنی ایک فرد کے لیے آکسیجن۔کوئی بڑے سے بڑا مطالبہ یہ وزن نہیں رکھتا کہ اس کے لیے امن کو قربان کر دیا جا ئے۔اسی کو ترجیح ہو نی چاہیے۔اگر آج ملک میں امن آتا اور فساد کاخاتمہ ہو تا ہے تو یہ کریڈٹ صرف حکومت کا نہیں ہو گا،ان سیاسی قوتوں کا بھی ہو گا جنہوں نے اس میں حکومت اور فوج کی معاونت کی۔افغان جنگ میں سوویت یونین کے خلاف جن جماعتوں نے ضیاالحق صاحب کا ساتھ دیا، وہ اس کے نتائج کی ذمہ داری میں برابر کی شریک ہیں۔جو اس کو کارِ خیر سمجھتا ہے، وہ اسے اپنی کامیابیوں میں شمار کرتا ہے۔ جو اسے غلط کہتا ہے، وہ ان جماعتوں کو بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہے جنہوں نے اس حکمت عملی میں حکومت کی تائید کی۔
آج پاکستان میں استحکام اور امن کے لیے چند نکات پر اتفاق ناگزیر ہے۔میں چند دن پہلے، اس ضمن میں اپنی تجاویز پیش کر چکا۔مجھے مایوسی ہوئی کہ میڈیا میں اصلاحِ احوال کے لیے کوئی سنجیدہ تجویز سامنے نہیں آئی اور نہ ہی اسے مو ضوع بنا یا گیا۔میں اتفاقِ رائے کے لیے بعض نکات کو یہاں دہرانا چاہتا ہوں:
1۔ آئندہ چار سال میں کسی مذہبی یا سیاسی مسئلے پر احتجاج کا اسلوب نہیں اختیار کیاجا ئے گا۔جلوسوں اور دھرنوں کا سیاست میں کوئی گزر نہیں ہو گا۔
2۔ریاستی جمہوری اداروں کو مضبوط بنا یا جائے گا۔پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے حکومت اور سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کریں گے۔وزیر اعظم قومی اسمبلی اور سینٹ میں اراکین کی تنقید کا سامنا کریں گے اوراپوزیشن بھی اپنا نقطہ نظر یہیں پیش کرے گی۔میڈیا کے دروازے تو پہلے ہی سب کے لیے کھلے ہیں۔
3۔ حکومت سیاسی و معاشی استحکام کا ایک ایجنڈا سامنے لائے گی جو قومی بحث کا مو ضوع بنے گا۔
4۔ میڈیا اور دوسرے ادارے بھی سیاسی استحکام کے لیے ایک لائحہ عمل پر اتفاق کریں گے۔
میں اس مو ضوع پر قدرے تفصیل سے لکھ چکا۔بعض نکات کو تذکیر کے لیے دہرا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی حتمی فہرست ہے نہ جامع۔میری گزارش یہ ہے کہ قومی اتفاق رائے کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے اور سب مل کر امن اور استحکام کے لیے اپنا کر دار ادا کریں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم ہیجان کی فضا سے باہر آئیں۔ انقلاب اور سونامی، دونوں ہیجان کی علامت ہیں۔ اصطلاحوں کا استعمال اہلِ سیاست کے مزاج کا آئینہ دار ہے۔ ہمیں اس ہیجانی اندازِ نظر سے نجات کی ضرورت ہے۔ اہلِ سیاست یا پھر اہلِ صحافت میں سے کوئی اٹھے اور بتائے کہ ہمیں ہیجان کو نہیں ،عقل کو راہنما بنا نا ہے۔ ہیجان اور امن کبھی ہم قدم نہیں ہو سکتے۔