عرب امارات کے ایک وزیر کا بیان، میرے رگ و پے میں سرایت کر گیا۔ بے چینی اور اضطراب کی ایک لہر ہے جس نے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ایسی دھمکیاں پہلے بھی آتی تھیں لیکن واشنگٹن سے، دلی سے اور کبھی ماسکو سے۔کبھی سوچا نہ تھا کہ 'ایک برادر اسلامی ملک‘ بھی اسی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔ وزیر مو صوف نے پاکستان کو اپنے ملک پر قیاس کیا۔ انہیں شاید اندازہ نہیںکہ یہ ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں بادشاہت نہیں ہے۔ ایک فرد یا خاندان فیصلہ نہیں کرتا۔ پارلیمان قوم کی متفقہ آواز ہے اور حکمران پابند ہیں کہ اس کی ہدایت پر عمل کریں۔
پارلیمان کی قرارداد بڑی واضح اوردو ٹوک ہے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں۔ پاکستان عالمی برادری کا ایک ذمہ دارملک ہے۔ اس کے پارلیمان کا لب و لہجہ جیسا باوقاراور محتاط ہونا چاہیے، ویسا ہی ہے۔ قراردادمیںدو باتیں کی گئی ہیں۔ایک یہ ہے کہ یمن کے معاملے میں پاکستان غیر جانب دار ہے، دوسرا یہ کہ اگر سعودی عرب کی علاقائی سالمیت کوکوئی خطرہ درپیش ہوا تو پاکستان اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ یہ سعودی عرب کی حمایت کا واضح اعلان ہے۔ اس میں غیر جانب داری یا ابہام کہاں ہے؟ اگر یمن کی خانہ جنگی میں، سعودی عرب کسی ایک گروہ کی حمایت کر رہا ہے توکیا اُس کی حمایت بھی سعودی عرب کے ساتھ دوستی کا تقاضا ہے؟ اگر سعودی عرب مصر میں جنرل سیسی کے شانہ بشانہ کھڑا ہے توکیا پاکستان بھی ایسا ہی کرے اور اخوان کے قتلِ عام کی حمایت کر دے؟ کیا دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے؟ کیا سعودی عرب بھی ایسا کرتا ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں خانہ جنگی ہے۔ پاکستان اس میں ایک فریق کی حمایت کرتا ہے۔کیا اب سعودی عرب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوجائے؟کیا سعودی عرب نے کبھی کشمیری حریت پسندوں کی حمایت کی ہے حالانکہ ان کا مقدمہ پاکستان کی تائید سے مشروط بھی نہیں۔ اس کی اپنی اخلاقی بنیادیں ہیں۔
پاکستان میں ایسے 'پاکستانی‘ بھی بستے ہیں جن کی وفا داری کا پہلا مرکز کوئی اور ملک اور پھر پاکستان ہے۔ پاکستان کی پارلیمان اور حکومت اس قرارداد کے بعد، اُن کی تنقید کی زد میں ہیں۔ پورے ملک میں تحفظِ حرمین کے نام پرکانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ ان کانفرنسوں میں سعودی وزرا شریک ہوتے ہیں اور ان کی موجودگی میں اعلانِ وفاداری کیا جا تا ہے۔ ان لوگوں کا موقف ہے کہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر پاکستان اپنی فوج سعودی کمان میں دے دے۔ وہ چاہے تو اسے یمن کے خلاف استعمال کرے یا کسی اورکے خلاف۔ یہاںایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن کا دل چاہتا ہے کہ پاکستان اپنی قیادت ایران کو سونپ دے۔ واقعہ یہ ہے کہ ایسا صرف پاکستان ہی میں ہو سکا ہے جہاں لوگوں کی پہلی محبت ریاض، تہران، واشنگٹن یا پھر دلی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جب بھی خلیج میں کوئی معرکہ برپا ہوا،اس ملک کے گلی کوچوں تک پھیل گیا۔ کیا پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی اب اُن کے کہنے پر طے ہوگی جو پاکستان کو کسی بیرونی آنکھ سے دیکھتے ہیں؟
سب سے عجیب و غریب رویہ مذہبی سیاست دانوںکا ہے۔ اہلِ تشیع کی کانفرنسوں میں کچھ اورکہتے ہیں، اہلِ حدیث کانفرنسوں میں کچھ اور، پارلیمان میں کچھ اور۔ ایک صاحب کی دلیل حیران کن ہے۔کہا، اگر امریکہ افغانستان پر حملہ کر سکتا ہے تو سعودی عرب یمن پر کیوں نہیں؟ گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ امریکہ نے افغانستان میں جوکیا وہ درست تھا۔ پارلیمان کی قرارداد متفقہ ہے جس میں مذہبی جماعتیں شامل ہیں۔ ان کے رہنماکیوں ہر فورم پر اس کا دفاع نہیں کرتے؟غیر جانب داری پر عمران خان کو بھی اصرار تھا۔ یہ تحریکِ انصاف کی بھی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اس قرارداد کے حق میں آواز اٹھائے۔
یہاں ایسے لوگ بھی کم نہیں جو اس قوم کو مسلسل باورکراتے رہتے ہیں کہ پاکستان چین، سعودی عرب اور معلوم نہیں کس کس کے احسان کا زیرِ بار ہے۔گویا ایک یک طرفہ محبت ہے جو جاری ہے۔ ہم نے کبھی کسی پر احسان نہیں کیا۔ یہ قوموں کے باہمی تعلقات سے افسوس ناک بے خبری ہے۔ یہ دوطرفہ عمل ہے۔ جب دوسروں کو ضرورت پڑی تو پاکستان نے ان کی بھرپور مدد کی۔ عرب اسرائیل سے نبرد آزما ہوئے تو پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور آج تک
کھڑا ہے۔ پاکستان کا اسرائیل سے کوئی جھگڑا نہیں لیکن ہم نے ہمیشہ ہر مفادکو تج کر عربوںکا ساتھ دیا اوراس کی قیمت ادا کی جس کی ایک صورت بھارت اسرائیل تعلقات ہیں جو پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ عرب کے صحراؤںکو نخلستان میں ہم نے بدلا۔ فلک پوش عمارتیں ہم نے اٹھائیں۔ عرب امارات کا نظام ِ دفاع ہم نے کھڑا کیا۔ پاکستان کے دروازے عرب شہزادوں کے تمام امیرانہ اشغال کے لیے نہ صرف کھول دیے بلکہ ایک طرح سے اپنی سرزمین کاحقِ ملکیت دے دیا۔ ایک پاکستانی ہونے کے باوجود، میرے لیے جن پرندوںکی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا بھی جرم ہے، عرب شہزادے جب چاہیں ان کا شکار کر سکتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہم ہی تھے جنہوں نے چین کو عالمی تنہائی سے نکالا اور آج بھی ایک مضبوط پاکستان چین کے اپنے دفاع کا تقاضا ہے۔
اگر معاملہ احسان کا ہے تو امریکہ اس میں سرِ فہرست ہے۔ مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد بقیہ پاکستان کو بھارتی تاخت سے امریکہ نے بچایا۔ پاکستان کے دفاع کو مضبوط بنیادیں امریکہ نے فراہم کیں۔ پاکستان کو سب سے زیادہ معاشی امداد امریکہ نے دی۔ توکیا اس کے بعد ہم پاکستان کو امریکہ کی کالونی بنا دیں؟جن حکمرانوں نے ایسا کیا، کیا انہوں نے پاکستان کے ساتھ نیکی کی؟ہم جانتے ہیں کہ امریکہ نے ایسا ہماری محبت میں نہیں کیا۔اس کے مفادات کا تقاضا یہی تھا۔ اس کی مدد کا یہ مطلب کبھی نہیںلیا سکتا کہ ہم ہر ظلم کے خلاف اس کے ہم نوا ہو جائیں۔
سعودی عرب کے ساتھ تعلق کو توہم کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات پر قیاس نہیں کرتے۔اس کی خیر خواہی اورمدد کی ہمار ے دل میں بہت قدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کی علاقائی سلامتی کے لیے سب کچھ کر گزرنے پر آ مادہ ہیں۔ تاہم اس وقت اللہ کے فضل وکرم سے سعودی عرب کوکوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ تو یمن کو ہے، بدامنی سے، فساد سے اور بیرونی مداخلت سے۔ ایک طرف سعودی عرب کے جہاز بم برسا رہے ہیں اور دوسری طرف ایرانی فوجی ماہر، لوگوں کوعسکری تربیت اور اسلحہ دے رہے ہیں۔ ایک پر امن یمن اس وقت سب کے مفاد میں ہے۔ اس کے لیے کوشش ہی سعودی عرب کی حمایت ہے۔ پاکستان ترکی کے ساتھ مل کر اس کے لیے سرگرداںسے۔ پاکستان دوست ممالک اور عالمی برادری کو اس پر قائل کرنے میں مدد کر سکتا ہے کہ یمن میں امن ہو اور انتخابات کے نتیجے میں ایسی حکومت قائم ہو جائے جسے یمن کے عوام کا اعتماد حاصل ہو۔ اگر خدانخواستہ اس خانہ جنگی کی آگ سعودی عرب کی طرف بڑھتی ہے تو ہم سب بغیرکسی پس و پیش کے‘ اس کو بجھانے کے لیے لپکیںگے۔
پارلیمان کی قرارداد بھی یہی کہہ رہی ہے۔ ضروری ہے ہماری سیاسی و مذہبی قیادت اس کی پشت پرکھڑی ہو جائے۔ اس کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم ہر اس دھمکی کو مستردکریں جو واشنگٹن سے آئے ،دلی سے آئے یا کہیں اور سے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے دل کو ٹٹولیں۔ اس میں پہلی محبت کس کی ہے؟ پاکستان کی یا کسی اورکی؟ ایک درخواست حکمران طبقے سے بھی۔ اگر آپ پر کسی بادشاہ یا ملک نے ذاتی احسان کیا ہے تواس کا بدلہ خود چکائیے۔احسان آپ اٹھائیں اوردھمکیاں ہم سنیں، ہمیں تو یہ گوارا نہیں۔ ہمارا ضطراب یہی ہے۔