"KNC" (space) message & send to 7575

مسئلہ فلسطین

میرا مخاطب اسرائیل یا امریکہ نہیں،اردو پڑھنے والے وہ لوگ ہیں جو فلسطینیوں پر روارکھے گئے ظلم پر اداس ہیں۔
آج اہلِ فلسطین کے ساتھ ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ان کے قتل ِ عام کو رکوایا جائے۔یہی نہیں، اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے کہ آئندہ ایسے واقعات کم سے کم ہوں۔میرے نزدیک تشدد کی مکمل نفی کے سوا اس کی کوئی صورت نہیں۔بد قسمتی سے پہلے الفتح اور اب حماس جیسی تنظیموں نے تشدد کو بطورحکمتِ عملی اختیار کرکے فلسطینیوں کو زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں مکمل آزادی تو دور کی بات، اب ادھوری آزادی کا تصور بھی خواب وخیال ہو تا جا رہا ہے۔یاسر عرفات نے بعد از خرابیٔ بسیارتشددکو الوداع کہا۔حماس کوابھی تک تشدد پہ اصرار ہے۔اس لائحہ عمل کی ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔فلسطینیوں کا بہتا لہو،تنہا ایسی دلیل ہے جو اس اندازِ فکر کی غلطی پر شاہد ہے۔آج اہلِ فلسطین کو ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ایسی حکمتِ عملی جو اُن کے جانی و مالی نقصان کو کم کر سکے اور مسئلے کے ایک منصفانہ حل کے لیے ان کی جد وجہد کو زندہ رکھ سکے۔میری اس رائے کی بنیاد چند دلائل پر ہے۔
1۔چند دنوں کے تصادم میں264فلسطینی مارے جا چکے اور اس کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی کی جان گئی ہے۔اگر ہم ان واقعات کی ابتدا کو سامنے رکھیں تو تین اسرائیلی نوجوان اغوا کے بعد قتل ہوئے۔یوں یہ دو سو چونتیس اور چار کی نسبت ہے۔گویا ایک اسرائیلی کے بدلے میں اٹھاون فلسطینیوں کی جان گئی۔ابھی جنگ جاری ہے اور نہیں معلوم کہ یہ نسبت کہاں تک جاتی ہے۔اس سے پہلے،جب بھی تصادم ہوا، نسبت کم و بیش یہی رہی۔ 2008-09ء میںبھی یہی ہوا تھا۔اس وقت 1166 فلسطینیوںکے مقابلے میں تیرہ اسرائیلیوں کی جان گئی تھی۔ تب یہ نسبت ایک اور نوے(90)کی تھی۔مجھے اس قیادت پر حیرت ہے جو اس حکمتِ عملی پر اصرار کرتی ہے جس میں انسانی جان کے ضیاع کا تناسب یہ ہے۔اس قربانی کو بھی گوارا کیا جا سکتا ہے اگر یہ معلوم ہو کہ وہ مقصد پورا ہو رہا ہے جس کے لیے جانیں دی جارہی ہیں۔اس کابھی دور دور تک کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ 
2۔ فلسطینی اس وقت کئی سیاسی وعسکری گروہوں میں منقسم ہیں۔ محمود عباس کی جماعت اور حماس کا اختلاف ظاہرو باہر ہے۔یہ اختلاف نظری ہے اور مفاداتی بھی۔برسرِ پیکار گروہ باہم قتل و غارت گری میں بہت سے لوگوں کی جان لے چکے۔اس طرح منقسم قوم کسی منظم ریاست کے خلاف کیسے لڑ سکتی ہے؟
3۔ امتِ مسلمہ‘ جس کو دن میں کئی بار پکارا جاتا ہے، کہیں مو جود نہیں۔ اسی لیے اس پکار کا کوئی جواب نہیں آتا۔مجھے حیرت ہے کہ لوگ اس کے باوجودخلا میں صدا لگاتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ جواب آئے گا۔میں بارہا عرض کر چکا کہ امت ایک روحانی وجود تو ہے کوئی سیاسی یا سماجی اکائی نہیں۔ آج مسلمانوں کی قومی ریاستیں ہیں یا مسلکی گروہ‘ سب اپنے اپنے مفادات کی آبیاری کر رہے ہیں۔ 'داعش‘ نے اپنے تئیں خلافت کا اعلان کیا اور القاعدہ نے اسے مسترد کر دیا۔داعش کا اپنا خلیفہ ہے اور القاعدہ کا اپنا۔امت ِ مسلمہ پاکستان جیسے ملکوں میں بعض گروہوں کا رومان ہے۔وہ فلسطینیوں کے لیے صرف احتجاج کر سکتے ہیں اور بس۔کیا اس سے ان کے دکھوں میں کوئی کمی آ سکتی ہے؟
4۔ اسرائیل ایک منظم ریاست ہے اور اس کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور روس جیسی کئی طاقت ور ریاستیں ہیں۔یہ طاقتیں ہر اخلاقی اور بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں۔دنیا کا اس وقت اجماع ہے کہ اسرائیل کو بطور ریاست قائم رہناہے۔فلسطینی ریاست کے بارے میں ابھی تک ابہام ہے۔ فلسطینیوں کی حمایت ایران کی ریاست کرتی ہے یا شام کی۔اس حمایت کی اساس بھی نظریہ یا امت نہیں، ان ریاستوں کے علاقائی مفادات ہیں۔اس وقت حماس کے ساتھ اسلامی جہاد کی تنظیم بھی موجود ہے جسے ایران کی حمایت حاصل ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کو ایک تشویش یہ بھی ہے کہ حماس کی نسبت اسلامی جہاد سے معاملات کرنا مشکل تر ہو گا، اس لیے حماس سے معاملہ کرنے کی کوشش کی جائے۔شام کی حکومت اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے،اس لیے فلسطینیوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔یوں بھی،بشار الاسد کے خانوادے کو امتِ مسلمہ سے جو نسبت ہے، اس کا حال کوئی اخوان سے پوچھے جن کی پیٹھ پر اس خاندان کا تازیانہ مسلسل برستا رہا۔پھر یہ کہ ماضی میں بھی ان ریاستوں کی کوئی مدد فلسطینیوں کے کام نہ آ سکی۔مصر میں اخوان ان کا اخلاقی اور کسی حد تک مادی سہارا تھے۔ان کی بے چارگی ہمارے سامنے ہے۔
سادہ سا سوال ہے کہ ان اسباب کی روشنی میں اہلِ فلسطین کو کیا کر نا چاہیے؟میرا خیال ہے کہ قابلِ عمل حل صرف ایک ہے۔فلسطینی خود کوایک سیاسی قیادت کے تحت منظم کریں اور دوریاستی حل کو قبول کرلیں۔وہ اس بات کی پوری کوشش کریں کہ ان کی ریاست ہر طرح سے خود مختار اور آز اد ہو۔اس کے ساتھ یروشلم کو ایک آزاد شہر قرار دینے کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ یہ تینوں ابراہیمی مذاہب کے لیے تقدس رکھتا ہے۔دو ریاستی حل پر اس وقت کم و بیش ساری دنیا متفق ہے۔جب یہ فارمولہ پہلی بار سامنے آیا تو اس میں فلسطینیوں کے لیے بہت کچھ تھا۔جب انہوں نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ عسکری جدو جہد سے اسرائیل کاخاتمہ کردیں گے توان اسباب کی بنا پر ،جن کا میں نے ذکر کیا، ان کا وجود سمٹتا چلا گیا۔آج اگر اسرائیل 1967ء سے پہلے کی سرحد کو تسلیم کرتے ہوئے مقبوضہ علاقے خالی کرتا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کو عملاً تسلیم کرتا ہے تو یہ فلسطینیوں کی بڑی فتح ہو گی۔ 
اگر تشدد کو خیر باد کہتے ہوئے، فسلطینی اس کے لیے سیاسی جدو جہد کرتے ہیں تو اس کے دو فوائد ان کو فوری طور پر مل سکتے ہیں۔ایک یہ کہ اسرائیلی تشدد میں کمی آ جائے گی۔دوسرا یہ کہ انہیں دنیا کے ایک بڑے حصے کی اخلاقی و سیاسی تائید میسرآ جائے گی۔اس وقت امریکہ میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اسرائیل کے خلاف ہے۔وہ اس ظلم کی تائید پر آ مادہ نہیں۔خود اسرائیل میں بھی بہت سے یہودی ہیں جو اسرائیل کو خوف کی اس فضا سے نکالنا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ مسلمان قومی ریاستیں بھی اپنے قومی مفادات کو قربان کیے بغیر، فلسطینیوں کی حمایت کر سکیں گی۔اسرائیل آسانی کے ساتھ مقبوضہ علاقوں کو خالی نہیں کرے گا۔اس کے لیے بھی طویل جدو جہد کی ضرورت ہو گی؛ تاہم اس وقت ساری توجہ فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے پر مبذول کی جانی چاہیے۔کاش انہیں ایسی قیادت میسر آئے جوان کی بچوں کو زندگی کا پیغام دے سکے۔پاکستان کی اسلامی تحریک اگر اہلِ فلسطین کو یہ مشورہ دے سکے تو ان کے ساتھ یہی حقیقی ہمدردی ہو گی۔اب اس کے سوا کچھ نہیں ہو گا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہو جائے۔کیا 264 افراد کی جان اس لیے دی گئی؟یہ سچ ہے کہ اسرائیل نے ظلم کیا لیکن سوال یہ ہے کہ فلسطینی قیادت نے اس ظلم کو روکنے کے لیے کیا کیا؟ اس وقت اہلِ فلسطین کو ایک نئی قیادت اور ایک نئی حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔یہ طے ہے کہ موت کو گلیمرائز کرنے والے زندگی کی امید نہیں دے سکتے۔ جو عمومی زندگی میں بھی جنگ کے اصول اپنا تی ہو،قومیں ایسی قیادت کے ہاتھوں برباد ہو جاتی ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں