زندگی کے ہر پہلو کو مذہب کی آنکھ سے دیکھنے والوں پر، اب چند باتیں منکشف ہو گئی ہیں:
1۔اقوام ِعالم میں برپا معرکے اصلاً مذہبی نہیں، سیاسی ہوتے ہیں۔ یہ طاقت کا کھیل ہے جو انسانی جبلت کے زیر اثر جاری ہے اور تا ابد جاری رہے گا۔
2۔ قومی اور اجتماعی سطح پر مذہب کے علاوہ دوسری عصبیتیں بھی ہیں جو لوگوں کو مجتمع رکھتی اور انہیں اجتماعیت کی اساس فراہم کرتی ہیں۔ جیسے وطن، نسل اور زبان۔
3۔ اقوام اور ممالک کے مابین اصل رشتہ نظری نہیں، مفاداتی ہے۔ یہ اجتماعی مفاد ہے جو ملکوں کے درمیان تعلقات کی صورت گری کرتا ہے۔ دنیا میں دوستی نظری نہیں ہوتی، مفاداتی ہوتی ہے۔
سعودی عرب اور یمن کے قضیے میں، جو لوگ سعودی عرب کا ساتھ دینے کے حق میں ہیں، وہ کم و بیش انہیں خطوط پر اپنا مقدمہ مرتب کر رہے ہیں۔ جو ممالک کے درمیان موجود جغرافیائی سرحدوں کو مصنوعی اور استعمار کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے، اس تقسیم کو نہیں مانتے اور ہمیں ایک مدت سے یہ سمجھا رہے ہیں کہ عالم انسانیت دراصل دو گروہوں حزب اﷲ اور حزب الشیطان میں منقسم ہے، ان کا کہنا بھی اب یہی ہے کہ مشرق ِسطیٰ میں، اس وقت کوئی مذہبی معرکہ برپا نہیں ہے۔ یہ اقتدار کی ایک جنگ ہے جس میں سعودی عرب اور ایران دو فریق ہیں۔
ایک تیسرا فریق اسرائیل بھی مصنوعی طور پر اس معرکے میں شامل کر دیا گیا ہے جسے عالمی طاقتوں نے اپنے اقتدار کو اس خطے تک پھیلانے کے لیے، ایک مورچے کے طور پر قائم کیا ہے۔ قرآن مجید کی پیش گوئی ہے کہ یہود قیامت کی صبح تک حضرت مسیحؑ کے ماننے والوں کے طفیلی بن کر رہیں گے۔ اس لیے اسرائیل کی اپنی کوئی شناخت، شاید کبھی قائم نہ ہو سکے۔ اس طرح اسرائیل کی صورت میں تیسرا فریق امریکہ اور عالم مغرب ہے۔
اگر اجتماعی زندگی اِسی طرح ریاستی مفاد کے زیر اثر تربیت پاتی ہے تو 9/11 کے بعد عالمی سطح پر برپا ہونے والے اُس معرکہ کی بھی یہی تعبیر ہونی چاہیے جس میں پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت ایک برادر ملک افغانستان یا 'مسلمان‘ طالبان کے خلاف امریکی حمایت کی مخالفت ،امت مسلمہ کو ایک اکائی مانتے ہوئے کر رہے تھے، آج سعودی عرب کی حمایت کے حق میں ہیں اور اس پہلو سے صرفِ نظر کر رہے ہیںکہ حوثی یا ایران بھی تو امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ اس کے خلاف سعودی عرب کی حمایت کیوں؟ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اس معرکے میںامریکہ سعودی عرب کا موالی ہے۔
جب افغانستان کے حکمرانوں نے سوویت یونین کو اپنی مدد کے لیے بلایا تو ہم نے امریکہ کے ساتھ مل کر حفیظ اللہ امین کے مقدمے کو مسترد کر دیا۔ پھر ہم نے وہاں اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور یوں دوسروں کے معاملات میں مداخلت کو روا اور قومی مفاد کا تقاضا جانا۔9/11کے بعد،جب افغانستان پر امریکہ حملہ آور ہوا تو قومی مفاد کا تقاضا یہی تھا کہ امریکہ کا ساتھ دیا جائے۔ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہم میں سے بعض نے اُس وقت اس واقعہ کو مذہبی آنکھ سے دیکھا اور اسے امت مسلمہ کا مسئلہ قرار دیا۔ حالانکہ اس وقت بھی سعودی عرب سمیت عالم اسلام کے اکثر ممالک امریکہ کے اتحادی تھے اور ہم نے قومی مفاد ہی میں یہ طے کیا تھا کہ امریکہ کا ساتھ دیا جائے۔ ساری دنیا اسی تناظر میں سوچتی ہے اور آج مشرقِ وسطیٰ میں بھی سعودی عرب، ایران، مصر،ترکی اور دوسرے ممالک اسی حوالے سے اپنی حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں۔
لمحۂ موجود میں سعودی عرب کو کسی بڑے خارجی خطرے کا سامنا نہیں۔ یمن کے حوثیوں کا اصل مسئلہ یمن کے اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ وہ اس کی مادی استطاعت نہیں رکھتے کہ سعودی عرب پر حملہ آور ہوں۔ تاہم مستقبل میں اس کا پورا امکان ہے کہ اگر وہ یمن کے اقتدار پر قبضہ کر لیتے ہیں تو پھر سعودی عرب کے لیے ایک مستقل درد سری بن سکتے ہیں۔ موجودہ تاریخ میںیہ ایران کی سب سے اہم پیش قدمی ہو گی کہ وہ بالواسطہ طور پر سعودی عرب کی سرحدوں تک پہنچ جائے۔ سعودی عرب کو اس کی پیش بندی کرنی ہے کہ ایسا نہ ہونے پائے۔ یوں وہ برائی کو جنم لینے سے پہلے ہی ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک قومی ریاست کے مفادات ہیں۔ اگر وہ داخلی سطح پر پاکستان کی حمایت چاہتا ہے تو یہ دو طرفہ معاملات ہیں۔ اگر پاکستان سعودی عرب کی مدد کرتا ہے تو یہ اخلاقی طور پر غلط ہو گا نہ کسی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی۔ تاہم اگر پاک فوج کو یمن پر حملے کے لیے کہا جاتا ہے تو پھر معاملے کی نوعیت دوسری ہے۔ اس صورت میں ہمیں اپنی اخلاقی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔
ہمارے ہاں چونکہ ہر معاملے کو مذہب بلکہ درست تر الفاظ میں فرقے اور مسلک کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے، اس لیے امکان ہے کہ اس معرکے کو بھی اسی حوالے سے دیکھا جائے گا۔ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت قدیم سے ہے، اس لیے یہاں بھی اس کا اطلاق ہو گا۔ یہ طاقت کی جنگ ہے لیکن اس میں مذہب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔تاریخی اعتبار سے مسلمانوں میں فرقہ بندی کی اساس سیاسی اختلافات تھے۔بعد میں لوگوں نے اپنا سیاسی مقدمہ ثابت کرنے کے لیے ان اختلافات کی مذہبی تعبیر کی۔ آج بھی جہاں سعودی عرب کے لیے ممکن ہے، وہ سنی عصبیت سے کام لے گا ۔ ایران کی قوت کا انحصار ہی شیعہ تشخص پر ہے۔خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح پاکستان میں اسے شیعہ سنی اختلاف کے تناظر میں دیکھا جائے گا۔
میں اس کے آثار دیکھ رہا ہوں ۔گزشتہ دنوں میری کچھ علما اور مذہبی راہنماؤں سے ملاقاتیں رہیں۔ پاکستان کے اہل تشیع میں اضطراب ہے کہ ہماری ریاست سعودی عرب کا ساتھ دے رہی ہے اور یوں اس سے ایرانی مفادات متاثر ہوں گے۔یہ امر ِ واقعہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے لوگ سعودی عرب ایران معرکہ آرائی میں خود کو فریق سمجھتے ہیں۔ جہاں دنیا میں پیش آنے والے ہر معرکے کی مذہبی تعبیر کا چلن عام ہووہاں اسے دو ملکوں کے مفادات کی نظر سے دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔ہم نے جس تعبیر کو قبول کیا،اس کے اثرات سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔
مجھے اس مقدمے سے اتفاق ہے کہ بطور ریاست، پاکستان کے مفاد کا تقاضا یہی ہے کہ سعودی عرب کا ساتھ دیا جائے۔اس کی و جہ مذہبی نہیں،سیاسی اور اقتصادی ہے۔ تاہم اس کے کچھ مضمرات ہیں جو سماجی ہیں۔ ہمیں اس کی پیش بندی کرنی ہے کہ پاکستان کا داخلی امن متاثر نہ ہو اور مشرقِ وسطیٰ کایہ تنازع، خاکم بدہن، نئی شیعہ سنی معرکہ آرائی کی صورت اختیار نہ کرے۔ پاکستان کے مذہبی راہنماؤں کو اس بارے میں بطور خاص اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس کے لیے سب سے پہلے اس بات کی تفہیم لازم ہے کہ دنیا میں پیش آنے والے ہر واقعہ کی بنیاد لازم نہیں کہ مذہبی ہو۔ اقوام عالم کے باہمی تعلقات باہمی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ یہی بات سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے درست ہے اور امریکہ کے ساتھ مراسم کے حوالے سے بھی۔ہمیں اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنی ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی کو مسلکی یا مذہبی آنکھ سے دیکھا جا ئے۔