ہماری وزارتِ مذہبی امور نے طویل فکری ریاضت کے بعد، وحدتِ امت کا ایک ایسا نسخہ تلاش کرلیا ہے کہ اِس محیرالعقول دریافت پر،یہ حضرات بلا شرکتِ غیرے نوبیل انعام برائے امن کے حق دار قرار پاسکتے ہیں۔اگر یہ نسخہ چند ماہ پہلے منصہِ شہود پرآگیا ہوتا توعالمِ انسانیت اس وقت ملالہ کے بجائے وزارتِ مذہبی امورکا چرچاکر رہا ہوتا۔قحط الرجال کے اس دور میں، جب میں اس دریافت کودیکھتاہوں توسوچتا ہوں:ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی؟
آپ کو مزید تجسس میں ڈالے بغیر میں یہ نسخہ یہاں بیان کر رہا ہوں ؛ اگرچہ اخبارات نے اسے پہلے ہی طشت از بام کر دیاہے۔نسخہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں اب نمازوںکے اوقات ایک ہوںگے۔اذان بھی ایک ہی وقت ہوگی۔ سب بازار بند ہو جائیں گے، محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں گے، سرکاری دفاتر میں نمازکا وقفہ ہوگا اور وضوکا اہتمام بھی کیا جائے گا۔اور ہاں !حکومت اس معاملے میں بھی کمیٹیاں بنانا نہیں بھولی۔خوش خبری یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل پا گئی ہے جوایک ہفتے میں اپنی رپورٹ دے گی۔ دوسرے مرحلے میں تاجروں کی کمیٹی بنے گی۔جب اس کے نتیجے میں اسلام آباد وحدتِ امت کا مرکز بن جا ئے گا تو پھر اس نسخے کو سارے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔کیاخیال ہے، یہ فارمولہ غیر معمولی ذہانت کا مظہر نہیں ہے؟کیااس کے بعدکسی کی جرأت ہوگی کہ وحدتِ امت کو پارہ پارہ کرے؟افسوس کہ قرونِ اولیٰ میںعقل ودانش کے ایسے مظاہرسامنے نہیں آ سکے ورنہ ہماری تاریخ میں کسی جنگِ جمل کا ذکر ہو تا نہ جنگِ صفین کا۔ خوارج ہوتے نہ کوئی اور فرقہ۔
ہم آج تک یہ خیال کرتے رہے کہ نمازوںکے اوقات میں یہ تنوع آ سانی کے لیے ہے۔ میں نے تو یہی جاناکہ مسلمانوںکے مختلف گروہوں میں اس نوعیت کے فروعی اختلافات باعثِ رحمت ہیں۔ نمازکے اوقات میں فرق سے بے پناہ آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ اہلِ حدیث کہلانے والے مسلمان عصرکی نماز جلدی پڑھتے ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ اِن دنوں راولپنڈی اسلام آباد میںعصرکا وقت ساڑھے تین بجے سے تقریبا ً چھ بجے تک ہے۔کوئی اوّل وقت پر پڑھنا چاہے تو اسے جماعت مل سکتی ہے اور اگر کوئی قدرے تاخیر سے پڑھ رہا ہے تو امکان ہے کہ جماعت سے محروم نہیں رہے گا۔اسی طرح کوئی مغرب اوّل وقت میں نہیں ادا کر سکا تواہلِ تشیع کے ہاں پڑھ سکتا ہے۔ شاید اسی بات کی تفہیم کے لیے حضرت سفیان ثوری نے کہا: ''یوں نہ کہوفقہانے اختلاف کیا ہے،یوں کہوانہوں نے آسانیاں پیدا کر دی ہیں‘‘۔ یہ دراصل مذہب بیزار افراد کااٹھایا ہوا بے معنی اعتراض تھا کہ جو لوگ ایک وقت میں نماز نہیں پڑھ سکتے،وہ ایک اسلام پرکیسے متفق ہوسکتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے اس کا ایسا ہی بے معنی جواب بھی دیا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں راولپنڈی میں ایک عالم تھے، مولانا عبدالستار توحیدی۔ٹرنک بازار میں ان کی مسجد تھی۔ان کے ہاں جمعہ اور عصر میں حدِ فاصل تلاش کرنا خاصی فقاہت کا متقاضی تھا۔ ہمارے شہر میں اگرکوئی جمعہ سے رہ جاتا تواسے کہا جاتا:پریشان نہ ہو،ٹرنک بازار چلے جاؤ،جمعہ مل جائے گا۔ سچ یہ ہے کہ جو بات اُس وقت ازراہِ تفنن کہی جا تی تھی، آنے والے دنوں میں اس کی حکمت واضح ہوئی۔ میرا ایک مرتبہ امریکہ جاناہوا۔ شکاگوکی ایک مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی۔ ہم جب مسجد سے باہر آئے تو بڑی تعداد میںلوگ اس وقت بھی مسجد میں داخل ہو رہے تھے۔ میں نے از راہِ افسوس،اپنے ایک رفیق سے کہا کہ ان کی نمازتو رہ گئی۔ معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے‘ اسی مسجد میں اب دوسرا جمعہ ہوگا۔ لوگوں کی آسانی کے لیے ایک مسجد میں جمعہ کے دو اجتماعات ہوتے تھے۔امریکہ وغیرہ میں چو نکہ مساجد کی بھی کمی ہے، اس لیے ایک عمارت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا تا ہے۔ سچ یہ ہے کہ اگر وحدتِ امت کے نام پرسب مسلمانوںکو ایک ہی وقت کا پابندکر دیا جائے توان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں۔ یہ سوال لیکن ہم جیسے عامی ہی اٹھا سکتے ہیں‘ جو وحدت کے مصالح سے بے خبر ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں اور زمامِ کار بھی ان کے ہاتھ میں ہے، وہاں نمازکا اہتمام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ وہ مساجدکے قیام سے لے کراوقاتِ نماز کے تعین تک، ہر بات کی ذمہ دار ہے، لیکن یہ ذمہ داری اتنی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دارالحکومت میں خود خطبہ دیںاوردیگر مقامات پران کے مقررکردہ عُمال۔ اگر حکومت نے نظام ِصلوٰۃ کے قیام کا بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو اسے پوری طرح نافذ کیاجانا چاہیے۔ اسلام آباد میں وزیراعظم خطبہ دیں اور لاہور میں شہباز شریف۔کراچی میں قائم علی شاہ اور پشاور میں پرویز خٹک۔ بلوچستان میں عبدالمالک صاحب اور مظفرآباد میں چودھری عبدالمجید صاحب۔ کیا حکومت اس پر آ مادہ ہے؟
ایک سوال اور بھی ہے۔اسلام آباد میں مساجد فرقہ واریت کی بنیاد پرتعمیرکی گئی ہیں اور یہ حکومت کی طے شدہ حکمتِ عملی ہے۔ یہ پالیسی ابتدا سے چلی آ رہی ہے اورسی ڈی اے اس کی منتظم ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں بہت سی مساجد غیر قانونی ہیں۔اس سارے نظام کو قائم رکھتے ہوئے، کیا نمازوں کے اوقات ایک کرنے سے اسلام آباد میں فرقہ واریت ختم ہو جائے گی؟ کیا حکومتی رٹ اس کا نام ہے کہ پوری قوم ایک وقت میں نماز پڑھے؟ مسجد کب اورکہاں بننی ہے، وہاں کیا گفتگو ہونی ہے،کون امام بن سکتا ہے اور کون خطیب،کیا ان سوالات کا حکومتی رٹ سے کوئی تعلق نہیں؟
ایک وقت میں نماز، بالخصوص نمازِ جمعہ ایک انتظامی مسئلہ ہے اور اس کے بعض اور پہلو بھی ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ بڑی تعداد میں نماز جمعہ کے لیے گھروں سے نکلتے ہیں۔ جب پورا شہر ایک ساتھ نکلے گا تو ٹریفک کے مسائل کئی گنا بڑھ جائیں گے۔اسلام آباد میں کئی مساجد شہرکی بڑی سڑکوں کے ساتھ ہیں۔کئی توگرین بیلٹ پر ہیں۔اس وقت بھی فیصل مسجد کے قریب شاہراہِ فیصل پر قائم مسجد میں جب جمعہ کا وقت ہوتاہے توگاڑیوں کے ہجوم کے باعث ٹریفک رک جا تی ہے۔ جب سب مساجد میں ایک وقت نماز ہو رہی ہوگی تو پھرکیا ہوگا؟مزید یہ کہ ایک وقت میں جب سب بازار بند ہو جائیں گے تو خریداروںکاکیا ہوگا جن میں سے اکثر خواتین ہوتی ہیں جو عام طور پر مسجد نہیں جاتیں؟
مسلمانوں میں فرقہ واریت اب تازہ جوش کے ساتھ ظہورکر رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے پاکستان تک ایک نیا منظر ابھرنے والا ہے۔ پاکستانی قیادت کو اس وقت ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنا اور یہ سوچنا ہے کہ ملک کو اس آگ سے کیسے بچا یا جائے۔ یہاں حال یہ ہے کہ نمازوں کے اوقات میں وحدتِ امت تلاش کی جار ہی ہے۔کمیٹیاں بن رہی ہیں، علماایثارکر تے ہوئے دوسرے مسلک کے اوقات میں نماز پڑھیںگے اوراسے فرقہ واریت کا خاتمہ سمجھا جارہا ہے۔ جو تنوع آسانی کے لیے تھا اسے فرقہ واریت کی بنیاد مان کر اقدامات ہورہے ہیں اور جہاں سے فرقہ واریت دراصل پھوٹ رہی ہے،وہاں کسی کی نگاہ نہیں۔ لیکن یہ سب ہم عامیوں کی باتیں ہیں۔عوام کیا جانیںکہ رموزِ حکومت کیا ہوتے ہیں۔ ہم اگر اس قابل ہوتے تو حکومت کا حصہ نہ ہوتے۔اس لیے،کم از کم میں تواعترافِ عجزکرتاہوں کہ میری رسائی، عقل وخرد کے اس درجے تک نہیں ہے جہاں ایسی تجاویز ڈھلتی ہیں۔آئیے انتظارکریں کہ کب یہاں آباد امتِ مسلمہ ایک وقت میں سر بسجود ہوگی اور راوی ہر طرف چین لکھے گا۔ وما علینا الاالبلاغ۔