حسنِ ظن تو خیر کب کا رخصت ہوا۔یہ اعلیٰ انسانی اقدار پرقائم سماج کی ایک خصوصیت ہے۔میںاس کا مطالبہ بھی نہیں کر رہا‘ لیکن کیا ایک مہذب سماج میں محض الزام سچائی کے لیے دلیل بن سکتا ہے؟
افضل خان کے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔عدلیہ کی اعلیٰ ترین شخصیات، دو سابق قاضی القضاۃ، ان کے الزامات کی زد میں ہیں۔اب عدلیہ کے لیے لازم ہے کہ وہ ازخود ان کے الزامات کا نوٹس لے۔اگر ان میں صداقت ہے تو حکومت کی ا خلاقی ساکھ ہی ختم نہیں ہو گی، میرے نزدیک تو انصاف کا سب سے معتبر نام بھی اس کی لپیٹ میں ہو گا۔اس کے بعد ہم جیسے لوگوں کو اپنے لکھے گئے الفاظ واپس لینا ہوں گے اورآئندہ اس قوم کی راہنمائی فرمانے سے تو بہ کر نا ہو گی کہ ان کی بصیرت ناقابلِ بھروسہ ثابت ہوگئی۔ بصورتِ دیگر افضل خان صاحب کو بھی مثال بنادینا چاہیے تاکہ لوگ جان جائیں کہ مہذب سماج میں بغیر ثبوت الزام لگانا کتنا بڑا جرم ہے۔
ہم اخلاقی پستی کی طرف مائل سماج کے باسی ہیں۔ہم میں سے کون ہے جس کے حق میں گواہی آسمانوں سے اترے گی؟یہ سیدہ مریمؑ کا مقدر تھا یا پھر ام المو منین سیدہ عائشہ ؓکا۔سیدہ عائشہؓ کا معاملہ تو یہ تھا کہ عالم کے پروردگار کو یہ بات بھی پسند نہیں آئی کہ ان کی طرف کسی ناپسندیدہ فعل کا گمان ہی کیا جائے۔ناراضی کے لہجے میں اہلِ اسلام کو ندا دی: ''کیوں نہ اس(الزام) کو سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ہمیں ایسی بات زبان سے نکا لنا زیب نہیں دیتا۔سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتانِ ہے۔‘‘ (النور:16) ۔وہ تو خیر اللہ کے رسولﷺ کے اہلِ بیت تھے‘ ہمارا معاملہ مگر دوسرا ہے۔اللہ کی توفیق سے کبھی خیر کا کوئی کام ہو جائے‘ ورنہ یہ امکان غالب رہتا ہے کہ معصیت ہم میں سے کسی کو گھیر لے۔پھر معاملہ جب اجتماعی ہو تویہ بدرجہ اتم ضروری ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ایسے امور کو نظر انداز کرنے کا مطلب خیرو شر کے پیمانے سے صرفِ نظر کر نا ہے۔کوئی سماج اخلاقیات سے بے نیاز ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا۔اس لیے ہماری اخلاقی بقا کے لیے ضروری ہے کہ افضل خان صاحب کی بات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
عمران خان نے تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سچائی کومزید مشکوک بنادیا۔جسٹس افتخار چوہدری کے معاملے میں بھی انہوں نے جس طرح عدالتی ایوان اورجلسہ عام میں فرق رکھا ہے، اس سے واضح ہے کہ سچائی سے ان کا اتنا ہی تعلق ہے جتنا کسی روایتی سیاست دان کا ہو سکتا ہے۔اس لیے ان کے الزامات تو سنجیدگی کھو چکے۔افضل خان المعروف افضل قذافی کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ تحریکِ انصاف کے سرگرم رکن ہیں۔ان کی رونمائی بھی جیسے اور جن حالات میں ہوئی،وہ بھی معاملے کو غیر شفاف بنا دیتی ہے۔یوں ان کی حیثیت متنازع ہے؛ تاہم اس کے ساتھ، یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کا اس وقت حصہ تھے، جب انتخابات ہوئے۔یوں ہم انہیں محرم ِ راز درونِ مے خانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس لیے ان کی بات کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان کی بات کو محض سیاسی بیان بازی قرار دے کر مسترد نہیں کیا جانا چاہیے۔پھر یہ کہ بہت سے افراد ان کے الزامات کی زد میں ہیں۔ ان کی عزت کا بھی سوال ہے۔
پاکستان کے سیاسی کلچر کی اخلاقی تطہیر کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس نوعیت کے الزامات اپنے منطقی انجام تک پہنچیں۔ سیاسی جلسوں میں اور میڈیا پراسمائے صفات کا جس دریادلی کے ساتھ استعمال ہوتا ہے، وہ ہر اس آدمی کے لیے باعثِ تشویش ہے جو اخلاقیات کو اہمیت دیتاہے۔آج جس کا دل چاہے کسی کو کرپٹ کہہ دے۔یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دے۔کوئی جرم کسی سے منسوب کر دے۔کوئی قانون، کوئی اخلاقی ضابطہ اس کا ہاتھ نہیں روکتا ۔یہ اب ہمارا سماجی روز مرہ ہے اور سیاست کو سماج سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا،اس لیے یہ امر سماجی تزکیے کے بغیر ممکن نہیں؛ تاہم سماجی اصلاح کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ میڈیا اس باب میں اپنا کردار ادا کرے۔ میڈیا سماج اور سیاست، دونوں کا بیک وقت متحرک حصہ ہے اور آج دونوں کے بناؤ اور بگاڑ میں بنیادی کرادار ادا کر رہا ہے‘ اس لیے کیا اچھا ہو کہ میڈیا اس اصلاحی عمل میں شریک ہو،اگرچہ اس وقت اس کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔وہ بغیر تحقیقات کے لگائے جانے والے الزامات کی تشہیر کا فی الجملہ ذمہ دارہے۔
افضل خان کا معاملہ ٹیسٹ کیس بن سکتا ہے، اگر میڈیا اور عدالت چاہیں۔اب یہ محض انتخابات کا قصہ نہیں، اداروں کی اخلاقی بقا کا سوال ہے۔اس حوالے سے ہماری تاریخ بد قسمتی سے بہت قابلِ رشک نہیں ہے۔کینگرو کورٹس کی اصطلاح یہاں مستعمل رہی ہے اور 'ڈوگر کورٹ‘ کی اصطلاح تو ہمارے اس نظمِ عدل کی دین ہے۔بھٹو صاحب کے فیصلے کو عدالتی قتل کہا جا تا ہے۔لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ یہ کہا جا تا ہے کہ جسٹس افتخار چوہدری کے بعد اب عدالت بدل چکی۔ڈوگر کورٹس قصۂ پارینہ ہے۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعلیٰ سطح پر اب ممکن نہیں کہ عدالتوں کو زیرِ اثر لا یا جائے۔عمران خان بھی سپریم کورٹ پر اعتماد کرتے ہیں اور اگر ان کے عدالتی بیان پر اعتبار کیا جائے توعدلیہ کی آزادی کے لیے وہ جسٹس افتخار چوہدری کو بھی خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔اس لیے اب یہ کیسے گوارا کیا جاسکتا ہے کہ ایک شخص بھری بزم میں دو معزز ترین جج صاحبان کے معاملے میں کوئی بات کہے اور اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا ئے۔
میرے نزدیک سب سے زیادہ یہ ذمہ داری عدلیہ کی ہے کہ وہ اپنے دامن پر لگے الزامات کے داغوں کو دھوئے۔یہ تو طے ہے کہ اس کی سنگینی عتیقہ اوڈھو کے سامان سے مبینہ طور پر برآمد ہونے والی شراب سے تو کہیں زیادہ ہے۔یہ چند افراد کا نہیں، ادارے کا معاملہ ہے۔افضل خان کہہ رہے ہیں کہ ایک شخصیت انتخابی دھاندلی میں ملوث ہے جب وہ قاضی القضاۃ تھی۔دوسری بعد میں اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئی۔اس لیے یہ ایک سنگین معاملہ ہے ا ور میرا خیال ہے کہ اسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہیے۔ عمران خان کی اٹھائی اس مہم سے اگر اداروں کی تطہیرکا عمل شروع ہو جائے تو یہ بھی تخریب میں چھپی، تعمیر ہی کی ایک صورت ہو گی۔ اداروں کی اصلاح کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ ان پرکوئی نازیبا الزام لگانے کی جسارت نہ کر سکے۔مغرب میں یہ روایت مستحکم ہو چکی۔ جھوٹے الزام پر میڈیااور افرادکو بھاری جرمانہ ادا کر ناپڑتا ہے‘ اس لیے لوگ الزام لگانے میں محتاط ہوتے ہیں۔کسی سماج میں اگر عدلیہ خود ہی الزامات کی زد میں ہو تو پھر معاملے کی سنگینی بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا اب لازم ہے کہ عدالت اس کا ازخود نوٹس لے اوران الزامات کی صداقت کو پرکھے۔اس کا جو بھی فیصلہ ہو، جیت عدلیہ ہی کی ہو گی۔لیکن اگر اسے نظرا نداز کیا گیا تو شکوک کے سائے ریاستی اداروں کی چھتوں پر منڈلا تے رہیں گے۔پھر لوگ ہر افضل خان کی بات کو سچ سمجھیں گے۔
ضروری ہے کہ 'ڈوگر ‘کی طرح 'افضل‘ بھی ہماری عدلیہ کی تاریخ کا نا قابلِ فراموش کردار بن جا ئے۔