برادرم سراج الحق کسی راستے کی تلاش میں ہیں۔کیا قاضی حسین احمد پسِ مرگ ان کا ہاتھ تھام سکتے ہیں؟
دو برس پہلے، یہی6۔ جنوری کی تاریخ تھی جب قاضی صاحب رخصت ہوئے۔ آج یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں توانہیں یاد کر رہا ہوں۔ مو لانا مو دودی کے بعدوہ پہلے امیرتھے جنہوں نے جماعت اسلامی کو نئے خد وخال دیے۔ سید منور حسن نے جماعت کو کیادیا؟سید صاحب کا ادب مانع ہے کہ اس پرکچھ کلام کیا جائے۔ سراج الحق صاحب کیا دے پائیں گے، ابھی پردۂ غیب میں ہے۔ وہ گرم دمِ جستجوہیں ؛ تاہم ابھی منزل کا سراغ ان کے ہاتھ نہیں آیا ۔ قاضی صاحب کی دوسری بر سی پہ مجھے خیال ہوا کہ اس قصہ پارینہ کو دہرایا جائے۔ شاید سراج الحق صاحب کو اس راکھ میں کوئی سلگتی ہوئی چنگاری دکھائی دے!
زندگی فکر وعمل سے عبارت ہے۔یہ دونوں کسی ایک وجود میں مشکل سے متشکل ہوتے ہیں۔ خوش بختی سے اقبال و جناح کا کوئی امتزاج قائم ہو جائے تو منزل ہاتھ آ جاتی ہے۔۔۔۔۔ایک سراپا فکر،ایک سراپا عمل۔ خرم مراد مر حوم اور قاضی حسین احمدکی صورت میں جماعت اسلامی کو ایسا امتزاج میسر آیا۔ جماعت ان کے سبب ایک نئی لَے اور آہنگ سے آ شنا ہوئی۔ اہلِ جماعت کی سماعتوں کولیکن یہ آواز اجنبی لگی۔ ان کے کان برسوں سے جس راگ کے عادی تھے، نغمۂ تازہ،اس سے بہت مختلف تھا۔جب نئی آواز سے کانوں ہی کا رشتہ قائم نہ ہو سکا تووہ دل میں کیسے اترتی؟ قاضی صاحب ہی کو رجوع کرنا پڑا۔ وہ نغمہ فضاؤں میں بکھر گیا۔ اگر اس کی صدائے باز گشت سراج الحق صاحب کو سنائی دے تومیرا احساس ہے کہ اس سے جرسِ کارواں کا کام لیا جا سکتا ہے۔اس نغمے کی لے، دراصل تھی کیا؟
جماعت اسلامی کی نصف صدی کی تاریخ خرم صاحب اور قاضی صاحب کے سامنے تھی۔ایک ہمہ گیر تبدیلی کی داعی جماعت نے،ایک عرصے سے،اپنی توانائیوں کا بڑا حصہ سیاسی تبدیلی کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اس کے باوجودتبدیلی کے آثارکہیں دکھائی نہیں دیے۔ مزید یہ ہوا کہ جو اخلاقی متاع تھی، وہ بھی سیاست کے غبار میں کہیں کھوگئی۔ خرم صاحب نے اس رازکو جان لیا کہ محدود رکنیت کے اصول پرکھڑا نظم ِ جماعت، سیاسی کامیابی کے راستے میں حائل ہے۔ قاضی صاحب کا نتیجۂ فکر بھی یہی تھا۔ اگر تبدیلی جمہوری راستے سے آنی ہے تو لازم ہے کہ عامۃ الناس کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ خرم صاحب نے واضح کیا کہ کہ انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں، توسیعِ دعوت کے لیے نہیں۔اس سوچ نے پاکستان اسلامک فرنٹ اور پاسبان کو جنم دیا۔ جماعت نے اس سوچ کو اُگل دیا ۔ اندازہ ہوا کہ اس قلبِ ماہیت کے لیے جس نظری کام کی ضروت تھی، وہ نہیں ہو سکا۔ اہلِ جماعت کے ذہنوں کو برسوں کی محنت سے جس سانچے میں ڈھال دیا گیا تھا،اس کو بدلنا آسان نہیں۔اس کوتبدیل کیے بغیرکوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتاتھا۔یوں ایک توانا تصورعجلت کی نذر ہوگیا۔کیا سراج صاحب اس تصور کو زندہ کر سکیں گے؟
قاضی صاحب کا یہ تجربہ ناکام ہوا لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے جماعت کو اس کے بند خول سے نکا لا۔ لوگوں کو تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع دیا۔ میں نے قاضی صاحب کی ایک تصویر دیکھی جس میں وہ احمد فرازکے انتقال پر، تعزیتی کتاب میں اپنے تاثرات لکھ رہے ہیں ۔یہ جرأتِ رندانہ قاضی صاحب ہی کر سکتے تھے۔ قاضی صاحب سے پہلے شاید کوئی اس طرح نہیں سوچ سکا۔ قاضی صاحب کی برسی پر ان کے قائم کردہ 'ادارہ فکر و عمل‘ نے ان کی یاد میں ایک دستاویزی فلم بنائی، اس میں مشاہد حسین صاحب کی زبان سے میں نے سنا کہ قاضی صاحب کے دور میں چین کی کمیونسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی کے مابین ایک ایم او یو پر بھی دستخط ہوئے۔ یہ معمولی تبدیلی نہیں تھی۔افسوس کہ جماعت کے حلقے اس کا پوری طرح ادراک نہ کر سکے۔
جماعت کا نظم اور سوچ جب اسلامک فرنٹ اور پاسبان کے راستے میں حائل ہو ئی توقاضی صاحب کا جنون انہیں مذہبی جماعتوں کے اتحاد کی طرف لے گیا۔ اس کا یہ فائدہ تو ہوا کہ مسلکی اختلاف کم ہوا لیکن جماعت کو یہ نقصان ہوا کہ وہ سیاسی اور فکری شناخت سے محروم ہو تی گئی۔ اب وہ جمعیت علمائے اسلام(ق) بن گئی۔ پختونخوا حکومت میں چند وزارتوں کی یہ قیمت بہت زیادہ تھی۔ یہ زبانِ حال سے اس بات کا اقرار تھا کہ جماعت اسلامی کی تنظیم کے بارے میں قاضی صاحب زیادہ پر امید نہیں رہے۔ امارت کے بعد انہوں نے قومی اخبارات میں ایک مضمون لکھا: ''ایک نئی جماعت کی ضرورت‘‘۔ یہ مضمون اس بات کاا علان تھا کہ ان کی نظر میں جماعت اسلامی اس تنظیمی ساخت کے ساتھ کسی بڑی تبدیلی کی بشارت نہیں بن سکتی۔
تو کیا سراج الحق صاحب کوبھی اس کا اندازہ ہے؟کیانئی حکمتِ عملی کی تشکیل میں، وہ جماعت کے سابقہ تجربات سے فائدہ اٹھائیں گے؟بعض باتیں تو وہ اب کہنے لگے ہیں۔ جیسے جہاد و قتال کا اعلان ریاست ہی کر سکتی ہے۔ میرے نزدیک یہ جماعت کی کم و بیش پچیس سالہ سوچ سے رجوع کا اعلان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مستقبل میں یہ رجوع جماعت کی حکمتِ عملی میں کیسے ظہورکر تا ہے۔ ان کی بعض غلط فہمیاں مگراب بھی قائم ہیں۔ جیسے مذہبی جماعتوں کا اتحاد۔ جیسے متضاد رحجانات کوجمع کر نے خواہش ۔ میرا خیال ہے کہ انہیں بیساکھیوں کے بغیر آگے بڑھنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ یہاں قاضی حسین احمد ان کا ہاتھ تھام سکتے ہیں، پسِ مرگ بھی۔
اسلامک فرنٹ کے بارے میں میرا خیال ہے کہ سراج صاحب اور جماعت کی شوریٰ کوایک بار پھر سوچنا چاہیے۔اس تصور کا احیا،نئے خدو خال کے ساتھ۔اس کے لیے انہیںایک طرف روایتی مذہبی سوچ کے دھارے سے نکلنا ہو گا اور دوسری طرف جماعت کے مو جودہ نظم سے بھی۔ اس سے نکلنے کا مطلب، اسے چھوڑنا نہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک قومی سیاسی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے جو عوام کو قومی تعمیرکے ایک ایجنڈے پر جمع کر سکے۔ اس کے لیے مذہبی اور غیر مذہبی، لبرل اور اسلامسٹ جیسی تقسیم سے بلند تر ہوکر سوچنا ہوگا۔ پاکستانی قوم کو آج جو امن، خوش حالی، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ اورآگے بڑھنے کے مساوی مواقع کی ضرورت ہے ، اس میں مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم غیر اہم ہے۔ قاضی صاحب کی خوئے دل نوازی ،اس باب میں رہنما بن سکتی ہے۔ جماعت کا مو جودہ نظم، اس پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے کی سیاسی و اخلاقی تعمیر کے لیے ایک مدرسے، ایک ادارے کا کام کر سکتا ہے۔ ترکی، تونس اور معاصرمسلم دنیا کے تجربات میں بھی سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
اس بات کا احساس ، مجھے قاضی حسین احمد صاحب پر بننے والی دستاویزی فلم دیکھتے وقت ہوا۔ بیتے ہوئے ایام کی یاد ایک بار پھر زندہ ہوئی۔ کیاجماعت کے حلقوں میں قاضی صاحب کو اس حوالے سے یاد کیا جائے گا؟جماعت نے تو اپنے بانی کوکبھی یاد نہیں کیا، قاضی صاحب کو کیا یاد کرے گی۔ بصیرت مگر یہی ہے کہ زندگی کو تجربات کی نذر کر نے کے بجائے، پرانے تجربات سے سیکھنا چاہیے۔ قاضی صاحب نے جماعت کے خدو خال کو تبدیل کیا۔ سراج الحق صاحب بھی اگر ایسا چاہتے ہیں تو انہیں ماضی کے تجربات پر ایک ناقدانہ نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔کسی خرم مراد کے بغیر ،کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟اس کا جواب مستقبل کے پردے میں چھپا ہے۔ یوں بھی یہ جماعت کے سوچنے کا کام ہے۔ مجھے تویہ سارا قصہ قاضی حسین احمدکی نسبت سے یاد آیا۔ان کی دوسری برسی پر ، میںان کی مغفرت کے لیے دعاگوہوں۔26 دسمبر کو پروفیسرعبدالغفور صاحب کی برسی گزری ہے۔ اس وضع کے لوگ اب کہاں؟اللہ تعالیٰ انہیں بھی اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔