ایک محترم کالم نگار نے چند دن پہلے،ابن جریر طبری کے بارے میں دادِ تحقیق دی ہے۔
طبری مسلم تاریخ کے سب سے مستند مورخ شمار کیے جاتے ہیں۔کالم نگارکو اس سے اتفاق نہیں۔ ان کی معروف ترین تصنیف ''تاریخ الامم والملوک ‘‘ کے بارے میں اُن کا تبصرہ ہے کہ ''جس کتاب کو بازاری قصوں کی کتاب ہونا چاہیے تھا،اسے مستند ترین تاریخ سمجھ کر یورپ نے پیش کیا‘‘۔ یہی نہیں''طبری نے اپنے ذہن کی غلاظت کو تاریخ کی چاشنی بنا کر پیش کیا‘‘۔ کالم نگار کے خیال میں یہ مستشرقین ہیں جنہوں نے طبری جیسے ساقط الاعتبار شخص کومستند مورخ قرار دیا اور یوں ''مغرب کے سیکولرانہیں ہتھیار بنا کر، ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں‘‘۔
کالم میں دومقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ طبری مسلم تاریخ کی ناقابل ذکر اور ناپسندیدہ شخصیت ہیں۔''عباسی خلفا کے دور میں لوگ نفرت کے طور پرگزرتے ہوئے،ان کے گھر پر پتھر پھینکا کرتے تھے‘‘۔ دوسرا یہ کہ انہیں اعتباراہلِ مغرب اورمستشرقین نے دیا اوراس سے ان کا مقصد مسلم تاریخ کو داغ دارکرنا تھا۔ علم کی عدالت میں، یہ دونوں مقدمات ثابت نہیں ہیں۔
ابن جریر طبری مسلم اہلِ علم کے ہاں غیر معمولی قدر و منزلت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ تفسیر، علم ِحدیث اور تاریخ کے باب میں انہیں سند ما نا جا تا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ان کے بارے میں اہلِ علم کی آرا جمع کر دی ہیں۔ تاریخ کے باب میں خود مو لانا جس مورخ پر سب سے زیادہ اعتبار کرتے ہیں، وہ یہی طبری ہیں۔'خلافت و ملوکیت‘ کا سب سے بڑا ماخذ 'تاریخ الامم والملوک‘ ہے۔ مو لا نا لکھتے ہیں: ''۔۔۔۔ابنِ جریر طبری ہیں جن کی جلالتِ قدر بحیثیتِ مفسر، محدث، فقیہ اور مؤرخ مسلّم ہے۔ علم اورتقویٰ دونوں لحاظ سے ان کا مرتبہ نہایت بلند تھا۔ ان کو فقہا کا عہدہ پیش کیا گیا اور انہوں نے انکارکر دیا۔ دیوان المظالم کی صدارت پیش کی گئی اور اس کو بھی انہوں نے قبول نہ کیا۔ امام ابنِ حُزَیمہ ان کے متعلق کہتے ہیں: ''میں اس وقت روئے زمین پران سے بڑے کسی عالم کونہیں جانتا‘‘۔ ابن کثیر کہتے ہیں:''وہ کتاب و سنت کے علم اور اس کے مطابق عمل کے لحاظ سے آئمہ اسلام میں سے تھے‘‘۔ ابنِ حجرکہتے ہیں:'' وہ بڑے اور قابلِ اعتماد آئمہ میں سے تھے‘‘۔ خطیب بغدادی کہتے ہیں:''وہ آئمہ علما میں سے ہیں۔ ان کے قول پر فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان کی رائے کی طرف رجوع کیا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے علم و فضل کے لحاظ سے اس لائق ہیں۔ علوم میں ان کی جامعیت ایسی تھی کہ ان کے ہم عصروں میں کوئی ان کا شریک نہ تھا‘‘۔ ابن الاثیرکہتے ہیں:''ابوجعفر تاریخ نگاروں میں سب سے زیادہ بھروسے کے لائق ہیں‘‘۔ حدیث میں وہ خود محدث مانے جاتے ہیں۔ فقہ میں وہ خود ایک مستقل مجتہد تھے اور ان کا مذہب اہل السُّنہ کے مذاہب ہی میں شمار ہوتا تھا۔ تاریخ میں کون ہے جس نے ان پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ خصوصیت کے ساتھ دورِ فتنہ کی تاریخ کے معاملہ میں تو محققین انہی کی آرا پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔۔۔۔۔ابن خلدون بھی جنگِ جمل کے واقعات بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے واقعات کا یہ ملخّص دوسرے مؤرخین کو چھوڑ کر طبری کی تاریخ سے نکالا ہے کیونکہ وہ زیادہ قابلِ اعتماد ہے اور ان خرابیوں سے پاک ہے جو ابنِ قتیبہ اور دوسرے مؤرخین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں‘‘۔ (خلافت و ملوکیت،صفحہ 312،313)
تاریخ کے باب میں انہوں نے کچھ واقعات ایسے نقل کیے ہیں، جن کی بنیاد پر بعض ناقدین نے انہیں شیعہ قرار دیا۔ مو لا نا مودودی کو اس سے اتفاق نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:''امام ابنِ تیمیہ کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ جس شخص میں شیعیت کی بُو بھی ہو، وہ اسے معاف نہیں کرتے مگر محمد بن جریر طبری کی تفسیر کے متعلق وہ اپنے فتاویٰ میں کہتے ہیںکہ تمام متداول تفاسیر میں ان کی تفسیر صحیح ترین ہے۔۔۔ ولیس فیہ بدعۃ۔ دراصل سب سے پہلے حنابلہ نے ان پر رفض کا الزام اس غصے کی بنا پر لگایا تھا کہ وہ امام احمد بن حنبل کو صرف محدث مانتے ہیں۔ اسی وجہ سے حنبلی ان کی زندگی ہی میں ان کے دشمن ہو گئے تھے، ان کے پاس جانے سے لوگوں کوروکتے تھے اور ان کی وفات کے بعد انہوں نے مقابر مسلمین میں ان کو دفن تک نہ ہونے دیا حتیٰ کہ وہ اپنے گھر پر دفن کیے گئے۔ اس زیادتی پر امام ابنِ خزیمہ کہتے ہیں کہ ''لقد ظلمت الحنابلہ‘‘(صفحہ 313)۔
سیرت کے باب میں مو لا نا شبلی نعمانی کی شہرہ آفاق تصنیف 'سیرت النبی‘ اردو زبان کی سب سے مستند کتاب ہے۔ چند دن پہلے جامعۃ الازہرکے استاذ ڈاکٹر یوسف عامر پاکستان تشریف لائے۔ میری ان سے ملاقاتیں رہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کتاب کے عربی ترجمے کاشرف انہیں حاصل ہوا ہے۔ شبلی نے اس کتاب کے مقدمے میں اپنے ماخذات کا ذکر کیا ہے۔ ان میں طبری بھی شامل ہیں۔ 'امام طبری اور سیرت‘ کے تحت شبلی لکھتے ہیں:''تاریخی سلسلہ میں سب سے جامع اور مفصل کتاب امام طبری کی تاریخ کبیرہے۔ طبری اس درجہ کے شخص ہیں کہ تمام محدثین ان کے فضل وکمال، وثوق اور وسعتِ علم کے معترف ہیں۔ ان کی تفسیر احسن التفاسیر خیال کی جاتی ہے‘‘۔ (صفحہ27)
طبری کے بارے میں یہ اس امت کے جلیل القدر اہلِ علم کی گواہی ہے۔کوئی ذی شعور یہ نہیں کہہ سکتا کہ شبلی یا مو لانا مودودی مستشرقین کے زیرِ اثر تھے۔ شبلی تو وہ ہیں، تاریخ جن کا مو ضوع تھا۔انہوں نے تو اس جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کیا جو بعض مستشرقین نے مسلم تاریخ کے باب میں پھیلا دیا تھا۔ ان معتبرشہادتوں کے بعد اس مقدمے کی حیثیت واضح ہو جاتی ہے کہ طبری اہلِ مغرب کی کسی سازش کاعنوان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ طبری کی ہر روایت کو ہم بلاتنقید قبول نہیں کر سکتے۔ طبری ہی کیا، اس امت نے تو امام بخاری جیسے عظیم المرتبت لوگوں کی روایت بھی بلاتنقید قبول نہیں کی۔کیا
لوگوں نے بخاری کی روایات پر جرح نہیں کی؟ تاہم امام بخاری کی کسی روایت کو رد کردینے سے وہ بحیثیت مجموعی ساقط الاعتبار نہیں ہوجا تے۔ یہی معاملہ طبری کا بھی ہے۔
تاریخ فی الجملہ رطب و یابس کا مجموعہ ہے۔ یوں بھی مؤرخ کا کام تنقیح نہیں ہوتا۔ وہ تو واقعات کو جمع کردیتا ہے اور حسبِ توفیق رد و قبول کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تاریخ دین کا ماخذ نہیں ہے۔ دین محکمات پر کھڑا ہے‘ جو عقل و نقل کے ہر پیمانے پر پورا اترتے ہیں۔ سیرتِ پاک اور صحابہ دین کا حصہ ہیں۔ ان کے باب میں تاریخ پر انحصار نہیں کیا جائے گا۔ ان مو ضوعات پر تاریخ کی وہی شہادت قبول کی جائے گی جو دین کے مآخذ قرآن اور سنت پر پورا اترتی ہے۔ محتاط مستشرقین بھی یہی کرتے ہیں۔ منٹگمری واٹ نے بھی اپنے مآخذات کو بیان کیا ہے۔ ان میں پہلا ماخذ قرآن، پھر حدیث اور اس کے بعد طبری ہیں۔ سب مستشرقین کے بارے میں یہ بات بھی درست نہیں کہ وہ قرآن و سنت سے استنباط نہیں کرتے۔ میرا تاثر ہے کہ ان علوم میں بھی جو کام مستشرقین نے کیا ہے یا مغرب کے اداروں میں ہوا ہے،اس کی کوئی نظیر مسلم دنیا میں کم ہی ملے گی۔ میکگل یونیورسٹی نے اسلام پر تحقیق کے لیے جو کڑا علمی معیار مقررکیا ہے، مسلم دنیا میں اس کے مثل کوئی ادارہ مو جود نہیں ہے۔
مخالفین سازش کرتے ہیں لیکن اپنی ہر خرابی کا سبب خارج میں تلاش کرنا ایک نفسیاتی عارضہ ہے۔ بطور قوم ہم سب سے زیادہ اس کا شکار ہیں۔ طبری کو مطعون کرتے ہوئے، اسے مستشرقین کی سازش قرار دینا بھی اسی مرض کا اظہار ہے۔