اردو اخبارات کے کالم پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اُٹھنے والے طوفان کو صرف ایک قوت تھام سکتی ہے: پاکستان کی فوج۔ اگر پاکستان اپنی فوج بھیج دے تو تاریخ اپنا فیصلہ بدل دے گی۔ وقت کے اُٹھتے قدم رک جائیں گے اور پھر راوی سب چین لکھے گا۔ شاید ہمارے عرب دوست بھی یہی گمان کرتے ہیں۔ جس راز کو ترکوں نے جانا، تیونس کے راشدالغنوشی نے پایا اور اب ایرانی سمجھ چکے، افسوس کہ عرب دنیا کی قیادت اس سے نظریں چار کرنے پر آمادہ نہیں۔ انہیں جان لینا چاہیے کہ کوئی خارجی قوت انہیں عارضی سہارا دے سکتی ہے دائمی نہیں۔ بقا کا قانون ایک ہی ہے: بقائے اصلح (Survival of the fittest)۔
1979ء کے بعد مشرقِ وسطیٰ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ ایران کے انقلاب نے کچھ نئے رجحانات کو جنم دیا۔ وہ خطے کی قیادت کا ایک نیا امیدوار تھا۔ یہ ایسا انقلاب تھا‘ جس کی قوت ایک مسلک میں پنہاں تھی۔ صفوی خاندان نے عربوں کے مقابلے میں جس طرح ایک عجمی قوت کی بنا رکھی، 1979ء تک وہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی۔ شیعہ، سنی اختلاف، اپنی اساس میں سیاسی ہے۔ مذہبی لبادہ اُس نے بعد میں اوڑھا، جب سیاسی مؤقف کو قبولیتِ عامہ کے لیے مذہبی استدلال کی ضرورت پیش آئی۔ مسلمانوں کی تاریخ میں جو اختلافات سیاست سے پھوٹے، انہوں نے ایک سیاسی وحدت کے امکانات کو ختم کر دیا۔ علم اور فقہی تعبیرکی بنیاد پر جن اختلافات نے جنم لیا، انہوں نے سماجی مسائل تو پیدا کیے لیکن ان کا اثر سیاست پر نہیں پڑا۔ یوں عباسیوں کے دور میں بہت سے فقہی مسالک وجود میں آئے لیکن اِس سے سیاسی وحدت متاثر نہیں ہوئی۔ ابتدا میں جن سیاسی اختلافات نے جنم لیا، بعد میں جب انہوں نے مذہبی تعبیر اختیار کی تو پھر ناگزیر تھا کہ نئے سیاسی مراکز وجود میں آئیں۔ ابتدا میں خوارج کا مذہبی مقدمہ عوامی مقبولیت حاصل نہ کر سکا۔ یوں قصۂ پارینہ بن گیا۔ سنی، شیعہ اختلاف باقی رہا، یوں سیاسی قیادت کے لیے ان کے درمیان معرکہ جاری رہا۔ مشرقِ وسطیٰ میں یہی ہو رہا ہے۔ خوارج کا اب ظہورِ ثانی ہوا تو ہم نے دیکھا کہ اس کا سب سے خطرناک اثر سیاست پر پڑا۔ جہاں جہاں اس طبقے کا ظہور ہوا سیاسی نظام بکھر گیا۔ مشرقِ وسطیٰ میں، اس وقت، بدقسمتی سے تینوں گروہ پھر متحرک ہو گئے ہیں۔
1979ء کے بعد جب ایرانی قیادت نے انتقالِ انقلاب کا نعرہ بلند کیا تو مشرقِ وسطیٰ کی شیعہ برادری میں تحرک پیدا ہوا۔ ولی رضا نصر نے اپنی کتاب، احیائے تشیع (Shia Revival) میں لکھا ہے کہ 1979ء سے پہلے عرب کے شیعہ قومی سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے۔ انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے شیعہ تشخص کے ساتھ خود کو منظم کرنا شروع کیا۔ لبنان، عراق اور بحرین میں تو اس کا اظہار واضح تھا۔ دیگر علاقوں میں ریاست کے جبر یا قوت نے اس تشخص کو ابھرنے نہ دیا لیکن زیرِ زمین لاوہ پکتا رہا۔ ان میں یمن اور سعودی عرب کے بعض خطے بھی شامل ہیں۔
عربوں نے اس کے جواب میں دو کام کیے۔ ایک مسلکی اور مذہبی سطح پر مسلمان معاشروں میں ایرانی فکر کی اشاعت کو روکنا چاہا۔ دوسرا یہ کہ صدام حسین کے ذریعے کوشش کی کہ اس انقلاب کو ایرانی سرحدوں میں مقید کر دیا جائے۔ عربوں کا خیال تھا کہ کسی داخلی اصلاح اور تبدیلی کے بغیر، وہ یہ کام صرف سرمائے کے زور پر کر سکتے ہیں۔ اگر صدام حسین کو پیسے دے کر ایران کے خلاف لڑوایا جا سکتا ہے تو اپنا خون بہانے کی کیا ضرورت۔ واقعات سے ثابت ہوا کہ ایرانی ان کی توقعات سے زیادہ سخت جان ہیں۔ دوسری طرف ایرانی مذہبی قیادت نے قوم کو ایک رومان کے نام پر مجتمع تو ضرور کیا، لیکن ہر رومان کی طرح یہ بھی دم توڑنے لگا۔ ایرانیوں کو تیس سال بعد اندازہ ہوا کہ انہوں نے اس رومان کی قیمت اپنی برداشت سے زیادہ ادا کی ہے۔ اگر انہیں مشرقِ وسطیٰ کی قیادت کرنی ہے تو پھر اس کے لیے اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔ اس سوچ نے حسن روحانی کو جنم دیا اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے ایک نئے دور کی بنیاد رکھی۔ ایران نے جان لیا کہ دورِ حاضر میں بقائے اصلح سے کیا مراد ہے۔ اب ایک طرف 1979ء کے انقلاب نے جن چنگاریوں کو ہوا دی وہ شعلے بننے لگے اور دوسری طرف ایران نے غیر ضروری مہم جوئی سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے دشمنوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ کر لیا۔
اسی دوران میں ترکی نے بھی بقائے اصلح کے اصول کو اپناتے ہوئے، دورِ جدید میں قدم رکھا۔ اس نے جانا کہ اس کا مسئلہ سیکولرازم یا اسلام نہیں ہیں۔ دونوں عنوانات سے جو انتہا پسندی جنم لے رہی ہے، ترکی کو اس سے نجات دلانی ہے۔ وہ اس میں کامیاب رہے۔ اب ترکی بھی اس خطے کی قیادت کا ایک مضبوط امیدوار ہے۔ ان تبدیلیوں نے عرب بہار کے نام سے جب ایک وبائی صورت اختیار کر لی تو مصر، تیونس اور دیگر خطوں تک پھیل گئی۔ عربوں نے اس صورتِ حال کا درست جائزہ نہیں لیا۔ انہوں نے ایک بار پھر یہ خیال کیا کہ وہ سرمایہ کے زور پر بقا کی یہ جنگ جیت لیں گے۔ ایک طرف انہوں نے جنرل سیسی جیسے لوگوں کی حمایت کرکے یہ پیغام دیا کہ عرب دنیا میں جمہوریت کے لیے کوئی جگہ نہیں اور دوسری طرف کم قیمت تیل کی سیاست سے ایران کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی ٹھانی۔ یمن میں جب انہیں نئے بحران کا سامنا ہوا تو انہوں نے ایک بار پھر کسی صدام حسین کو تلاش کرنا چاہا۔
صدام حسین جو اس خطے کی ایک بڑی قوت تھے، طاقت کے توازن کو بدل نہیں سکے تو پاکستان کیسے بدل سکے گا؟ ہمارے عرب دوست اس سوال پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ پاکستان آج اگر اپنی فوج بھیج کر انہیں عارضی سہارا بھی دے تو وہ تبدیلیوں سے کیسے بچ پائیں گے جو اپنے پاؤں جما چکیں اور آئے دن عربوں کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب صدام حسین، ایران سے برسرِِ پیکار تھے تو داعش اور القاعدہ موجود تھے نہ ترکی خطے کی قیادت کا خواب دیکھ رہا تھا۔ اب تو صورتِ حال مزید مشکل ہو گئی ہے۔ عربوں کے لیے صرف ایران نہیں، داعش اور القاعدہ بھی مسئلہ ہیں۔ ترکی بھی۔ ممکن ہے کہ وہ آج کا مسئلہ نہ ہو لیکن مستقبل کا تو بہرحال ہے۔ اس فضا میں آخر وہ کب تک خارجی ذرائع پر انحصار کرتے رہیں گے؟ اگر وہ خود کو مشرقِ وسطیٰ میں آنے والی تبدیلیوںسے ہم آہنگ نہیں کریں گے تو پاکستان اپنی فوج بھیج کر بھی ان کی مدد نہیں کر پائے گا۔
جس راز کو ایران، ترکی اور تیونس کے راشدالغنوشی نے جانا، لازم ہے کہ عرب بھی اس کو جان لیں۔ وقت جب قدم اُٹھا دیتا ہے تو پھر اس کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ پاکستان یقیناً ان کی مدد کرے گا لیکن یہ محدود ہو گی۔ اگر ستر بلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی، انہیں بقا کے لیے کسی خارجی قوت کی ضرورت ہے تو انہیں سوچنا ہو گا کہ سرمایے اور اسلحے کی موجودگی میں، وہ کیا چیز ہے جس کے بغیر بقا کی جنگ نہیں لڑی جا سکتی۔ اگر وہ اسے دریافت کر سکیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ دنیا کی کسی دکان میں نہیں ملتی۔ اگر عرب میں کوئی اقبال ہوتا تو شاید وہ یہ بات بہت پہلے جان لیتے۔ اقبال کا معاملہ لیکن یہ ہے کہ وہ جبر کی فضا میں جنم نہیں لیتا۔