ملا عمر کی وفات کا اعلانِ عام ہو گیا۔ حریت کی ایک داستان اپنے انجام کو پہنچی۔ دکھ کا ایک گہرا احساس دامن گیر ہے‘ لیکن اس حسرت کے ساتھ کہ کاش ان کی رخصتی اہتمام کے ساتھ ہوتی۔ کاش وہ کسی المیہ داستان کا ایک کردار نہ ہوتے۔
قندھار کے ایک گاؤں کا عام طالب علم اور پھر امام مسجد، ایک وقت آیا کہ عالمی سیاست کا سب سے اہم کردار بن گیا۔ وہ جہاد کے نام سے افغانستان میں اٹھنے والے ایک طوفان کی ایک ناقابل ذکر لہر تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اسی طوفان کے خلاف خود ایک طوفان بن گیا۔ انہی جہادیوں کے خلاف اس نے اعلانِ جہاد کیا‘ جن کی قیادت میں وہ علم جہاد اٹھائے ہوئے تھا۔ اس کا آ غاز 1994ء میں ایک مقامی کمانڈر کے خلاف ہوا۔ اس نے ایک نوجوان کو یرغمال بنایا اور اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنائے رکھا۔ جہاد کے نام پر مسلط ہونے والے ان کمانڈروں کے خلاف عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہونے کو تھا۔ یہ واقعہ نا قابلِ برداشت ثابت ہوا۔ ملا عمر کھڑا ہوا اور پھر لوگوں نے اس کمانڈر کی لاش سر بازار لٹکتے دیکھی۔
افغانستان کے دوسرے علاقوں میں بھی بغاوت کی ایسی ہی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ پاکستان بھی ان سے تنگ تھا۔ گل بدین اور احمد شاہ مسعود جیسے افسانوی کردار ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار تھے۔ طالبان نے گل بدین کو جا لیا‘ تو وہ چہارسیاب کا علاقہ ان کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔ 1996ء میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی۔ پاکستان، عرب امارات اور سعودی عرب نے اسے قبول کر لیا۔ احمد شاہ مسعود نے مزاحمت جاری رکھی یہاں تک کہ 2001ء میں ایک عرب صحافی کے روپ میں آئے خود کش نے ان کی جان لے لی۔ طالبان نے خوشی کے شادیانے بجائے‘ لیکن ان کی اس خوشی سے القاعدہ کی امربیل آ چپکی۔ احمد شاہ مسعود کی وفات کے چند ماہ بعد 9/11 ہو گیا۔ اس نے طالبان اور افغانستان ہی کو نہیں، پوری امتِ مسلمہ کے وجود کا رس نچوڑ دیا۔ ملا عمر شاید اس بے بسی اور کسمپرسی میں دنیا سے رخصت نہ ہوتا‘ اگر اسے یہ روگ نہ لگتا۔ کیسا المیہ ہے یہ روگ خود اسامہ بن لادن کو کھا گیا۔
ملا عمر ایک سادہ طبیعت آدمی تھے۔ یہ سادگی ان کے اسلوبِ اقتدار میں آئی تو حُسن بنی۔ یہی سادگی ان کے فہمِ دین کا حصہ بنی تو اس نے صرف انہی کو نہیں، اسلام کو بھی کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ لوگ بظاہر طالبان کا نام لیتے اور درحقیقت اسلام کو نشانہ بناتے۔ اسے ایک ماضی کی داستان ثابت کرتے‘ ایک فرسودہ خیال جو آج کے دور میں نا قابلِ عمل ہے۔ زیادہ بلند آہنگ مذہب اور تہذیب کو بھی متصادم ٹھہرانے لگے۔ یہ رویہ اگر تعصب نہیں تو جہالت کا مظہرضرور تھا۔ ہم لیکن کس کس کی زبان کو لگام دیں۔ دریدہ دہن کو کون روک سکتا ہے‘ جب ذرائع ابلاغ بھی اس کے ہاتھ میں ہوں۔ طالبان بت توڑیں تو فردِ جرم اسلام کے خلاف۔ وہ عورتوں کو تعلیم سے روکیں تو بدنامی اسلام کے نام۔ وہ فنونِ لطیفہ پر پابندی لگائیں تو تہذیب دشمنی کا الزام اسلام کے سر۔ ملا عمر کی اس سادگی نے ان کے فہمِ اسلام میں ظہور کیا‘ تو اسلام کو دفاعی جگہ پہ لاکھڑا کیا۔ خود افغانستان کے لوگ جس طرح اس فہم دین سے متاثر ہوئے، وہ ایک الگ داستان ہے۔
ملا عمر کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں تھا۔ القاعدہ کا ایجنڈا تو تھا ہی عالمی۔ ملا عمر مگر روایت کے اسیر ہو گئے۔ مطالبہ ہوا تو اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر نے سے انکار کیا کہ وہ ان کا مہمان ہے۔ اس کی ایک قیمت افغانستان، پاکستان اور ساری امتِ مسلمہ کو ادا کرنا پڑی۔ مہمان نے بھی اپنی ذات کے لیے پوری امت کو ایک عذاب میں جھو نک دیا۔ اگر اسامہ کو امریکہ کے حوالے کر دیا جاتا‘ تو آج کی دنیا وہ نہ ہوتی جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے وجود سے اس طرح لہو نہ رستا۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ اسامہ کا انجام یہ ہوتا نہ ملا عمر کا۔ میں کہتا ہو ں کہ اگر اسامہ اپنی جان دے کر امتِ مسلمہ کو اس عذاب سے محفوظ کر سکتے تو یہ ان کی ایک خدمت ہوتی۔ افسوس کہ ملا عمر نے روایت کو اور اسامہ نے جذبات کو ترجیح دی۔ کوئی اس پیغمبرانہ بصیرت سے فیض نہیں پا سکا‘ جس نے صلح حدیبیہ میں ظہور کیا‘ جب اللہ کے آخری رسولﷺ نے ابو جندل کو مشرکین کے حوالے کر دیا۔ جواز موجود تھا کہ ابھی معاہدے پر دستخط نہ ہوئے تھے۔ اللہ کے رسولﷺ کی بصیرت مگر مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کو دیکھ رہی تھی۔ اگر اس بصیرت سے ملا عمر اور اسامہ بن لادن روشنی پاتے تو آج دنیا کی تاریخ مختلف ہوتی۔ پھر امریکہ کو افغانستان اور مشرقِ وسطیٰ میں مسلم لہو سے ہولی کھیلنے کا موقع نہ ملتا۔
ملا عمر کے بعد طالبان کے پاس کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جس کی قیادت غیر متنازعہ ہو۔ اختر منصور جانشین بنے‘ لیکن اعتراضات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اور بیٹے محمد یعقوب کو ان کی قیادت قبول نہیں۔ یہی نہیں، افغان امور کے سب سے بڑے رمز شناس رحیم اللہ یو سف زئی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ان دونوں کے خیال میں ملا عمر کو قتل کیا گیا۔ ان کی لاش قبر سے دوبارہ نکالی گئی۔ دیکھا کہ ایک گولی سینے پر لگی ہے اور ایک پیشانی پر۔ واللہ اعلم۔ رحیم اللہ واحد صحافی ہیں، ملا عمر جن سے ملا کرتے تھے۔ طالبان راہنما ان کو فون کر کے بتا رہے ہیں کہ انہیں اختر منصور کی قیادت قبول نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایک نیا داخلی بحران طالبان کے دروازے پر
دستک دے رہا ہے۔ کیا یہ اختلاف داعش کی پیش قدمی کا سبب بن سکتا ہے؟ کہا جاتا ہے کہ اختر منصور مذاکرات کا حامی ہیں۔ کیا وہ افغانستا ن کو مزید خانہ جنگی سے محفوظ کر سکیں گے؟
آج کے افغانستان کے لیے سب سے اہم سوال یہی ہیں۔ انتہاپسند تنظیموں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک گروہ لڑ لڑ کے تھک جاتا ہے تو وہ مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ اسی لمحے ایک اور گروہ کھڑا ہوتا اور اسے سودا بازی کا طعنہ دیتا ہے۔ یوں وہ اصول پسندی کا علم تھامے ایک نئے جہاد کا آغاز کر دیتا ہے۔ اس طرح دائرے کا سفر جاری رہتا ہے۔ اختر منصور چاہیں تو افغانستان کو اس سے نکال سکتے ہیں۔ وہ عسکری کے بجائے سیاسی جدوجہد کا آغاز کر سکتے ہیں۔ ہم آج جس عدم بصیرتی کا مرثیہ پڑھ رہے ہیں، وہ اس کا تدارک کر سکتے ہیں۔ آج افغانستان کا مسیحا وہی ہے جو اسے امن دے سکے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر قوم کا اصل لیڈر وہی ہوتا ہے جو خوف کو امن میں بدل ڈالے۔ افسوس کہ لوگ اسے لیڈر کہتے ہیں جو قوم کو رومان اور ہیجان میں مبتلا کر کے، حقائق سے دور کر دے۔
ملا عمر یہ نہیں کر سکے۔ اس لیے ہم آج انہیں حسرت کے ساتھ رخصت کر رہے ہیں۔ دل اداس ہے۔ ان کے بارے میں وہی تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو ایک صاحبِ علم نے اسامہ بن لا دن کے بارے میں کیا تھا۔ دل ان کی عزیمت پر رشک اور ان کی بصیرت پر ماتم کرتا ہے۔ میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالٰی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کرے اور ان کو اپنی مغفرت سے نوازے۔