راولپنڈی کی میٹرو بس سروس کا افتتاح ہو گیا۔
آج صبح گھر سے نکلا تو ایک نئے پن کا احساس ہوا۔ایک بدلا ہوا شہرمیرے سامنے تھا!یہ منصوبہ میرے دیکھتے دیکھتے مکمل ہوا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ مجھ پر بیتا ہے۔راولپنڈی سے اسلام آباد کی جانب قدم اٹھاتے وقت ،مری روڈ سے گریز محال ہے۔ یوں میں نے اپنی آنکھوں سے سیمنٹ اورپتھروں کے ڈھیر کوایک خوبصورت وجود میں ڈھلتے دیکھا ہے۔اس دوران میں بہت سی مٹی میرے پھیپھڑوں کا مقدر بھی بنی۔آج لیکن اس کا ملال نہیں۔ایک نیا شہر میرے سامنے ہے۔تعمیر آپ اپنے وجود کی شہادت ہے۔الفاظ کے ہتھوڑے اس کو گرا نہیں سکتے۔اس کی اہمیت کو کم کیا کیا جاسکتا ہے،اس سے بہتر منصوبے کے ساتھ۔اس کے لیے تنقیدی نہیں،تعمیری ذہن کی ضرورت ہے۔سرکاری تقریبات اور بریفنگز میں عدم شرکت کے باعث، میرا یہ تبصرہ کسی سرکاری پروپیگنڈے سے آلودہ نہیں، سراسرایک شخصی احساس ہے جومشاہدے پر مبنی ہے۔
اس منصوبے کو تین زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے:معاشی، افادی اور جمالیاتی۔معاشی اعتبار سے یہ منصوبہ شریف برادران کے معاشی وژن کا مظہر ہے۔یہ وژن کیا ہے؟سرمایہ دارانہ نظام میں ترقی کے بالعموم دو ماڈل سامنے آئے ہیں۔ایک یہ کہ سماجی تعمیر کے ذریعے ترقی کی جائے۔زیادہ توجہ تعلیم ،صحت اور دوسری بنیادی سہولتوں پر دی جائے۔یوں ایک عام شہری کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں میں اضافہ ہو اور وہ ترقی کی بنیاد بنے۔یہ ماڈل اشتراکی فکر کا پرتوہے جس میں تمام ذرائع پیداوار ریاست کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام نے چونکہ اشتراکیت کے چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے،اپنے بنیادی ماڈل میں تبدیلیاں کیں،اس لیے یہ ماڈل بھی زیر بحث رہا اور اپنا یا گیا۔دوسرا ماڈل وہ ہے جس کی اساس ایک بڑے انفراسٹرکچر پر ہے۔آپ ایک ایسا ڈھانچہ کھڑاکر دیں جو سرمایے کو اپنی طرف متوجہ کرے۔سرمایے کو وہ ماحول فراہم کر دیا جائے، جواس کی نشو ونما کے لیے سازگار ہو۔ اس سے سرمایہ کاری کا دروازہ کھلے گا اوراس کے نتیجے میںسماجی ترقی ہو گی۔ ہسپتال بنیں گے، اچھے تعلیمی ادارے قائم ہوں گے۔
شریف برادران دوسرے ماڈل کے قائل ہیں۔موٹر وے، میٹرو، بلٹ ٹرین۔اِ ن کے معاشی وژن میں ایسے منصوبوں کو جوہری اہمیت حاصل ہے۔مہاتر محمد بھی اسی کو درست سمجھتے تھے۔ انور ابراہیم کے ساتھ، ان کے اختلافات کی ایک بنیاد یہ بھی تھی۔جب انہوں نے کوالالمپورمیں دنیا کی سب سے اونچی عمارت بنانے کا فیصلہ کیا تو انور ابراہیم اس کے حق میں نہیں تھے۔اس ماڈل کی کامیابی مگر اچھی گورننس سے مشروط ہے۔اگر ایک باصلاحیت اور دیانت دارٹیم میسر نہ ہوتو ایسے منصوبے کھنڈرا ت میں تبدیل ہو کر نشانِ عبرت بن جا تے ہیں۔میرا خیال ہے کہ جب عوام نے ن لیگ کو مینڈیٹ دیا ہے تو ان کا حق ہے کہ وہ اپنے وژن کے تحت آگے بڑھیں۔تاہم انہیں متوجہ کیا جاتا رہناچاہیے کہ گڈ گورننس کے بغیر ایسے منصوبے قومی وسائل کا ضیاع ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے افادی پہلو سے انکار کے لیے بڑا دل گردہ چاہیے۔ ایک اچھے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے بغیر کسی بڑے شہر کی تعمیر و ترقی کا کوئی خواب شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکا۔میرے علم میں نہیں کہ دنیا کو کوئی جدید میٹروپولیٹن شہر اس سہولت سے تہی دامن ہو۔میرا احساس تو یہ ہے کہ جو ترقی پسند کے اس ماڈل کے خلاف ہیں،وہ بھی اس سے گریز نہیں کر پائیں گے۔خیبر پختون خوا کی حکومت پشاور کے لیے یہی سوچ رہی ہے۔اس کے لیے ورلڈ بینک سے قرضہ لیا جا رہا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی تعداد پر قابو پانے کی کوئی دوسری صورت ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔'اکانومسٹ‘ نے پاکستان کی ترقی کے جو دلا ئل دیے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاںگاڑیوں کی تعداد میں 22 فی صد اضافہ ہوا ہے۔اب سڑکوں کو کہاں تک وسعت دی جا سکتی ہے؟اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ٹریفک کا اژدھام نہ ہوتو پھر ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر بنا نا ہو گا۔اس لیے میرا خیال ہے کہ اس منصوبے کی افادیت سے اختلاف مشکل ہے۔بیس روپے میں راولپنڈی سے اسلام آباد تک کا آرام دہ سفر ایک عیاشی سے کم نہیں۔یہ درست ہے کہ حکومت اس پر سبسڈی دے رہی ہے۔یہ پیسہ مگر عوام ہی پر خرچ ہو رہا ہے۔اس میں کیا برائی ہے؟
اب آئیے! جمالیاتی پہلو کی طرف۔ہمارے جمالیاتی ذوق کے لیے یہ منصوبے سازگار نہیں ہیں۔حد نگاہ تک وسعت ہماری نگاہوں کو بھاتی ہے۔دور تک پھیلے کھیت اور ہریالی۔ کھلا صحن اور تاروں بھرا آ سمان۔سچ یہ ہے کہ مجھے بھی یہی اچھا لگتا ہے۔ ٹیکنالوجی اور کلچر کا جھگڑا،اسی لیے پرانا ہے اور حل ہونے کو نہیں آرہا۔صنعتی انقلاب آیا تو شاعرِ مشرق نے بھی مشینوں کی حکومت کو دل کی موت قرار دیا۔ان کی بات غلط بھی نہیں تھی۔ٹیکنالوجی سہولت ہی نہیں، اپنا کلچر بھی ساتھ لاتی ہے۔اس انقلاب نے سماجی روایات اور تصورات کو کیسے بدلا،برسوں سے یہ اہلِ علم کا موضوع ہے۔جب درخت کٹتے اور قدیم منظر نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں تو ان میں نہیں معلوم کتنے بچپن، لڑکپن اور جوانیاں کھو جاتی ہیں۔ تاریخ زمین سے ناطہ توڑتی اور کتابوں میں جا پناہ لیتی ہے۔یہ بھی مگرتاریخ کا جبر ہے، ہم جس کے سامنے بے بس ہیں۔
یہ تہذیبی ا لمیہ ترقی یافتہ دنیا کو بھی پیش آیا۔بر طانیہ نے مزاحمت کا فیصلہ کیا کہ انگریز زیادہ روایت اور ماضی پرست ہیں۔ قدیم لندن کو ورثہ قرار دے کر اس میں تبدیلی ممنوع کر دی گئی۔یہ مزاحمت کہاں تک چلے گی،کچھ کہنا مشکل ہے۔چند سال پہلے ہیتھرو ایئرپورٹ کی توسیع کے لیے درخت کٹنے لگے تو صدائے احتجاج بلند ہوئی لیکن زیادہ موثر ثابت نہ ہو سکی۔اسلام آباد کا حسن بھی وہی ہے جو فطرت نے اسے عطاکیا ہے۔لاہور کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔مال روڈ کے حسن اور روایت کو برقرار رکھتے ہیں توسڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام اس حسن کے درپے ہو تا ہے۔اس کا علاج یہی ہے کہ قدیمی حسن کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھتے ہوئے، کوشش کی جائے کہ تعمیرِ نو میں جمالیات کا پہلو نظر انداز نہ ہونے پائے۔جمالیات کا ایک مظہر اگر جمالیات کے دوسرے مظہر سے بدل جائے تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔مجھے اس حوالے سے پروفیسر رفیق اختر صاحب کی بات اچھی لگی۔ان کی ذات میں بھی ایک روایت پرست اورشاعر چھپا ہوا ہے۔پھر لاہور کا حسن تو ان پربرسوں مہربان رہا ہے۔وہ لاہور جاتے ہیں تو ان کے دل میں بھی درد کی لہر اٹھتی ہے۔مگر وہ اس تبدیلی کو عام آ دمی کی سہولت کے پہلو سے دیکھتے ہیں۔ میں نے کسی ویب سائٹ پران کی ایک تقریر سنی ۔انہوں نے جمالیاتی پہلو کاذکر کیا مگر شہباز شریف صاحب کی تعریف بھی کی کہ انہوں نے عام آ دمی کی آسانی کو پیش نظر رکھا ۔گویا اگر افادیت کا تقاضا ہو تو جمالیات کی قربانی دی جا سکتی ہے۔میٹرو سے اسلام آباد کا حسن مجروح ہوا۔مجھے بھی اس کا احساس ہے۔اسے مگر بادلِ ناخواستہ قبول کر لینا چاہیے۔پھر یہ کہ نئی نسل کا جمالیاتی ذوق شاید ان مظاہر سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ آسمان کی طرف بلند ہوتی عمارتیں اورٹیکنالوجی کے نت نئے مظاہر۔ نئی نسل کا تصورِ جمالیات تو ان ہی کا اسیر ہے۔
میٹرو شریف برادران کے تصورِ تعمیر کا اظہار ہے۔اگر کسی کو اختلاف ہے تو اسے متبادل پیش کر نا چاہیے۔تعمیر کا متبادل بہتر تعمیر ہے۔آج کاراولپنڈی کل کے پنڈی سے مختلف ہے۔ایک تبدیل شدہ منظر۔نواز شریف جو تبدیلی چاہتے ہیں، اس کو انہوں نے مشہود کردیا۔آپ بھی اگر تبدیلی کا کوئی تصور رکھتے ہیں تو اس کا کوئی مظہر دکھادیجیے کہ یہ دور ایمان بالغیب کا نہیں، ایمان بالحواس کا ہے۔