سیاست کا پلڑا غیر معمولی طور پر حکومت کے حق میں جھک گیا تھا۔ انتخابی ٹربیونلز کے دو فیصلوں نے ایک توازن قائم کر دیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے؟ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم حسین دہشت گردی کی معاونت کے جرم میں پکڑے گئے۔ کیا اس ملک میں ایسے قوانین موجود نہیں جو بدعنوانی کے جرائم میں ملوث افراد کو اپنی گرفت میں لے سکیں؟ انہیں دہشت گردی سے متعلق قوانین کے تحت کیوں پکڑا جا رہا ہے؟
آج اہل سیاست اور بالخصوص پیپلز پارٹی کے بارے میں کچھ بھی کہہ دیا جائے، لوگ اسے سچ مانیں گے۔ آپ بیتی کو کون جھٹلا سکتا ہے! اس کے باوجود ایک سوال مجھے پریشان کرتا ہے۔ جنرل ضیاالحق مرحوم نے ہزاروں صفحات پر مشتمل وائٹ پیپر جاری کیا تھا۔ اس میں پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے جرائم درج تھے، جسے 5 جولائی 1977ء کو ایک مارشل لا نے ختم کر دیا۔ اس وائٹ پیپر کا کیا بنا؟ اس سے متصل سوال یہ ہے کہ وائٹ پیپر جاری کرنے والوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ جب سیاسی اور غیرسیاسی تجربات کا حاصل ایک ہی ہے‘ تو پھر انتخاب کیا ہونا چاہیے؟
نواز شریف حکومت نے کرپشن کے معاملے کو سنجیدگی سے کیوں نہیں لیا؟ شہباز شریف صاحب نے انتخابی تقریروں پر معذرت کیوں کی؟ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ حکومت کو ترجیح قائم کرنا تھی: دہشت گردی یا کرپشن؟ کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف اقدام کے لیے حکومت کو پیپلز پارٹی کی معاونت چاہیے تھی۔ سندھ میں دو ہی جماعتیں ہیں‘ جو سیاسی عصبیت رکھتی ہیں۔ دونوں کو بیک وقت ناراض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس سے سیاسی بحران پیدا ہوتا‘ اور کراچی میں جرم کے خلاف کوئی فیصلہ کن معرکہ لڑنا مشکل ہو جاتا۔ یوں پیپلز پارٹی کو گوارا کیا گیا۔ افسوس کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اسے مہلت سمجھنے کے بجائے غنیمت جانا۔ سندھ میں معاملات کو اسی نہج پر چلایا گیا، جس پر وہ مرکز میں کاربند رہے اور جس کے باعث تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ ایک اقدام ہوا‘ تو زرداری صاحب نے اپنی معلوم فراست کے باوجود، ہوا کا رخ نہ پہچانا اور اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی۔ اب دوسرا اقدام ہوا‘ تو خورشید شاہ دھمکیوں پہ اتر آئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی طرح پیپلز پارٹی بھی اس حقیقت سے آنکھیں چرا رہی ہے کہ ہوا مخالف سمت میں چل پڑی ہے۔ اس کا انجام شاید اس کے لیے اچھا نہ ہو۔ عوامی حمایت سے محرومی کے بعد، وہ اب مزاحمت کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
آج ملک کے بنیادی مسائل دو ہیں: دہشت گردی اور کرپشن۔ دونوں کا ماخذ ایک نہیں۔ دہشت گردی اہل سیاست کی نہیں، کسی اور کی دیَن ہے۔ کرپشن کا انتساب البتہ اہل سیاست کی طرف ہے، اگرچہ دوسروں نے بھی حسب توفیق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ جن کی حکمت عملی میں دہشت گردی کی بنیادیں ہیں، انہوں نے سجدہ سہو کیا اور اصلاح کا راستہ اپنایا۔ صحیح طریقہ یہی ہے۔ اہل سیاست البتہ اس کے لیے آمادہ نہیں۔ کم از کم پیپلز پارٹی کی حد تک تو بالکل نہیں۔ لیکن کیا اس کی سزا جاری سیاسی عمل کو ملنی چاہیے؟
میرا خیال ہے‘ ترجیحات کا تعین آج بھی ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی کا قصہ بھی وہی ہے‘ جو ایم کیو ایم کا تھا۔ یہاں بھی جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہیں۔ پیپلز پارٹی کا معاملہ تو زیادہ سنگین ہے۔ یہ معلوم ہے کہ پاکستان کے اندردشمن ملک نے جاسوسی کا جال پھیلا رکھا ہے۔ اس کے کارندے روبعمل ہیں۔ بلوچستان میں اس پر بڑی حد تک قابو پایا جا چکا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سندھ میں اس کے اہلکار مصروف نہیں ہیں۔ کراچی میں ان کی موجودگی تو اب ایک کھلا راز ہے۔ یہی کچھ اندرون سندھ بھی ہو رہا ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ واضح شواہد کے باوجود، حکومت بھارت سے اس موضوع پر بات کرنے سے گریزاں ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ قوم پرستوں کے راستے میں پیپلز پارٹی ہی حائل رہی ہے۔ اب دیوار کو باقی رہنا چاہیے، اگرچہ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ کرپشن یا کسی دوسری برائی کو گوارا کیا جائے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے جو حکمت عملی بنائی جائے گی، اس میں یہ حقیقت پیشِ نظر رکھنا پڑے گی۔ یہ کام سیاسی حکومت کا ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن، دونوں محاذوں پر اب قیادت فوج کے پاس ہے۔ وفاقی حکومت کے پاس چھوٹے موٹے چند کام ہیں‘ جیسے انتخابی ٹربیونل کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار۔ جیسے ضمنی انتخابات کی تیاری۔ چودھری نثار صاحب کی آخری پریس کانفرنس دیکھ لیجیے۔ وہ جن کاموںکا کریڈٹ لے رہے ہیں، اصلاً وہی ہیں جو فوج کو سونپے گئے تھے۔ حکومت کوئی بیانیہ دے سکی نہ کسی ایک بھی شعبے میں کوئی پیش رفت دکھا سکی۔ فوج حکومت کے ماتحت ہے لیکن یہ ایک کتابی بات ہے۔ عوام ایسا نہیں سمجھتے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد تو صورت حال کو اس کے بر عکس دیکھ رہی ہے۔ میرے نزدیک یہ فوج اور سیاسی قیادت کے مابین فاصلوںکی نشان دہی کرتی ہے۔ اس کو جلد ختم ہونا چاہیے اور اسی میں ملک کا مفاد ہے۔
نواز شریف صاحب کو اب فوجی قیادت کے ساتھ مل کر تمام صورت حال کا نئے سرے سے جائزہ لینا چاہیے۔ ایک نئی حکمت عملی کا تعین‘ جس میں تقسیم کار کے اصول پہ آگے بڑھا جائے۔ مثال کے طور پر دہشت گردی کا ایک پہلو دہشت گردوں کا خاتمہ ہے‘ دوسرا سماج میں اس کے پھیلے نظریاتی و سماجی اثرات کو ختم کرنا۔ یہ کام فوج نے نہیں، حکومت نے کرنا ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے مسئلے کا ایک حل بندوق برداروں کو غیر مسلح کرنا ہے۔ پائیدار حل ان قائدین کو قومی دھارے میں لانا اور سیاسی عمل میں شریک ہونے پر آمادہ کرنا ہے۔ اس وقت کہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ فوج اور سیاسی قیادت کسی طے شدہ حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ براہمداغ بگٹی ایک اعلان کرتے ہیں‘ تو ڈاکٹر عبدالمالک اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ فوج کی طرف سے اس پہ کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں ہوتا۔ ان کے قریبی حلقے تو یہ تاثر دیتے ہیں کہ براہمداغ اپنی طاقت کھو چکا اور اب 'لا شئے‘ ہے۔ گویا اس کی کوئی اہمیت باقی نہیں۔ اس سے معاملہ کرنا نہ کرنا ایک جیسا ہے۔ اس تضاد کو لازم ہے کہ اب مخاطب بنایا جائے اور بحیثیت مجموعی۔
میری رائے یہ ہے کہ اس وقت ساری توجہ دہشت گردی کے خاتمے پہ مرتکز ہونی چاہیے۔ دوسرے مرحلے پہ کرپشن کو ہدف بنانا چاہیے اور اس عمل کو سیاسی حکومت کے تابع ہونا چاہیے۔ اس کے لیے عمومی قوانین ہی کو بروئے کار آنا چاہیے۔ فوج کی ساکھ اور آئینی کردار کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ان بکھیڑوں سے دور رہے۔ اس کے لیے نواز شریف صاحب کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ دھرنے کے دھچکے نے انہیں اتنا محتاط بنا دیا ہے کہ وہ چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر منہ لگا رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ انہیں اس خوف سے اب نکلنا چاہیے۔ وہ فوجی قیادت کے ساتھ مل کر ایک لائحہ عمل ترتیب دیں۔ ایک ہمہ جہتی پالیسی، جس میں تقسیمِ کار کے اصول پر، فوج اپنے حصے کا کام کرے اور سیاسی حکومت اپنے حصے کا۔ دونوں کی مشترکہ جدوجہد دہشت گردی اور کرپشن کی کمر توڑ دے۔ دہشت گردی اور کرپشن کو الگ الگ ہی رکھنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کا الزام بآسانی قبول کیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی میں معاونت کا مقدمہ شاید آسانی سے ہضم نہ ہو سکے۔ اس سے حقیقی جرائم بھی مشتبہ ہو جائیں گے۔