اس وقت پاکستان کی سیاست عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے زیرِ اثر ہے۔ سیاست میں کامیابی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کی باگ آپ کے ہاتھ میں ہو۔ ان دونوں شخصیات میں البتہ ایک فرق ہے۔ ابھی تک اس بات کے آثار دکھائی نہیں دیے کہ قادری صاحب ایک انتخابی طاقت بھی ہیں۔ عمران خان البتہ ایک مسلمہ انتخابی قوت ہیں۔ اس لیے عوامی تحریک کے مقابلے میں تحریک انصاف میں یہ صلاحیت نسبتاً زیادہ ہے کہ وہ ملکی سیاست پر اثر انداز ہو؛ تاہم یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ اثر ہے کیا؟ میں اپنا تجزیہ نکات کی صورت میں بیان کر رہا ہوں۔
1: دونوں نے مل کر اس بیانیے کو مضبوط کیا ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی و انتظامی ڈھانچے سے کوئی خیر وابستہ نہیں۔ اس کا مٹ جانا ہی بہتر ہے۔ یہ بیانیہ پہلے سے موجود تھا۔ ان حضرات نے اسے گروہی صورت میں اس طرح مجسم کر دیا کہ یہ تقسیم نمایاں ہو گئی ہے۔ ان کے قائم کردہ تاثر کے مطابق ایک طرف 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں ہیں‘ جن کی نمائندگی ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں اور دوسری طرف تحریکِ انصاف یا عوامی تحریک ہیں‘ جو تبدیلی کی علامت ہیں۔ یہ دونوں بیانیے پہلے بھی موجود تھے لیکن اس طرح متشکل نہیں تھے۔ حبیب جالب مرحوم تو سب سے زیادہ شہباز شریف صاحب کے قبضہ قدرت میں رہے۔ پیپلز پارٹی میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو اس جماعت کو ایک انقلابی قوت قرار دیتے رہے۔ تحریکِ انصاف تبدیلی کی بات تو کرتی‘ لیکن اس کے لہجے میں اس نظام کے بارے میں زیادہ شدت نہیں تھی۔ پچاس دنوں کی اس مہم میں، عمران خان اور قادری صاحب نے کامیابی کے ساتھ دو نقطہ ہائے نظر کے مابین ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ یہ لکیر مصنوعی ہے۔ دونوں طرف یہی 'سٹیٹس کو‘ کی قوتیں ہیں۔ میں اس کے دلائل گزشتہ کالموں میں بیان کر چکا؛ تاہم ان حضرات کو داد دینی چاہیے کہ وہ متوسط طبقے کے ایک بڑے حصے کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ جس جماعت کی قیادت 'سٹیٹس کو‘ کی علامت ایک مذہبی شخصیت کے ہاتھ میں ہو یا جس کی دوسری اہم ترین شخصیت شاہ محمود قریشی اور فکری رہنما شیخ رشید ہوں، وہ بھی ایک انقلابی قوت یا تبدیلی کی علامت ہو سکتی ہے۔
2: عمران خان اگرچہ ایک سیاسی رومان کا نام ہے‘ اس کے باوصف یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ لوگ ان کی ہر بات آنکھیں بند کر کے مان لیں۔ اس بارے میں اب دو آرا نہیں کہ دھرنا ناکام رہا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عوام کی عدم شمولیت ہے۔ اسی طرح انہوں نے سول نافرمانی کی بات کی‘ تو بھی ان کے متاثرین نے سنی ان سنی کر دی۔ انہوں نے یہ چاہا کہ دھرنے ملک بھر میں پھیل جائیں، اس میں بھی وہ ناکام رہے؛ تاہم جب انہوں نے جلسے کے لیے آواز دی تو ان کے متاثرین نے پورے جوش کے ساتھ اس کا جواب دیا۔ اس کے مظاہر کراچی اور لاہور میں دکھائی دیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی سیاسی تحریک ایک خاص زاویے ہی سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ وقت کی ڈور ان کے ہاتھ آ گئی ہے۔ وہ جب چاہیں، جیسے چاہیں، عوام کو متحرک کر سکتے ہیں۔ اب دکھائی دے رہا ہے کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی جلسوں کا آغاز کرنے والی ہیں۔ اگر میڈیا نے گزشتہ پچاس ایام کی طرح اپنا سارا وزن تحریکِ انصاف کے پلڑے میں نہ ڈالا‘ تو اس باب میں امتیاز قائم رکھنا ان کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ ان دنوں میں میڈیا کی تائید کے ساتھ انہیں دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ ملک کی کوئی دوسری سیاسی جماعت میدان میں نہیں تھی اور وہی مرکزِ نگاہ تھے۔ سیاست جیسے جیسے آگے بڑھے گی، انہیں اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔
3: عمران خان نے سیاسی گروہ بندی کو سیاہ اور سفید (Black and White) کی بنیاد پر فروغ دیا۔ ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ ایک طرف عمران خان ہیں‘ جو سراپا خیر ہیں، جنہیں برائی چھو کر نہیں گزری‘ دوسری طرف نواز شریف ہیں جو سراپا شر ہیں، جنہیں نیکی چھو کر نہیں گزری۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے حامی ان پر کسی قسم کی تنقید سننے پر آمادہ نہیں۔ اس رویے کے دو نقصانات ہوئے۔ ایک یہ کہ تحریکِ انصاف پر اصلاح کا دروازہ بند ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ ملک میں سیاسی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ انہوں نے سیاست کو انتہائی محبت اور انتہائی نفرت کے اصول پر استوار کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ اخلاقیات سے تہی دامن سیاسی رویہ ہے۔ اب ہر تقریب میں چند لوگ پہنچ جاتے اور 'گو نواز گو‘ کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔ توفیق بٹ اسی رویے کا ردِ عمل ہے۔ اب روز بروز اس میں اضافہ ہو گا۔ تھوڑی دیر کے لیے سوچیے کہ اگر تحریکِ انصاف کی ہر تقریب میں چند لوگ 'گو عمران گو‘ کے نعرے لگانے لگیں تو کیا یہ سماج فساد کی آ ماجگاہ نہیں بن جائے گا۔ اگر ن لیگ کے لیے جلسہ کرنا مشکل بنا دیا جائے گا‘ تو کیا تحریکِ انصاف کے اجتماعات پُرامن رہ سکیں گے؟ یہ رویہ پورے سماج کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور اس کا نتیجہ ہم جان سکتے ہیں کہ کیا ہو گا۔ میرے نزدیک یہ وہ نامناسب ترین بات ہے جو عمران خان کے زیرِ اثر سیاسی رویے کا حصہ بنی۔ بھٹو صاحب نے سب سے پہلے اس اسلوبِ سیاست کو متعارف کرایا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شرفا کے لیے سیاست اور صحافت کرنا مشکل ہو گیا۔کیا ہم پھر اسی دور کی طرف لوٹ رہے ہیں؟
4: عمران خان کی اس سیاست کا ایک اثر یہ ہے کہ آئین اور قانون کا احترام کم ہوا ہے۔ انہوں نے اس رحجان کو تقویت پہنچائی ہے کہ اگر کوئی گروہ پانچ سات ہزار افراد کو مدتِ دراز تک متحرک رکھ سکتا ہے‘ تو وہ ریاست کے نظام کو بھی مفلوج کر سکتا ہے۔ اب مستقبل میں کسی کے لیے حکومت کرنا آ سان نہیں رہے گا۔ اگر مذہبی انتہا پسندوں نے بھی یہ راستہ اپنایا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک اور سماج کس مشکل کا شکار ہوں گے۔ طویل عرصے کے بعد یہ رجحان پیدا ہوا تھا کہ ملک میں جو سیاسی تبدیلی آئے، وہ قانونی اور آئینی راستے سے آئے۔ اس مثبت پیش رفت کو شدید جھٹکا لگا ہے اور اس کے اثرات مستقبل میں محسوس کیے جائیں گے۔
5: عمران خان کی شخصیت اور ساکھ اِن دنوں میں بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ وہ ایک ایسے روایتی سیاست دان کے طور پر ابھرے ہیں جو اقتدار کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عمران کی شخصیت میں ایک خاص طرح کی معصومیت اورجاذبیت تھی۔ ان میں ایک شرمیلا پن تھا‘ جو ان کی شخصیت کو پُرکشش بناتا تھا۔ یہ سب کچھ ان پچاس دنوں میں پوری طرح رخصت ہو گیا۔ اب وہ جس لب و لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، ہماری روایت اسے قبول کر نے پر آ مادہ نہیں۔ آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ کیا یہ وہی شرمیلا عمران ہے؟ میرے نزدیک ان کی شخصیت کا یوں اپنی کشش کھونا بھی کم المیہ نہیں ہے۔
ان پچاس دنوں میں سچ یہ ہے کہ بہت کچھ ضائع ہو گیا۔ جسے بیداری کہا جا رہا ہے، وہ ہیجان اور اضطراب کے سوا کچھ نہیں۔ موجود نظام سے مایوسی اگر غم و غصے کے بے سمت اظہار کے بجائے تبدیلی کی کسی سنجیدہ حکمت عملی اور وژن کے تابع ہوتی تو یہ پاکستان کے لیے نیک شگون تھا۔ آج قوم کے سامنے ایک اور بے یقینی کے سوا کچھ نہیں۔